"IAC" (space) message & send to 7575

ہمارے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف!

جی ہاں!وہ تیسری بارمنتخب ہورہے ہیں اورواضح اکثریت کے ساتھ اوراس اعتماد اور اصرار کے ساتھ کہ اس بار وہ نہ صرف اپنی مدت انتخاب پوری کرپائیں گے بلکہ ملک و قوم کی ترقی کے اپنے خوابوں کو جس حد تک ممکن ہوا حقیقت کا روپ دے پائیں گے۔ارادہ اچھا اور مشن ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔بھٹو نواز اور بھٹومخالف سیاسی ونظری تقسیم سے ابھرکر آنے والے نوازشریف نے قومی اتحاد کی مخلوط قوتوں اور طبقوں کی حمایت کواپنی قیادت میں لاکر اک نئے جمہوری اورترقیاتی قالب میں ڈھال دیاہے۔ اس میں اب نہ مذہبی جماعتیں رہیں‘ نہ ضیا ء الحق کے ورثے والے۔بطور ایک سیاسی رہنما انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کاسہارا لے کرکیاتھا ۔لیکن پہلی بار وزیراعظم بنتے ہی انہیں اسلامی جمہوری اتحاد(IJI) راس آیانہ اسٹیبلشمنٹ کاسہارا۔ ان کی سیاسی بلوغت افسر اعظم غلام اسحاق خاں کی آمرانہ انانیت سے ٹکراگئی۔اورپھر ایک انقلابی تقریر نے ان کی سیاسی کایاپلٹ دی اور وہ بینظیر بھٹو کی طرح ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کاشکارہوگئے۔ اس کے بعدانہوں نے واپس پلٹ کر نہ دیکھا ۔دوسری بار جب پھر وہ دوتہائی اکثریت سے منتخب ہوکرآئے اور انہوں نے برصغیر پاک و ہند کیلئے ایک نیا ایجنڈا دیاتو انکے خلاف کارگل ایڈونچرکیاگیا۔ باوجودیکہ بھٹوصاحب کی طرح انہوں نے کارگل میں گھرے ہمارے حربی دستوں کی واپسی کی راہ ہموار کی‘ ان کے خلاف پھر سے ایک فوجی مہم جُو نے سازش کی اورملک پرپھر سے فوجی آمریت مسلط کردی گئی۔ان گناہ گارآنکھوں نے ایک وزیراعظم کی پھانسی کے بعدایک اوروزیراعظم کو ناکردہ گناہ میں ہتھکڑی لگے دیکھا۔قید وبند اورجلاوطنی کی بھٹی سے گزرکر وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پرمتفق ہوکر اس پر استقامت سے قائم رہے۔گزشتہ پانچ برس میں انہوں نے جمہوریت کے اس عہدنامے کی لاج رکھی اورجمہوریت کوپٹری سے اتارنے کی ہرسازش کوناکام کرنے کی تہمت بڑے صبروتحمل سے تمغہ سمجھ کر اپنے سینے پہ سجائے رکھی۔ صدرآصف زرداری، میاں نواز شریف اور تمام جمہوری جماعتوں نے اتفاق رائے سے تین آئینی ترامیم کرکے نہ صرف جمہوریت پر شب خون مارنے کے دروازے بندکردئیے‘ بلکہ آزادانہ ،منصفانہ انتخابات کیلئے ایک عبوری آئینی نظام اورخودمختار الیکشن کمیشن بناکر جمہوری عمل کے تسلسل کویقینی بنادیا۔اوراس کاپھل کھانے کے میاں نوازشریف جائزحقدار ٹھہرے۔کونسا حربہ ہے جو ان کے خلاف استعمال نہیں ہوا کہ انکی اکثریت کو زیادہ سے زیادہ تحلیل کیاجائے۔ لیکن سب کو منہ کی کھانی پڑی۔انتخابات ہوچکے اورماضی کے مقابلے میں کہیں صاف ستھرے ہوئے۔ اب حکومتیں بنانے کاوقت ہے اورعوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرنے کاامتحان۔ یہ نوازلیگ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اوربلوچستان کے قوم پرستوں کاامتحان بھی ہے اورملک کوپھرسے امن وترقی اوراستحکام کی جانب رواں دواں کرنے کا ایک اور موقع بھی ۔کیا ہمارے منتخب وزیراعظم ملک کودرپیش بڑے اورسنگین چیلنجوں سے نمٹ پائیں گے؟کیاانہیں تمام جمہوری قوتوں اور طاقتور اداروں کی بھرپور حمایت مل سکے گی؟کیا وہ معیشت کے پہیے کو مناسب رفتار سے حرکت دے پائیں گے؟کیا وہ دہشتگردی کے عفریت کوبوتل میں بندکرکے امن وامان بحال کرسکیں گے؟ کیا وہ بلوچستان میں لگی آگ بجھا پائیں گے؟ اور کیاوہ خطے میں امن اورباہمی تعاون کے انقلابی ایجنڈے کی تکمیل کرپائیں گے؟ یہ اوراس طرح کے اوربڑے چیلنج منہ پھاڑے نئے وزیراعظم کے منتظر ہیں! میاں نوازشریف میں تحمل ،انکساری،بردباری ،معاملہ فہمی اوراستقامت بڑھی ہے۔ وہ اب اچھے خاصے سیاستدان سے زیادہ ریاستدان (Statesman)بن گئے ہیں ۔ماضی کے تجربوں سے انہوں نے بہت کچھ سیکھاہے اوروہ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرینگے۔البتہ منتخب وزیراعظم اورعوام کے مینڈیٹ کے تمام ریاستی اداروں سے آئینی و قانونی احترام کے متمنی ہیں‘اس اصرار کے ساتھ کے وہ اداروں کو مضبوط کرینگے۔اپنے خلاف کی گئی فوجی بغاوت کی تلخی سے وہ باہرنکل آئے ہیں اوراپنی امن وترقی کی سوچ کو تمام اداروں کی شرکت سے اتفاق رائے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔میاں نوازشریف نے کوئی بات نہیں چھپائی، ہر بات کھول کر عوام کے سامنے بیان کی ہے۔ ان کاسارا زورمعاشی بحالی اور اقتصادی ترقی پر ہے۔ان کی خطے میں امن کی خواہش بھی اقتصادی مقصدلیے ہے۔بھارت کے ساتھ وہ اچھی پوزیشن سے معاملات طے کرناچاہتے ہیں اورپاکستان کواندرونی مسلح انتشار سے نکال کرمہذب ملکوں کی صفوں میں شامل کرنے کے خواہش مندہیں۔پاکستان کے دفاع اورسلامتی پہ کوئی ان سے بڑامحب وطن نہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے وہ خود بڑے نقیب ہیں اور جمہوریت پہ ان کا یقین پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔وہ عمران خان کوساتھ لے کرچلناچاہتے ہیں توبلوچ قوم پرستوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کے متمنی ہیں۔اچھی حکمرانی کے داعی ہیں اوریہی انکابڑا امتحان بھی! لیکن مملکت خداداد جن مشکلوں میں پھنسی ہے اورجوریاستی، معاشی وسماجی بحران موجودہے وہ ایک قومی ایجنڈے اورقومی اتفاق رائے کامتقاضی ہے ۔یہ ایک جماعت کاکام ہے نہ ادارے کا۔پہلاسوال جو ہر بارحکومتی بحران کاباعث بناہے وہ طے ہونا ضروری ہے۔وہ ہے ریاستی اقتداراعلیٰ کامرکزکہاں ہے؟ آئین و جمہورکی بالادستی کے حوالے سے جواب آسان ہے: عوام کی منتخب حکومت !تمام ریاستی ادارے یکسوئی سے اس کاحصہ ہوں توحکومتی اورحکمرانی کابحران پیدانہیں ہوتا۔ اور ایسا اب ہونابہت ہی خوفناک نتائج کاباعث ہوگا۔تمام ریاستی مشینری،سول اورفوجی‘ انتظامیہ کاحصہ ہوتی ہے اوروزیراعظم اسکاچیف ایگزیکٹو اوروہ اور اسکی کابینہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔لیکن طاقت کے توازن کے حقائق یہاں کچھ اور ہیں ۔ میاں نوازشریف،سیدیوسف رضاگیلانی یاراجہ پرویزاشرف کی قسم کے وزیراعظم نہیں ۔حقیقی وزیراعظم ہیں ۔وہ چاہیں گے کہ تمام ریاستی مشینری ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں جوکہ آئینی تقاضا ہے۔ وہ یہ بھی کسی صورت نہیں چاہیں گے کہ1999ء کی تاریخ دہرائی جائے‘ نہ ان کی طرف سے نہ کسی اور کی طرف سے۔ اور سب ہی کوجانناچاہیے کہ ہماراملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان سے2014میں غیرملکی فوجوں کاانخلاء اور اس کے پاکستان پرپڑنے والے اثرات اتنے اثرانگیز ہونگے کہ پاکستان کسی طرح کی اندرونی کشمکش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اندرونی دہشتگردی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ جنرل کیانی نے شہداء کی یاد میں منعقدہ تقریب میں جوتقریر کی اس پر سبھی سیاسی قوتوں کو صاد کرنا چاہیے۔میاں نوازشریف جہاں سنجیدہ مذاکرات کی بات کررہے ہیں وہاں پاکستان کی سرزمین پہ کسی دہشت کی کمیںگاہ سے ملک کے اندر یاباہر ہونے والی دہشتگردی کامکمل سدباب چاہتے ہیں۔اندرونی و بیرونی سلامتی کے معاملات پرایک مربوط قومی پالیسی اوراس پر عملدرآمد کیلئے ایک اندرونی وبیرونی سلامتی کے ایسے قومی ادارے کی ضرورت ہے جس پر ملک کی تمام ذہنی وحربی قوتیں مجتمع ہوجائیں‘ توپھرمسئلہ کیا؟ ایک جمہوری وآئینی مملکت کیلئے کہاں اچھالگتاہے کہ باہر کے لوگ یہ پوچھیں کہ کس سے بات کریں؟اورہم نے یہ منظر گزشتہ پانچ برس میں مسلسل دیکھاہے‘ جب بیرونی وفود کو ہماراموقف جاننے کیلئے تین تین جگہوں پر طاقت کے مختلف مراکز سے انکی رائے معلوم کرنی پڑتی تھی۔جب صدرزرداری نے بھارت کو بات چیت کی دعوت دی تو پوچھاگیا کہ وہ کون ہیں اورکس سے بات کیجائے؟۔اب یہ تماشہ نہیں ہوناچاہیے۔ کارگل ہو نہ ممبئی ہو اور سپہ سالار فارغ ہواور نہ فوجی بغاوت۔آج کاپاکستان اور ہے‘ اور1999ء کاپاکستان اور تھا۔ وزیراعظم خلیفۃ المسلمین بنے نہ کسی ادارے کاسربراہ آئین وقانون سے ماورا!ملک کی معاشی بحالی کیلئے سخت فیصلے کرنے ہونگے اوروہ کافی غیرمقبول بھی ہونگے۔ ٹیکس کانظام ٹھیک کرناہے، حکمرانی اچھی کرنی ہے، ریاستی کارپوریشنز کے خسارے ختم کرنے ہیں، توانائی کابحران حل کرناہے اورمعیشت کے پہیوں کوحرکت دینی ہے۔نظام تعلیم ٹھیک کرناہے‘ روزگار پیداکرناہے اورلوگوں کیلئے اچھی زندگی کے ذرائع اورمواقع پیداکرنے ہیں۔ امن و امان بحال کرکے ریاست کی رٹ پورے ملک پرحاوی کرنی ہے۔بلوچستان کے لوگوں کے دل جیتنے ہیں اورانہیں پوری عزت وحقوق کے ساتھ قومی دھارے میں لاناہے۔ سب سے بڑھ کر دہشتگردی کے عفریت کوقابو کرناہے جو ہمارے پیارے پاکستان کو انارکی کے طوفان میں دھکیل رہاہے۔یہ سب کچھ ایک وزیراعظم کے بس کانہیں ،نہ پوری کابینہ کے بس کا۔اس میں سب کواپناحصہ ڈالنا ہے‘اسی میں ہماری بقاء ہے۔پالیسی طے کرلی جائے اور ہر ادارے کا رول طے کردیاجائے ۔نگرانی کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے۔ ناانصافی کو ظاہر کرنے کو میڈیا اورانصاف کرنے کو عدلیہ، قانون نافذکرنے کو قانون نافذکرنیوالے ادارے اور اندرونی و بیرونی سلامتی کے تحفظ کیلئے افواج پاکستان۔بس ریاستی امور کو طے کرنے کے اصول وضوابط(Modus Operandi) طے کرلیے جائیں تو سب ٹھیک رہے گا۔ (کالم نویس جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی این جی او سیفما کے سیکرٹری جنرل اور سائوتھ ایشیا جرنل کے مدیر ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں