"IYC" (space) message & send to 7575

ایک اور جنگ

روس یوکرین جنگ اور غزہ میں اسرائیل کی تباہ کاریوں کا دکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ انسان اور انسانیت کو ایک نئی جنگ کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے رات کے سناٹے میں ایران پر حملہ کر دیا اور خاصا جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ ایران نے جوابی وار کیا ہے مگراسرائیل کی ڈرون اور میزائل انٹر سیپٹ کرنے کی ٹیکنالوجی نے اسے بڑا سہارا دیا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کا اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف یہ جنگ دو ہفتوں تک جاری رہی سکتی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ دو ہفتے بعد کا مشرقِ وسطیٰ کیسا ہو گا؟
اس حملے میں سب سے حیران کن‘ تشویشناک اور تعجب خیز ایران میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کا موجود ہونا اورایرانی حکام کا ان کی موجودگی سے لا علم ہونا ہے۔ اسرائیلی موساد کے کارندوں کی کارروائیوں نے اسرائیلی حملے کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق موساد نے ایران کے اندر مختلف مقامات پر خفیہ کارروائیاں انجام دیں جن میں کھلے علاقوں میں موجود زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایرانی میزائل سسٹمز کو گائیڈڈ ہتھیاروں سے نشانہ بنانا بھی شامل تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ موساد کے اس خفیہ آپریشن کے لیے ہتھیاروں سے لیس گاڑیوں کو ایران سمگل کیا گیا تھا۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے موساد کے ایجنٹوں نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو غیر مؤثر کر دیا جس کے بعد اسرائیلی طیارے بغیر کسی مزاحمت کے ایران کی فضائی حدود میں پرواز کرتے اور حملہ کرتے رہے۔
ایسے حالات میں جب غزہ میں جنگ جاری ہو‘ جب حزب اللہ کی طاقت پہلے جیسی نہ رہی ہو‘ جب ایران مسلسل پابندیوں کی زد میں ہو‘ جب اس کے امریکہ کے ساتھ ایٹمی ایشوز پر مذاکرات چل رہے ہوں اور جب اسے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل حملوں کی دھمکیاں مل رہی ہوں تو اس طرح کی بے احتیاطی اور بے خبری مہلک ثابت ہو سکتی ہے‘ جو ہوئی بھی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی 2024ء کو ان کی رہائش گاہ پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران آئے ہوئے تھے۔ حماس اور ایران کی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہینہ پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی۔ اسرائیل کے میڈیا سیل کی جانب سے ایک بیانیے میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس وقت ایران میں اسرائیلی ایجنٹوں کی موجودگی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس درجے کی بے احتیاطی کیا ظاہر کرتی ہے؟ ایک سینئر صحافی کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ جنگ سے پہلے دو دن امریکہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنے سفارت کاروں کو دی جانے والی ٹریول ایڈوائزری اور دیگر اقدامات دیکھ کر یقین ہو چلا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے مگر اس ساری صورت حال میں ایران محتاط نہ رہا اور اسے حملے میں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
بعض تجزیہ کار جب یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے ایران امریکہ مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا ہے‘ یا جب میں یہ سنتا ہوں کہ اگر امریکہ کے علم میں تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے تو اس نے نیتن یاہو کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ یا جب کبھی کوئی ایسا بیان نظر سے گزرتا ہے کہ اسرائیل نے امریکی احکامات نہیں مانے اور فلاں جگہ پر حملہ کر دیا یا فلاں کارروائی کر دی تو مجھے یہ ساری باتیں سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ معاملات کو بیان کرتے ہوئے آخر اتنی اینگلنگ (Angling) کیوں کی جاتی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کو سب سے زیادہ مالی اور حربی امداد فراہم کرنے والا ملک امریکہ ہے۔اور کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے کسی بھی فورم پر لائی جانے والی قراردادوں کو سب سے زیادہ امریکہ نے ہی ویٹو کیا۔ اور کون نہیں جانتا کہ مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں امریکی مفادات کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اس کے باوجود پتا نہیں کیوں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دو الگ الگ سوچ کے حامل ملک ہیں اور ان کی پالیسیاں الگ الگ ہیں۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ایران کو یہ دھمکی دی کہ وہ اب بھی امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے لیے تیار ہو جائے ورنہ اس کا کچھ نہیں بچے گا‘ تو کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے ایران پر یہ حملہ امریکی آشیر باد کے بغیر کیا؟ اور یہ کہ صدر ٹرمپ اگر چاہیں تو اس حملے کو اس کارروائی کو اور اس جنگ کو نہیں روک سکتے؟
بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے ‘ فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ جنگ کے ان شعلوں کو کیسے بجھایا جائے۔
ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں دو ہی راستے نظر آتے ہیں‘ اور اس کی وجہ میں نے اوپر بیان کر دی کہ سارے معاملات کو دیکھنے کے باوجود‘ غزہ‘ شام‘ لبنان حتیٰ کہ یمن میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال کو دیکھنے اور پرکھنے کے باوجود ایران نے اپنے تحفظ اور دفاع کے لیے شاید وہ تیاریاں نہیں کیں جن کی ضرورت تھی اور ہے۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ ایران کے پاس جو بھی طاقت موجود ہے اس کا بھرپور اظہار کرے اور اسرائیلی حملوں کا ایسا منہ توڑ جواب دے کہ اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہو جائے۔ ایسا ہو جائے تو ایران کو ہی نہیں غزہ‘ لبنان اور شام کو بھی سکون ملے گا۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو اس کے بعد دوسرا راستہ مفاہمت کا بچتا ہے اور مفاہمت کا راستہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ فی الحال کوئی مناسب معاہدہ کر لیا جائے جس میں ایران کی فیس سیونگ ہو جائے اور اس کے ایٹمی اثاثوں کو بھی بہت زیادہ نقصان نہ پہنچے۔ اس کا ایک طریقہ یورینیم کی افزودگی کو مکمل بند کرنے کے بجائے نچلی ترین سطح پر لانا ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں بارک اوباما کے دور میں امریکہ‘ کچھ دوسرے عالمی حیثیت کے حامل ممالک اور ایران کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی یورینیم کی افزودگی کو نچلی ترین سطح پر لانے کے لیے ہی کہا گیا تھا۔ افسوس کہ صدر ٹرمپ ہی نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اس معاہدے کو ختم کر دیا۔ ویسا ہی ایک معاہدہ اب بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن ضروری ہے کہ اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اور تیزی کے ساتھ کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ اگر ایران اسرائیل کو بھرپور جواب نہیں دے سکتا تو مزید تباہی سے بچتے ہوئے جاری صورت حال سے نکلنے کا ایک مناسب راستہ تلاش کیا جا سکے۔ مختلف ادوار میں جاری رہنے والی ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اس کے مالی حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور یہ جنگ اگر جاری رہی تو اس کی وجہ سے عالمی معیشت کو تو نقصان پہنچے گا ہی خود ایران بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے اور ایسا ممکن نہیں تو تباہی سے بچتے ہوئے کوئی امن کا راستہ اختیار کر لیا جائے۔ اقوام متحدہ اس سلسلے میں کردار ادا کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ اس کی قرادادوں کو اسرائیلی قیادت در خور اعتنا نہیں سمجھتی۔ ایسے میں امن قائم ہو تو کیسے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں