"IAC" (space) message & send to 7575

ایسا انتخاب کسی نے دیکھا؟

کسی نے ایسا انتخاب کبھی دیکھا تھاکہ دہشت گرد قومی ایجنڈا طے کریں اور جس کو چاہیں گھروں میں بند کردیں اور جسے چاہیں کھلا چھوڑدیں۔ ’’جمہوری کفر ‘‘کے ساتھ طالبان نے کیا غضب ناک ہاتھ کیاہے۔ بلٹ کے سامنے بیلٹ والے کب ٹھہر سکتے ہیں، اس حال میں کہ اُسے روکنے والے دعوئوں کے باوجود مصلحت کیش ہوں۔ طالبان نے دو چھوٹے صوبوں اور تین آزاد خیال جمہوری جماعتوں سے تو انتخابی مہم چھینی ہی تھی، رہی سہی کسر بلوچ مجاہدین نے بلوچستان میں پوری کر کے انتخابی مہم کی عیاشی کو چند پارٹیوں بالخصوص عمران خان اور پنجاب تک محدود کر دیا ہے۔ پختون خوا میں انتخابی مہم کا اجازت نامہ بھی صرف مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے پاس ہے اور پنجاب میں انتخابی زور شور دیکھ کر چھوٹے صوبوں میں جو ردِّعمل پیدا ہو رہا ہے، اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ بظاہر یہ دہشت گردی کی ’’ناانصافی‘‘ ہے اور وہ بھی کافرانہ انتخابی عمل میں شامل اُن جماعتوں کے حق میں جو اُن کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ نہیں سمجھتے چاہے اس میں ہزاروں پاکستانی اور فوجی کیوں نہ مارے جا رہے ہوں اور قتلِ عام کا بازار گرم ہو۔ آخر اس کا بونس بھی تو ہمارے مولانا (فضل الرحمان) اور ہر دلعزیز کپتان کو مل رہا ہے۔ میاں نواز شریف کا معاملہ دوسرا ہے، اُن کے لیے جنرل پرویز مشرف کی چھیڑی ہوئی جنگ میں کودنا ایک کٹھن فیصلہ ہے جو بالآخر انہیں طوعاً و کرہاً کرنا ہی پڑے گا۔ بات چیت کا شوق وہ پورا کر لیں پھر آستینیں تو چڑھانی ہی پڑیں گی۔ یوں لگتا ہے کہ تین چھوٹے صوبوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح اور نتائج پنجاب سے یکسر مختلف ہوں گے ، یہ تقسیم آگے کیا رنگ لائے گی، وہ خوفناک بھی ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی پر لگی طالبان کی بندش کے بعد پنجاب میں میدان میاں نواز شریف اور عمران خان کے بیچ لگا دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی ماضی کی شہادتوں کی دہائی دیتے ہوئے ساری اشتہاری مہم اپنے لیے کم ،نوازشریف کے خلاف زیادہ چلا رہی ہے اور عمران خان ہیں کہ سارا زور تختِ لاہور شریفوں سے چھیننے کے لیے لگا رہے ہیں اور کون سا حربہ ہے جو استعمال نہیں کر رہے۔نواز لیگ کی شریفانہ مہم کا بنیادی زور پاکستان کے معاشی مستقبل اور مسائل سے چھٹکارا پانے کی یقین دہانیوں پر ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اپنے سیاسی گورکنوں کے ہاتھوں یوں ذلیل نہ ہوتی تو یہ انتخابات اُس کے لیے بہترین موقع تھے، جب پہلی بار دایاں بازو اتنا منقسم ہے۔ مگر بھٹوز کے بغیر پی پی پی بغیر سر کے دھڑ کی مانند ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک عجیب طرح کا لیکن سمجھ میں آنے والا جگتو فرنٹ نواز شریف کے خلاف بنتا نظر آ رہا ہے۔ منتخب دہشت گردی کا نشانہ اگر مسلم لیگ نواز کو بھی بنایا جاتا تو پھر پنجاب میں بھی انتخابی مہم کی معرکہ آرائی کہیں نظر نہ آتی اور انتخابات کا التوا یقینی ہو جاتا۔ سمجھداری یہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ باندھ کر مقابلہ عمران خان اور نواز شریف میں کروا دیا جائے تاکہ پنجاب سے عوامی منشا اس طرح تقسیم کر دی جائے کہ ایک معلق اسمبلی میں پھر سے اقتدار کی کرسیوں کے گرد کھیل تماشا لگا رہے۔ لیکن کیا سارا تماشا نواز شریف سے اقتدار کی ممکنہ ’’رضائی‘‘ چھیننے کے لیے تو نہیں لگایا جا رہا؟ بات ایسی سادہ نہیں! پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پاکستان میں گزشتہ چالیس سال سے جاری نظری اور سماجی تقسیم کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ اسی بُعدِضدین میں دونوں اطراف کی سیاست کی گرمی سردی برقرار رہی ہے۔ اب یہ شاید کافی ماند پڑ گئی ہے اور بلاول بھٹو آج نہیں کل کے لیڈر ضرور ہو سکتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی میدان ہی میں نہیں اُتری یا اسے اُترنے نہیں دیا جا رہا (صدر زرداری کے خلاف سیاسی عہدہ نہ رکھنے پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور طالبان کی دہشت) تو نئی تقسیم تو وجود میں آنی ہی تھی، خلا توہونے سے رہا۔ ویسے بھی لوگ پرانے ہیرو دیکھتے دیکھتے بور ہو جاتے ہیں اور نئے چہروں کی تلاش جاری رہتی ہے خواہ نئی فلم کتنی ہی پِٹ کیوں نہ جائے۔ اب ایک نئی نسل میدان میں اُتری ہے جس کا جمہوری تاریخ اور ماضی کی فکری جدوجہد سے دُور کا واسطہ بھی نہیں۔ معذرت کے ساتھ ،بدقسمتی سے یہ نئی نسل فکری و علمی اعتبار سے کافی نابلد اور مواقع نہ ملنے کے باعث ناراض اور ماضی کی جماعتوں سے نالاں ہے اور اسے کسی ایسے مسیحا کی تلاش ہے جو اُن کی تمام تر آشائوں کو پورا کرنے کا یقین دلا دے۔ قومی ہیرو بنے تو عمران خان کو کئی دہائیاں ہو چلی ہیں اور سیاست میں بھی وہ سترہ برس سے ہیں، تو پھر اچانک وہ عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر کیسے سوار ہو گئے؟ اس کی صرف تین بڑی وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ عوام دونوں جماعتوں کو کئی بار دیکھ چکے ہیں اور اُن کے ساتھ اُن کا رومانس کم و بیش ادھورا رہ گیاہے ۔ دوئم یہ کہ دو بڑی جماعتوں میں نئے لوگوں کے لیے جگہ بنانا مشکل تھا کیونکہ قیادت دو تین خاندانوں میں گھومتی رہی ہے۔ اور سوئم یہ کہ جمہوریت میں ایک تیسری قوت کی گنجائش بڑھ گئی جس کے لیے ہمارے متذبذب نوجوان بے قرار تھے۔ جتنے یہ کنفیوژ تھے، انہیں ویسے ہی نعروں اور وعدوں والا کرکٹ ورلڈ کپ کا ہیرو اور مسیحا بھی مل گیا جو شوکت خانم ہسپتال کے ذریعے پہلے ہی خلعتِ مسیحائی اوڑھ چکا تھا۔ دینے کو تو میاں نواز شریف معاشی طور پر ایک مضبوط پاکستان کا پروگرام دے رہے ہیں اور کافی لوگ اُن کی استعداد پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ لیکن عمران خان وعدوں اور نعروں کے جو چوکے چھکے لگا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر سونامی اور جنون کی جو بے معنی ہلڑبازی ہورہی ہے اُس سے عوامی مزاج کی تماش بین نفسیات میں کافی انگیخت پیدا ہورہی ہے ۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ مدنی ریاست، عدل و انصاف، کرپشن کا خاتمہ، ڈرون گرانے سے امریکی غلامی سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھائی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے تک کونسا تارا ہے جو توڑ کر وہ اِن سادہ لوح نوجوانوں کی خیالی جھولی میں ڈال دینا نہیں چاہتے۔ اگر اس وقت کوئی متحرک ترین سیاسی عامل میدان میں ہے تو وہ ہے عمران خان کا نوجوانوں کا ریلا۔ گو ،پنجاب حکومت کی کارکردگی ویسی خراب نہ تھی جیسی مرکز میں یوسف رضا گیلانی حکومت کی تھی،شہباز شریف ہر وقت کچھ نہ کچھ کر گزرتے نظر آئے اور انہوں نے بطور منتظم اپنی دھاک بٹھائی جبکہ پی پی پی بہت کچھ کرنے کے باوجود خالی ہاتھ رہی۔ عمران خان کے لیے دونوں حکمران جماعتوں کو ایک ہی پلڑے میں ڈالنا کوئی زیادہ مشکل کام نہ تھا ۔ پیپلز پارٹی اور دوسرے پردہ نشین ایک عرصہ سے عمران خان کو نواز شریف کے خلاف کھڑا کرنے کے آرزو مند تھے اور عمران خان سبھی کو بمع ہمارے مولانا ، ایک ہی ہلّے میں میدان سے باہر کر دینے کے زعم میں مبتلا ہیں، ایسا شاید نہ ہو۔ جو ہونا ہے وہ یہ کہ شاید کوئی پارٹی 100 کے ہندسے سے اوپر نہ جائے اور اگر میاں نواز شریف پنجاب میں 100 سے اوپر نشستیں نہیں لیتے تو وہ کم از کم ویسے وزیراعظم نہیں بن سکتے جیسا وہ چاہتے ہیں۔ اگر بنیں گے بھی تو عمران خان نے اُن کے کافی پر کاٹ دیئے ہوں گے۔ اور اگر عمران خان کے حق میں پنجاب کی لہر ذرا اور بڑھ گئی اور یہ پختون خوامیں دُور تک چلی گئی تو وہ سب کو حیران بھی کر سکتے ہیں، لیکن سیٹوں کی سنچری کیے بغیر۔ ایسے میں جب پنجاب میں بڑی تقسیم کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی تو کھیل وہ کھیلے گا جس نے عوامی سیاست کو دھتکار کر جوڑ توڑ کی سیاست میں اپنا ’’تانبا‘‘ منوایا ہے۔ خواہ مخلوط حکومت نواز شریف بنائیں یا پھر عمران خان، سمجھوتہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ نواز شریف یہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور اپنے چھوٹے بھائی کی زبان بندی بھی کر سکتے ہیں۔ متکبر خان کے نوجوان شاید انہیں یہ نہ کرنے دیں اور انہیں حزبِ اختلاف کی ہلڑبازی پر مجبور کر دیں۔ کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے۔ اگلی حکومت کو بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ خواہ معاشی میدان میں ہوں یا حکومتی انتظام میں اور ریاست کی اپنے علاقوں پر بالادستی قائم کرنے اور دہشت گردی کو صاف کرنے کے حوالے سے۔ یہ کام اکیلا آصف زرداری کر سکتا تھا نہ نواز شریف اور عمران خان، ایک ادارہ نہ اور ادارے۔ ایک بڑی قومی اتفاقِ رائے کی حکومت کی ضرورت ہوگی جس کے لیے کم از کم اونچی اُڑان والے عمران خان کے لیے آمادہ ہونا مشکل ہوگا کہ اُن کے نوجوان کہیں بپھر کر انہی پر نہ پلٹ پڑیں۔ پاپولزم کی آندھی چلانا آسان، اس پر قابو پانا مشکل۔ طالبان نے جو پتے کھیلے ہیں، وہ غضب کے ہیں ۔دیکھیے کیا وہ اپنی پسند کے لوگ لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ ہوگا جس کا اعلان جنرل کیانی نے کیا ہے کہ خواہ کوئی حکومت بنائے۔ ہائے میری جمہوریت، کیا اسی لیے ہم تیرے لیے ساری عمر جوتے کھاتے اور سر پٹختے رہے۔ ایسا انتخاب کسی نے دیکھا؟ بس جمہوریت چلتی رہے، وہ صبح کبھی تو آئے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں