حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا جس کے نتائج کے بارے میں کوئی بھی بے خبر نہیں کیونکہ عوام یہ حقیقت اچھی طرح جان چکے ہیں کہ انہیں اس اضافے کے نتیجے میں نہ صرف اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کیلئے براہِ راست مہنگا تیل خریدنا پڑے گا بلکہ قیمتوں میں اس اضافے کے نتیجے میں برپا ہونے والے مہنگائی کے طوفان کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں جو اضافہ ہو گا وہ اس پر مستزاد۔ یہ تو سبھی جانتے ہی ہیں کہ پٹرول زیادہ تر موٹر سائیکلوں‘ رکشوں اور نجی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے اس کی قیمت میں اضافہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے بجٹ پر براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔
عام طور پر عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں اور درآمدی اخراجات میں اضافے کو پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن یکم جولائی کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی جو وجوہ بتائی گئیں وہ حیران کن تھیں۔ معاشی معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو پٹرولیم کی قیمتیں بڑھنے کی دو وجوہات بتائی تھیں: پہلی وجہ ایران اسرائیل جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا اور اسی دوران پاکستان نے تیل خریدنے کے سودے کیے تھے‘ اور اب اسی کے اثرات عوام کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ دوسری وجہ حکومت کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل پر لگایا جانے والا ایک نیا ٹیکس ہے جو ڈھائی روپے فی لٹر ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے مالی سال 2025-26ء میں فی لٹر ڈھائی روپے کاربن لیوی (ماحولیاتی ٹیکس) پٹرول‘ ڈیزل اور فرنس آئل پر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا اطلاق اب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کاربن لیوی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانے والے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلٹی فنڈ کے تحت 1.4ارب ڈالر کے ماحولیاتی تحفظ کے قرض کا حصہ ہے۔ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے اثرات بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو متاثر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب جو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بار بار اضافہ کیا جا رہا ہے اس کی وجوہات بھی وہی ہیں جن کا اظہار شہباز رانا نے کیا تھا یا اس بار کچھ نئے معاملات کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا جواز بنایا گیا ہے؟
ماضی میں یہاں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ملک کو وہ معاشی بنیاد فراہم نہیں کی جو حقیقی ترقی کی منزل کی جانب لے جاتی ہے اور اس کے بجائے ملکی و غیر ملکی قرضوں اور دوسرے ممالک سے ملنے والی امداد کے بل پر بجٹ بنائے جاتے رہے اور حکومتی اخراجات پورے کیے جاتے رہے۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت آیا جب دوسرے ممالک پاکستان کو قرضہ دینے یا امداد کرنے سے کترانے لگے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض بھی کڑی شرائط پر ملنے لگے۔ لہٰذا حکومتوں نے گیس‘ پانی‘ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگانے شروع کر دیے کیونکہ یہ ریونیو اکٹھا کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی آمدنیوں پر ٹیکس کاٹنے جتنا ہی آسان طریقہ۔ انوکھی بات یہ ہے کہ دھڑا دھڑ براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس اکٹھے کرنے کے باوجود ملک سر تا پا قرضوں کی دلدل میں دھنسا نظر آتا ہے اور قرضہ حاصل کرنے کیلئے ہماری حکومتوں کو عالمی اقتصادی اداروں کی ایسی ایسی شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں جو عوام کو ہر بار بے چین کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ہم عالمی اقتصادی اداروں سے قرضے لے کر گزارہ کرنے کی لت میں کس بری طرح گرفتار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے پہلا پروگرام دسمبر 1958ء میں طے پایا تھا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس کے بعد مزید 23 بار ہم آئی ایم ایف سے رجوع کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تھمتا نظر نہیں آتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر حکومت اپنے دور میں معیشت کے ترقی کرنے حتیٰ کہ ٹیک آف کی پوزیشن پر آ جانے کے دعوے کرتی ہے‘ لیکن جب وہ حکومت رخصت ہوتی ہے اور نئی سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد برسرِ اقتدار آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ قومی خزانہ تو خالی ہے اور اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ملکی ضروریات ہی پوری کی جا سکیں‘ اس لیے اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے فوری طور پر عالمی اقتصادی ادارے سے قرض لینا پڑے گا۔
ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی معیشت کے مستحکم ہونے کے دعوے کر رہی ہے‘ قومی اقتصادیات کے ٹیک آف کی پوزیشن پر آنے کی خوشخبریاں بھی سنائی جا رہی ہیں‘ لیکن حالات یہ ہیں کہ عوام کو بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر عائد کردہ ٹیکسوں کے جال میں جکڑ دیا گیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ جب بھی توانائی کے ان ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے مہنگائی کا ایک نیا طوفان عام آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور یہ بات ایک لطیفے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ ہر اپوزیشن پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی یا گیس کے نرخوں میں اضافے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے لیکن جب یہی اپوزیشن برسر اقتدار آتی ہے تو عوام کی مالی تکالیف کا احساس کیے بغیر نرخوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے‘ عوام دوست ہونے کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ عوام کُش پالیسیوں پر عملدرآمد بھی جاری رہتا ہے۔ پتا نہیں یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟ عوام کی قوتِ خرید ہی نہیں‘ اب ہمت اور برداشت بھی جواب دے چکی ہے۔ ہر بار صرف انہی سے قربانیاں طلب کی جاتی ہیں‘ کبھی کسی لیڈر نے‘ کسی سیاسی رہنما نے عوام اور ملک کی خاطر قربانی دینے کی بات نہیں کی۔
ایک زمانہ تھا کہ سال میں ایک دو بار ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم یا زیادہ کیے جاتے تھے اور باقی سارا سال پٹرول وغیرہ اسی قیمت پر فروخت ہوتا تھا۔ اب تو ہر 15 روز بعد عوام کی برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں کم یا زیادہ کر دی جاتی ہیں۔ عوام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جیسے لوڈ شیڈنگ سے کسی کو کوئی غرض نہیں کہ لوگ کیسے تڑپتے ہوں گے۔ لوڈ شیڈنگ کی بھی سن لیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ صرف ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جن علاقوں میں ادائیگیاں پوری نہیں کی جاتیں‘ لیکن ان دنوں لاہور کے مختلف علاقوں میں باقاعدگی سے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور زیادہ تر گھریلو صارفین ہی نشانہ ہوتے ہیں۔ کوئی بتائے گا کہ گلی محلوں میں کون ہے جو بلوں کی ادائیگیاں نہیں کر رہا اور پھر بھی اس کی بجلی نہیں کاٹی گئی۔ ہمارے یہاں سارے اصول اور ضابطے صرف بے بس کے خلاف ہی فوراً نافذ اور لاگو ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب متعلقہ اداروں اور حکام کو معلوم ہے کہ کس علاقے سے ادائیگیاں پوری نہیں کی جاتیں تو ان کے خلاف قوانین کو حرکت میں کیوں نہیں لایا جاتا۔
کہنا بس یہ ہے کہ حکومت توانائی کے ذرائع کے نرخوں میں بار بار اضافوں کا یہ سلسلہ بند کرے اور ریونیو اکٹھا کرنے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈا جائے۔ جو اضافہ کیا جا چکا ہے اس کو آہستہ آہستہ ہی سہی‘ واپس لینے کے بارے میں سوچا جائے۔ حکومت اور حکمرانوں پر عوام کا اعتماد قائم رکھنے کیلئے یہ بے حد ضروری ہے۔