کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور افواج پاکستان کے شہداء کے بارے میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بیان دے کر فکری خلجان کو مزید بڑھا دیا۔ معاملہ واقعی اتنا سنگین تھا اور ہے کہ افواجِ پاکستان کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ISPR) کو اپنے قابلِ فخر شہیدوں کی روحوں کے دفاع میں میدان میں اُترنا پڑا۔ سبھی نے شہدائے وطن کی تکریم کا اعادہ کیا اور ہمارے منتخب وزیراعظم نواز شریف نے پاک فوج کے شہدا کی یادگار پر حاضر ہو کر عقیدت کے پھول چڑھانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خداداد کی اسلام کے نام پر مخالفت‘ ہمارے قابلِ احترام علمائے ہند اور سیّد مودودی نے آخر کسی فکری بنیاد پر ہی تو کی ہوگی، یہ سوال پوچھنے کا وقت آ گیا ہے کہ ملک کے مستقبل اور قومی ریاست کی بنیاد پر پھر سے سوالیہ نشان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُمہ کے خیالی و فکری محل سے ہمارے علمائے کرام اتنے جڑے ہیں کہ اِنہیں قومی ریاست ایک آنکھ نہیں بھاتی اور لگتا ہے وہ ریاستی معاملات کو پرکھنے کے اہل نہیں۔ مجاہدینِ اسلام تو اب تقریباً تمام مسلم اکثریتی ممالک کو دارالحرب قرار دے کر اپنے ہی مسلم بھائیوں کو تہِ تیغ کر کے نہ جانے کون سی عالمی اُمہ کے تصور کی آبیاری پہ کمربستہ ہیں یا پھر اُس کی بیخ کنی پر! ہمارے بعض حلقے پاکستان میں جمہوریت کے پھل سے فیض نہ پانے پر خوارجی و تکفیری شدت پسندوں کے سامنے نظری ہتھیار پھینک بیٹھے ہیں۔ جہادِ صغیر اور وہ بھی از قسم فساد فی الارض پر تو پہلے ہی یہ القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں کبھی کے بیعت کیے بیٹھے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کی قومی ریاستوں کو تاراج کر دینا چاہتے ہیں۔ کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے بنتے ہی مسلم لیگ کے اسلام کے نام پر سیاسی علیحدگی کے نعرے کو کمال ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو چاروں شانے چت کر ڈالا۔ عالمی تقسیم بھی کچھ ایسی تھی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کی زیرِ قیادت مغربی دُنیا کے کیمپ میں شامل ہونے میں عافیت جانی۔ ملائوں نے عالمی سوشلزم کے کفر اور بے دین سویت یونین کے خلاف اُسے نظریاتی جواز فراہم کیا۔ یہ مُلا ملٹری اتحاد جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں خوب پروان چڑھا اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فوجی آمروں اور اُن کے ہمنوا مُلائوں کا مشترک محاذ بنا، جس کے اندرونی تضاد نے اِک روز پھٹ پڑنا تھا۔ کوئی پوچھے کہ حضرات پاک فوج کو جہاد فی سبیل اللہ کی راہ پر ڈال کر اور افغانستان اور کشمیر کے جہادوں کے مال غنیمت سے خوب فیض یاب ہونے کے باوجود آپ کیونکر القاعدہ اور طالبان کے پرائیویٹ لشکروں کی حمایت میں چل پڑے ہیں اور وہ بھی سیّد مودودی کے جہاد بارے سارے تصورات کو روند کر۔ جو بنیادی سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ: علاقائی تشخص کی بنیاد پر قائم قومی مملکتِ پاکستان جس کا ایک جغرافیائی حدود اربعہ ہے، جس کا ایک متفقہ آئین ہے، جس کے قومی ادارے ہیں، مقننہ، عدلیہ و انتظامیہ ہیں اور اندرونی و بیرونی سلامتی کے لیے افواجِ پاکستان ہیں، جس کے 18 کروڑ شہری ہیں جو نہ تو عرب ہیں نہ فارس کے رہنے والے، پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ہزاروں سالوں سے بسنے والے عظیم تاریخی و ثقافتی ورثوں کے حامل قبائل و اقوام اور پاکستان جو عالم اقوام، جنوبی ایشیاء اور مسلم ممالک کی برادریوں میں منفرد قومی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی اس قومی حیثیت کو سامنے رکھا جائے تو اس کی خدمت‘ اس کی حفاظت کے لیے جان و مال کی دی گئی ہر قربانی کے لیے کیا کسی فتوے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ ریاست کے خلاف اعلانِ بغاوت کرنے اور اس کے فوجی جوانوں اور لوگوں کو شہید کرنے والے باغیوں اور قاتلوں کو شہادت کے رتبے پر بٹھانے والے کیا کسی دستارِ فضیلت کے لائق ہیں؟ ریاستی تعمیر میں جو بنیادی غلطی سرزد ہوئی وہ یہ ہے کہ قومی ریاست کی پرداخت کا کام ملائیت کی نظری بنیادوں پر کرنے کی کوشش کی گئی اور اسے اسلامی ریاست کا نام دیا گیا۔ اور ریاست کی تعمیر و حفاظت کا مطلب نظریہ کی حفاظت ٹھہرا جسے نظریۂ پاکستان کا نام دیا گیا۔ اب جب اُمہ ہی فرقوں اور وہ بھی خون ریز مسلح گروہوں میں بٹ گئی تو قومی ریاست کی تعمیر اس بنیاد پر کیسے کی جا سکتی تھی؟ نتیجتاً نام نہاد اسلامی بنیاد پر قومی ریاست کی تعمیر مملکت کے فرقہ وارانہ بٹوارے کے سوا کیا ہو سکتی تھی؟ بعض علماء حضرات حکیم اللہ محسود کو جہنم واصل کرنے اور اسے شہید قرار دینے والوں کو خوارج میں شمار کر رہے ہیں تو وہ بھی دراصل قومی ریاست پر ایمان کے ناتے نہیں بلکہ فرقہ وارانہ ثواب کی خاطر۔ یہ جو کچھ عرصہ سے مذہبی انتہاپسندی، خرد دشمنی، ترقی مخالف، متشدد فرقہ وارایت اور جہادی خود کشی کا مکالمہ چل نکلا ہے اور جسے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملائوں کے ساتھ مل کر ریاست و معاشرے میں پروان چڑھایا ہے اُسے خیرباد کہنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور قومی ریاست کے نظریے اور پاکستان کو سینے سے نہ لگایا گیا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ پاکستانی قومی ریاست تمام شہریوں کی مساویانہ شرکت اور ریاست اور اس کی وفاقی اکائیوں میں بسنے والے تاریخی ورثوں کے مالک لوگوں کی باہم پاسداری کے کثرتی اتحاد پر برقرار رہ سکتی ہے۔ ریاست اور اس کے عوام کے مابین عمرانی معاہدہ جو 1973ء کے آئین کی صورت میں موجود ہے اور یہ دائیں و بائیں، مذہبی و سیکولر اور تمام لسانی و قومیتی گروہوں کے مابین ایک ایسا سمجھوتا ہے جسے برقرار رکھا جائے۔ اور تشدد کو بیچ میں لائے بغیر جس پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہو، نہ کہ گلی محلوں میں باہم برسرِ پیکار فرقہ وارانہ مسلح لشکروں کی تباہ کاری۔ ایسی قومی جمہوری ریاست اور اس کے مکینوں کی حفاظت کے لیے جامِ شہادت نوش کرنا کسی بھی ثوابِ عظیم سے کیا کم ہے۔ اور اس کارِ خیر کے لیے کسی فتوے کی بیساکھی کی چنداں ضرورت نہیں۔