"IAC" (space) message & send to 7575

کوئی محفوظ ہے نہ کوئی محافظ

کوئی محفوظ ہے نہ کوئی محافظ اور نہ کسی کو کسی بھی طرح کی ندامت۔ جو قیامت لاہور کے عین بیچ بسی ایک غریب مسیحی بستی کے مجبور و مقہور لوگوں پہ دو روز تک برستی رہی، کون ہے کہ جو اس کا ذمہ دار نہیں؟ مشکوک الزام… ایک نشئی کا دوسرے نشئی پر …اور سزا سارے اہلِ علاقہ کو! قانون بننے سے پہلے ناموسِ رسالت کے نام پر کیا کبھی اتنے تحقیر آمیز خونیں ڈرامے رچائے گئے تھے؟ یہ پہلی بار تو نہیں ہوا۔ اسی پنجاب میں گوجرہ میں مسیحی پاکستانی زندہ جلائے گئے تھے اور ہر روز ہمارے گلی کوچوں، دفتروں اور گھروں میں غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ کیا کیا انسان سوزی نہیں ہو رہی۔ ’’اسلام میں ایسا نہیں‘‘ اور ’’یہ کام کسی مسلمان کا نہیں‘‘ کی دُہائی دینے والوں کو ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کو یہ دن دکھانے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں خود اُن کا کتنا ہاتھ ہے۔ کون سی فرقہ پرست اور وحشت ناک جماعت ہے جو اِس طرح کے سانحہ پر منافقانہ آنسو نہیں بہاتی اور یہ جانتی ہے کہ یہ اُنہی کے گناہوں کا کرم ہے جس سے معافی کی اُن میں تاب نہیں۔ اہلِ سنت کے علما نے اس سانحہ کے حوالے سے جو فتویٰ دیا ہے خوش آئند ہے، اس پر وہ خود عمل کرتے تو ناموسِ رسالت کی آڑ میں مسکینوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی اور نہ سلمان تاثیر کے قاتل کو ہیرو بنایا جا سکتا۔ خود مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے ساتھ کون سا مہذّب سلوک ہو رہا ہے۔ جب لاہور میں مسیحی بستی کے مظلوموں کے گھر جلائے جا رہے تھے، پشاور میں چشتیہ سلسلے کی مسجد اور اُس کے نمازیوں کو بم سے اُڑا دیا گیا۔ اِس سے قبل کون سی درگاہ اور کون سا مزار ہے جو تباہ نہیں کیا گیا۔ داتا دربار، پاکپتن، کوٹھ مٹھن، شہباز قلندر، ملتان اور دیگر صوفیائے کرام کی آرام گاہیں ،جہاں بھی باقی بچی ہیں ،اسی انجام کی منتظر ہیں جو طالبان اور اُن کی قسم کے جہادیوں کے ہاتھوں پختون خوا میں دوچار ہو چکی ہیں۔ صوفیا جو اسلام کی غیرمتعصبانہ تعلیم لے کر برصغیر میں آئے ،وہی تھے جنہوں نے اسلام پھیلایا۔ وہ آج اُن کے ہاتھوں بے توقیر ہو رہے ہیں جن کے ہاتھ پر کوئی مسلمان تو نہ ہوا البتہ مسلمان تیزی سے غیرمسلم بنائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے وزیراعظم حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے مزار پہ چادر چڑھانے اجمیر شریف پہنچے تو خواجہ صاحب نے ضرور کہا ہوگا کہ شکر ہے کہ میرا مرقد اجمیر میں ہے، جو تمہارے ہاں ہوتا تو شاید تمہیں چادر چڑھانے کی توفیق میسر نہ آتی اور ویسے بھی میں 35 کلو وزنی چادر کا بوجھ اُٹھانے کا متحمل نہیں۔ جب خانہ ہائے خدا محفوظ نہیں تو شیعہ بستیاں کیونکر محفوظ ہوں گی۔ جو کچھ 4 مارچ کو کراچی کے عباس ٹائون میں ہوا یا پھر ہزارہ برادری اور اہلِ تشیع کے ساتھ ملک بھر میں کربلائیں بپا ہیں، انہیں دیکھ کر غیرمسلم اقلیتوں کو جان لینا چاہیے کہ جب مسلمانوں کے مختلف فرقے ایک دوسرے کے بارے میں اتنے مارنے مرنے پر تُلے ہیں تو اُن کے ہاتھوں وہ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ معاشرہ مذہبی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر طرح کے بلوائی خون آشامیوں پہ تلے ہیں اور ریاست خوابِ غفلت میں محو۔ کون کہتا ہے کہ دورِ وحشت (Inquisition) تاریخ کے صفحات میں کھو چکا ہے۔ کسی محقق کو دیکھنا ہے تو آئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر روز بپا رہنے والی دہشت گردی اور انسان سوزی کو دیکھے۔ اب تو مظلوم کے لیے آواز اُٹھانا اور حقِ اظہار تو دُور کی بات، حقِ زندگی کی التجا بھی گردن زدنی ہے۔ جو تنظیمیں اور لوگ تشدد اور منافرت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، تضحیک اور جان کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ملالہ کے واقعہ پر اور دوسرے خونیں واقعات پر جب صدرِ مملکت سے ریاست کی جانب سے شہریوں کی جان کی امان مانگی گئی تھی تو طعنہ یہ ملا تھا کہ گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو ہار پہنائے گئے اور غازی علم الدین ثانی کے لیے سابق چیف جسٹس وکیل بن کر سامنے آئے جبکہ سلمان تاثیر شہید کی نمازِ جنازہ کے لیے مولوی ملنا بھی مشکل ہو گیا۔ بات تو اُن کی کڑوا سچ تھی، لیکن ریاست اور اُس کے ادارے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے بنیادی فریضے سے کیسے بری الذمہ ہو گئے؟ اگر ہو گئے ہیں تو شہری اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ ٹوٹنے پر کیا ریاست اپنا اخلاقی و قانونی جواز نہیں کھو بیٹھتی؟ ناکام ریاست اور کسے کہتے ہیں؟ ریاست کے اس بحران اور بیماری کی جڑیں بہت پرانی ہیں جو اَب ایک موذی مرض بن چکی ہیں۔ اور مریض ہے کہ جان لیوا مرض میں مبتلا ہونے سے انکاری ہے۔ پہلے لوگ مارے جا رہے ہوتے ہیں، پیشگی اطلاع بھی ہوتی ہے اور انتظامیہ کہیں نظر نہیں آتی۔ جب تباہی ہو چکی ہوتی ہے تو مولویوں اور سیاستدانوں کی ہمدردی کے بین کرنے کا مضحکہ خیز مشاعرہ چلتا ہے اور پھر مقتولین اور متاثرین کی ہمدردیاں جیتنے کے جتن اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ کچھ روز میں ایک واقعہ پر ماتم ماند پڑنے ہی لگتا ہے کہ کئی دوسرے سنگین واقعات پہلے والے واقعہ کی یاد کو مندمل کر دیتے ہیں اور ٹیلی ویژن سکرینوں اور اخبارات کے صفحات کے جہنم نئی لاشوں اور نئی کراہوں سے بھرنے لگتے ہیں۔ حکومتیں ہوں یا ادارے، مولوی حضرات ہوں یا سیاست دان، سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں کے سر منڈھنے کے بیہودہ کھیل میں مشغول ہو جاتے ہیں یا پھر سب کچھ بیرونی طاقتوں کے سر منڈھ کر اپنے کیے دھرے پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور ہزارہا خاندان پوری زندگیوں کے لیے کہیں زندہ درگور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے احتجاج تو وہی کرے گا جس کے گھر میں آگ لگی اور جس کے پیاروں کو بم سے اُڑا دیا گیا۔ اور جب معاشرے کا اجتماعی ضمیر مر جائے اور لوگ بربریت سے خوفزدہ ہو جائیں اور ریاست بزدلی کا شکار ہو جائے تو پھر اپنی ہی مذہبی اور نسلی گروہوں کے لوگ باہر نکلتے ہیں اور یوں فرقہ پرستی کی دراڑیں اور گہری ہو جاتی ہیں۔ اگر گوجرہ، کراچی اور کوئٹہ کے واقعات پر ریاست حرکت میں آتی (اور کبھی جنرل اعظم خاں کے لاہور کے مارشل لا کی صورت میں حرکت میں آئی بھی تھی) اور بلوائیوں اور دہشت گردوں کو سبق سکھایا ہوتا تو لاہور کی مسیحی بستی یوں تاراج نہ ہوتی۔ یا اگر قوم کے اجتماعی ضمیر میں کوئی رمق ہوتی اور لاکھوں لوگ لاہور اور کراچی میں مذہب و قومیت سے ماورا ہو کر باہر نکلتے تو فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کو سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی۔ فرقہ واریت کے بیج تو انگریزی دور میں بو دیئے گئے تھے اور تقسیمِ ہند کے خونی دریائوں سے سیراب ہو کر جب مملکتِ خداداد وجود میں آئی تو 1940ء کی قرار داد اور جناح کے جمہوری ریاست کے سیکولر تصور کو تج کے پاکستان کو اسلامی ریاست کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ پہلے بنگالی پر کلہاڑا چلایا گیا، پختونوں، سندھیوں اور بلوچوں کو کافر گردانا گیا۔ پھر احمدیوں کی باری آئی، پھر شیعوں کی باری آئی، پھر یا رسول اللہ والوں، صوفیا اور اولیاء کے ماننے والوں پر عتاب آیا اور اب تکفیریوں اور اہلِ حدیث کے ہاتھوں دیوبندیوں کی جان کہاں بچنے والی ہے۔ اور یہ سلسلہ کہیں رُکنے والا نہیں۔ کوئی مسلمان رہا نہ پاکستانی۔ کوئی ہے جو کہے کہ ہمیں اب اور ملائیت و فرقہ واریت کی تجربہ گاہ نہیں بننا اور یہ کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور اس میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ کالم نگار سارک کے صحافیوں کی غیر سرکاری تنظیم سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے سیکرٹری جنرل اور سہ ماہی سائوتھ ایشین جرنل کے مدیر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں