کبھی اِن آنکھوں نے ایسے جمہوریت افروز منظر دیکھے تھے کہ اسمبلیاں بخیر و عافیت اپنی مدت پوری کریں اور عوام کو احتساب و انتخاب کا آئینی حق دیں؟ منتخب وزیرِ اعظم گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیے جائیں اور منتخب حکومتوں کی جگہ اتفاقِ رائے سے یا پھر آئینی طریقے سے غیرسیاسی اور غیرجانبدار حکومتیں عبوری انتظام سنبھالیں۔ وہ لوگ جو ہمیشہ سے شب خون مارنے یا پھر چور دروازوں سے اقتدار پر مسلط ہونے کے خواب دیکھا کرتے ہیں کو یقینا مایوسی ہوئی ہوگی کہ ٹیکنوکریٹس حکومت لانے کی سازش کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پائی۔ ہر دو اطراف کی اعلیٰ قیادت نے طے کر لیا تھا کہ کسی ایسے ماہر کو باہر رکھا جائے جو عبوری دور سے آگے کے عزائم رکھتا ہو۔ اسی لیے حفیظ شیخ اور عشرت حسین، مقتدر عالمی و مقامی عناصر کی سر توڑ کوشش کے باوجود عبوری وزیراعظم کی دوڑ سے باہر کر دیے گئے۔ گو ،عبوری وزیراعظم کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی اتفاق نہ کر سکی لیکن جسٹس ناصر اسلم زاہد کے مقابلے میں جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے لیے کافی جواز مہیا کر دیا گیا تھا۔ ویسے بھی جسٹس ناصر اسلم زاہد کے بارے میں پاکستان بار کونسل نے بڑا ہی سخت ردِّعمل ظاہر کیا تھا اور پیپلز پارٹی والے اُن کی مخالفت پر ڈٹے رہے اور قرعۂ فال جسٹس کھوسو کے حق میں نکلا جو بلوچی ہیں اور بلوچوں کی اجنبیت کم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست کی حامی بلوچ قوم پرست قیادت نے بھی وزیراعظم کھوسو پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے اس سے اچھا شگون اور کیا ہوگا جہاں انتخابات کا پُرامن انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن عبوری انتظام کے حوالے سے پنجاب کی دُم کہاں پھنس گئی ہے؟ پیپلز پارٹی نے خوب چال چلی تھی، وہ پھر سے محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بیچ میں لے آئی۔ اُن کے انکار پر جب وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے جناب آئی اے رحمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی معذرت کر لی۔ لیکن پیپلز پارٹی والے کہاں باز آنے والے تھے، اُنہوں نے محترم صحافی جناب نجم سیٹھی کا یکا دے مارا۔ ظاہر ہے جناب سیٹھی نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں، اُنہوں نے میاں نواز شریف سے ضرور کچھ نامہ و پیام کیا ہوگا۔ اب نواز لیگ والے کریں تو کیا کریں۔ وہ اتحادیوں سے مشورہ کر چکے اور دو نام دے چکے اور سیٹھی صاحب کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ بہتر ہوگا کہ معاملہ دوسرے صوبوں کی طرح پارلیمانی کمیٹی ہی میں طے کر لیا جائے ورنہ پھر فیصلہ الیکشن کمیشن کی صوابدید پرہوگا۔ منتخب حکومتوں کے وداع ہونے اور عبوری حکومتوں کے آتے ہی سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ انتخابات کے رن پڑنے کا اعلان ہو چکا اور اگلے چند روز میں انتخابی مہم زور شور سے سیاسی افق کو چکا چوند کر دے گی۔ پارٹیوں کے منشور آ چکے، اُمیدواروں کے چنائو آخری مراحل میں ہیں اور اگلے دس روز میں جس جس نے جو قلابازی کھانی ہو گی کھا لے گا ۔ انتخابی دنگل میں شہسوار اُتریں گے تو پارٹیوں کے سیاسی بھائو تائو کا کچھ اندازہ لگ سکے گا۔ ابھی تک جو رائے عامہ کے جائزے سامنے آئے ہیں وہ سرسری اور فروعی ہیں۔ کیا کسی نے کبھی یہ پیش گوئی کی تھی کہ ہمارے شیخ الاسلام اس طمطراق سے آئیں گے، دارالخلافہ پر قابض ہوں گے اور سیاسی میدان کو لرزا دیں گے اور پھر نہ جانے کہاں غائب ہو جائیں گے؟ کہاں تو وہ دہشت گردی کے عفریت کو مٹانے چلے تھے اور کہاں اب کالعدم سپاہِ صحابہ والوں کے ساتھ شیر و شکر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان کی بات الگ ہے، وہ سیاسی منظر پہ اپنا نقش رقم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لاہور میں پھر ایک نہایت کامیاب جلسہ کر کے انہوں نے اپنی دھاک بٹھائی ہے۔ اُن کے پاس بیچنے کو بہت کچھ ہے اور حساب دینے کو کچھ نہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کو تحقیر کا نشانہ بنانا بھی آسان ہے اور اپنی شفافیت کے گیت گانا بھی۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اُن کی عوامی اپیل کتنی وسیع ہے اور دُور دراز کے لوگوں کے لیے کتنی جاذبِ نظر۔ پنجاب کے شہری حلقوں میں اُن کا مقابلہ ایک مضبوط تر نواز لیگ سے ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ بدستور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ اُنہوں نے اتحاد کر کے اپنی نظریاتی سمت طے کر لی ہے اور یہ دونوں پختون خوا میں مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کے خلاف برسرِ پیکار ہوں گے۔ باقی جگہوں پر کہیں اِکا دُکا دکھائی دیں گے۔ سیاسی منظر ابھی دھندلا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں۔ ان انتخابات میں پرانی ووٹر لسٹ سے تقریباً پونے چارکروڑ جعلی ووٹ نکال دیئے گئے ہیں اور تقریباً اتنے ہی نئے ووٹ سامنے آئے ہیں۔ اِن میں نوجوان بہت ہیں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ شناخت پانے والی خواتین کے ووٹ بھی ہیں۔ آدھے ووٹ بدل جانے اور آدھے نئے بننے سے انتخابی نتائج کیا ہوں گے ،ابھی کچھ کہنا محال ہوگا۔ حکومتوں کی کارکردگی کے ناتے جو منفی جذبات ہیں وہ کہیں زیادہ، کہیں کم ،بہرکیف موجود ہیں۔ یہ منفی جذبات شہروں میں پیپلز پارٹی کے خلاف زیادہ ہیں۔ دیہات کی بات دوسری ہے جہاں شہروں کی نسبت زیادہ آسودگی آئی ہے۔ پاکستان میں نظریاتی تفریق ماند ضرور پڑی ہے لیکن موجود ہے۔ اگر طالبان یا اُن کی قسم کے دوسرے بندوق بازوں نے دہشت گردی پھیلائی جب کہ تحریکِ طالبان اور ایک اور گروہ نے پیپلز پارٹی، اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے لوگوں کو دہشت کا نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے تو پھر دہشت گردی کا سوال انتخابی ایجنڈے پر آ جائے گا جسے مختلف جماعتیں ٹالتی رہی ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے بھی ایک تقسیم سامنے آ رہی ہے کہ کون ہے جو فرقہ پرستوں کے ساتھ ہے اور کون ہے جو اُن کے خلاف ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پروگرام و نظریات کے حوالے سے واضح صف بندی ابھی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ تمام بڑی جماعتیں ایک ہی طرح کے راگ الاپ رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف حلقۂ انتخاب سے حصے بخرے میں مصروف ہیں۔ لگتا ہے کہ شہروں کے سوا الیکشن اپنی پرانی ڈھب پر حلقوں کی بنیاد پر ہوگا، جہاں جو تگڑا ہوگا میدان مارلے گا۔ لیکن اس بار جو بھی موجود نمائندے تھے، رائے دہندگان اُن کی خوب خبر لیں گے خواہ اُن کا تعلق کسی پارٹی سے ہے اور اس کا فائدہ تحریکِ انصاف کو پنجاب اور پختون خوا میں کہیں زیادہ کہیں کم ملے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ پنجاب میں نواز لیگ پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کر پائے گی جبکہ پیپلز پارٹی کے لیے اپنی پچھلی نشستیں بچانا کافی مشکل کام ہوگا۔ سندھ میں کچھ ردّ و بدل کے ساتھ میدان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھ رہے گا۔ بلوچستان کا منظرنامہ ابھی کھلنا ہے اور پختون خوا میں نتائج کافی تقسیم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے حوالے سے نواز لیگ بہت مضبوط پوزیشن میں ہے جبکہ تحریکِ انصاف کے پاس بھی ایک بااثر قومی لیڈر ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی جو کرشماتی قیادت کی مرہونِ منت رہی ہے فقط شہید بی بی کی یادوں کے سہارے بے یار و مددگار میدان میں ہوگی۔ لگتا یہی ہے کہ نتائج کافی منقسم ہوں گے اور مخلوط حکومتیں وجود میں آئیں گی۔ مخلوط حکومتوں کا آنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں اور استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارا ابھی تک کا مخلوط حکومتوں کا تجربہ اچھا رہا ہے۔ آئندہ شاید قومی حکومتوں کی ضرورت پیش آئے جو ایک قومی ایجنڈے کو مل کر آگے بڑھا سکیں۔ جب کوئی ایک جماعت بھاری اکثریت سے آتی نظر نہیں آ رہی تو سیاسی جماعتوں کو ابھی سے مستقبل پر نظر رکھنی ہوگی۔ پاکستان بڑے بڑے مسائل میں گھرا ہے اور یہ قلیل مدت میں حل ہونے والے نہیں اور نہ ہی کوئی ایک جماعت ملک کو مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ میاں نواز شریف نے درست کہا ہے کہ آئندہ تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اور شاید ایک نئے میثاقِ جمہوریت کی اور قومی ایجنڈے کی ضرورت پیش آئے۔ چلئے پہلے انتخابات ہونے دیں اور نئی انہونیوں کو ہونی کرنے کی تیاری کی جائے۔ (کالم نگار سارک کے صحافیوں کی غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے سیکرٹری جنرل اور سہ ماہی ساؤتھ ایشین جرنل کے مدیر ہیں)