"IYC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے لیے نئے مواقع کا ظہور

حالیہ پاک بھارت جنگ پاکستان کے لیے فیصلہ کن فتح کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مواقع بھی لے کر آئی ہے۔ ان مواقع کا جائزہ لینے سے پہلے مودی اور اس کے گودی میڈیا کے ایک اور جھوٹ پر تھوڑی سی چرچا ہو جائے۔ نریندر مودی نے اپنے بیانات اور خطاب میں دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج نے اپنے مقررہ اہداف پورے کر لیے ہیں۔ اگر بھارتی فوج نے اہداف پورے کر لیے تھے اور بقول بھارت کے گودی میڈیا کے بھارت یہ جنگ جیت رہا تھا تو پھر اسے الٹے پاؤں واپس بھاگنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ بھئی اگر بھارت جیت رہا تھا تو اسے سیز فائر کی التجا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ جو جیت رہا ہوتا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ ہارنے والے کی ہار کو انتہا تک پہنچائے۔ یہ کیسی جیت تھی کہ ٹرمپ سے سیز فائر کی التجا کرنا پڑی؟ بھارت کتنا جیت رہا تھا‘ اس بارے میں پاکستان کے کسی جنگی یا حربی ماہر کا حوالہ دوں گا تو شاید اعتراض کیا جائے اس لیے بھارتی جنگی ماہر پروین سونی کی بیان کردہ تفصیلات پیش کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو 44چینی سیٹلائٹ کی کہکشاں میسر تھی جس کی وجہ سے اسے سارا جنگی تھیٹر اپنی تمام تر جزئیات سمیت دکھائی دیتا ہے‘ اور الیکٹرانک وار فیئر سے پاکستان نے ہماری تمام جنگی مشینری کے سگنل جام کر دیے حتیٰ کہ پاکستان ہمارے سارے جنگی پیغامات بھی سُن رہا تھا‘ یعنی بھارتی فوج کو اندھا‘ گونگا اور بہرا کر دیا گیا تھا۔ یوں کہیے جنگ کی پہلی رات ہی بھارت کی مانگ اُجڑ چکی تھی‘ اس کے بعد بھارت نے تین دن فقط اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔
مودی حکومت کی چاہے آواز نہ آ رہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ جنگی محاذ پر تو مودی کو اپنی کم عقلی کی وجہ سے شکستوں پر شکستیں دیکھنا ہی پڑیں‘ معاشی اور اقتصادی شعبوں میں بھی حالات کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے بعد دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کی باتیں تو کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مودی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ کیوں نہیں ہیں؟ اس کا جواب تلاش کرنے کیلئے حالات و واقعات کا مختصر سا جائزہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لیا تھا۔ آپ نے پڑھا ہو گا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئی فون پر نیا ٹیکس عائد کر کے بھارت کو ایک اور بڑے صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے بھارت میں بننے والے ایپل آئی فون کی حوصلہ شکنی کیلئے کہا ہے کہ آئندہ امریکہ میں صرف وہی آئی فون فروخت ہوں گے جو امریکہ میں بنیں گے نہ کہ بھارت یا کسی اور جگہ سے درآمد کیے گئے ہوں گے۔ یہی نہیں انہوں نے ایکس اکاؤنٹ پر ایپل کمپنی کو انتباہ کیا کہ آئی فونز صرف امریکہ میں تیار کیے جائیں کسی اور ملک میں نہیں۔ ان دھمکیوں کے بھارتی معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے بندے کا ارشمیدس ہونا ضروری نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ایپل ہر سال امریکہ میں چھ کروڑ سے زائد آئی فون فروخت کرتا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر امریکی سرزمین پر تیار نہیں ہوتا‘ زیادہ تر چین‘ بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں تیار ہوتے اور وہیں سے منگوائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس مارکیٹ میں چھلانگ لگائے کیونکہ پاکستان میں بھارت کی نسبت سستا آئی فون تیار ہو سکتا ہے۔ بھارتی معیشت سے متعلق ایک اور خوش آئند خبر یہ ہے کہ مودی کی جنگی مہم کی وجہ سے بھارت میں غیرملکی سرمایہ کاری 96.5فیصد تک گر چکی ہے اور یہ گراوٹ بھارت کی سرمایہ کاری کی تاریخ کی بد ترین سطح قرار دی جا رہی ہے۔ کیا یہ پاکستان کیلئے بہترین موقع نہیں ہے کہ وہ یہ سرمایہ پاکستان کی طرف کھینچے؟
ایسا ممکن ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ کی وجہ سے پاکستان میں جو ہم آہنگی اور اتحاد پیدا ہوا ہے اسے بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی سرمایہ کو بڑھانے کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت حقیقتاً ایک پیج پر ہے اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی جانب سے معرکۂ حق میں سیاسی قیادت کی دانش مندانہ رہنمائی‘ مسلح افواج کی کامیاب حکمت عملی اور پاکستان کے غیور عوام کے ٹھوس عزم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری‘ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اس عشائیے سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ فوج‘ عوام اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔ یہ ہم آہنگی متقاضی ہے کہ ملک میں ایسی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کی جائیں جن کے نتیجے میں بھارت سے نکلنے والی سرمایہ کاری پاکستان کو مل جائے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کا جو عندیہ دیا گیا ہے‘ وہ بھی دراصل ایک موقع ہی ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیرف کے معاملے پر امریکہ سے بات کرے اور امریکہ کے لیے اپنی برآمدات کا کوٹہ بڑھانے اور مختص کرانے کا بھی کہے۔ جاری مالی سال میں پاکستان کی برآمدات میں کچھ اضافہ تو ہوا لیکن اس سے زیادہ درآمدات کر لی گئیں۔ نتیجہ وہی دھاک کے تین پات‘ یعنی عالمی تجارت میں پہلے سے عدم توازن کا شکار ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ گیا۔ اس توازن یا عدم توازن کو مزید عدم توازن میں تبدیل ہونے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ امسال 13مئی کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم کی جو تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں‘ ان کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ یعنی جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء تک پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم پانچ ارب 53کروڑ ڈالر رہا۔ پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 4ارب 34کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات ایک ارب 19کروڑ ڈالر رہیں۔ پاکستان کی برآمدات امریکہ کی نسبت 3.15ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ حکمران اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو برآمدات کے اس حجم کو بڑھایا جا سکتا ہے اور پاکستان کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس معاشی بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔
بھارت کے ساتھ جنگ کا پاکستان کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ عالمی برادری نے جان لیا کہ پاکستان کے پاس بہترین جنگی آلات اور ہتھیار موجود ہیں۔ اس پاک بھارت جنگ کے بعد چینی جنگی جہازوں اور پاکستانی پائلٹوں کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے اور پاکستان سے جنگی آلات خریدے جانے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رضا حیات ہراج نے پچھلے دنوں بتایا کہ دفاعی صنعت میں ہمارے پاس اتنے آرڈر ہیں کہ ہم اگلے دو سالوں میں بھی شاید پورا نہ کر سکیں۔ یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اپنی اسلحے کی صنعت کو فروغ دے اور اس مقصد کے لیے چین کے ساتھ شراکت داری کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ ایک اور خوش خبری یہ ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان کو جدید ترین J-35A سٹیلتھ فائٹر طیارے جلد از جلد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ یہ اضافہ پاک فضائیہ کی طاقت بڑھائے گا اور بھارت کے لیے پاکستان کی جانب بری نیت سے دیکھنا اور زیادہ مشکل ہو جائے گا‘ یعنی پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ و مامون ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں