"IKC" (space) message & send to 7575

کیاایم کیو ایم کا مستقبل ماضی میں پوشیدہ ہے؟

تاریخ خود کو نہیں دہراتی، یہ آدمی ہے، جو اپنے مفاد کے لیے وقت کی بساط پر یکساں چالیں چلتا آیاہے۔ جسے کمزورجانا،اس کا استحصال کیا، خود سے طاقتور کی پرستش کی۔ اور یوں تاریخ کے اوراق پر یکساں کہانیوں کا جنم ہوا۔
ایم کیو ایم، جو اندرون سندھ اور پنجاب میں یکساں طور پر غیرمقبول ہے، آج اپنی سیاسی تاریخ کے کٹھن ترین دور سے گزر رہی ہے۔ 84ء میں ایک طلبا تنظیم سے سیاسی جماعت میں ڈھلنے والی اس پارٹی کو۔۔۔ جس کے اولین رہنمائوں میں '' بانی قائد‘‘ کا نام شامل نہیں تھا، 86ء میں بشریٰ زیدی کے واقعے کے بعد جوعروج ملا، اس کے لیے اس شہر اور جماعت دونوں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ تین عشروں میں بہت خون بہا۔ لسانی فسادات میں شہری کام آئے، آپریشن میں ایم کیو ایم کے کارکن۔ 87ء کے بلدیاتی اور 88ء کے عام انتخابات میں قوت بن کرابھرنے والی اِس جماعت کو، جو آنے والے عشروں میں شہر کی باگ ڈور سنبھالنے والی تھی، بغاوتوں کا بھی سامنا رہا۔ پہلی بغاوت 91ء میں ہوئی تھی، جب آفاق احمد اور عامر خان اس پارٹی سے الگ ہوگئے۔ مستقبل میں اس نوع کی بغاوتوں سے نمٹنے ہی کے لیے منزل پر رہنما کو ترجیح دینے کی سوچ پروان چڑھی۔ مگر یہ سوچ ہمیشہ نہیں رہنے والی تھی۔ 
بے شک، یہ آدمی ہے، جو اپنے مفاد کے لیے وقت کی بساط پر یکساں چالیں چلتا آیاہے۔۔۔
کل تک جس پارٹی کی مرضی کے بغیرکراچی میں ایک پتا بھی نہیں ہلتا تھا، آج وہ دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ بکھری ہوئی ہے۔ ایک طرف عشروں قبل بغاوت کرنے والے آفاق احمد ہیں، جو فی الحال خاموش بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف تازہ تازہ اپنے ضمیرکا ادراک کرنے والے مصطفی کمال ہیں، جو'' الزام، آنسواور امید‘‘ کی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کے لیے آسانیاں ہیں۔ ماسوائے پاکستانی جھنڈے کو پارٹی پرچم کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت کے، اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ۔ مخالفین کا الزام ہے کہ ُانھیں ''کچھ حلقوں‘‘ کی سپورٹ حاصل ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دو کروڑ کے اس شہر میں، ٹھپا مافیا اورزور زبردستی کے باوجود، انتخابات والے روز عوام کی سپورٹ ہی Game Changer ثابت ہوتی ہے، اور اِس محاذ پر پی ایس پی کومزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
22 اگست کوپاکستان مخالف تقریر کے بعد بانی متحدہ سے راہیں جدا کرنے والا فاروق ستار گروپ اپنے برسوں کے تجربے، تنظیمی سیٹ اپ اور سیکڑوں منتخب نمائندوں کی وجہ سے مشکلات کامقابلہ تو کر رہا ہے، مگریہ واضح ہے کہ جو طاقت اور اختیار ماضی میں اِسے حاصل تھا، اب اس سے یکسر محروم ہوچکا ہے۔ جو وسیم اختر 12 مئی کے دن کنٹینر پر کھڑے دبنگ لہجے میں بیانات داغ رہے تھے، اب سوٹ پہنے اختیارات مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ انتخابات کے قریب، جب فاروق ستار گروپ کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنے عہدوں اور مراعات سے محروم ہوجائیں گے، تب انھیںدشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑے گا۔ 
جہاں تک ایم کیو ایم لندن کا تعلق ہے، جسے اب مخالفین طنزاً ''ایم کیو ایم العالمی‘‘ کہنے لگے ہیں، اس کے لیے حالات کٹھن ہیں۔ کل تک جس قائد سے تعلق کواپنی شناخت ٹھہرایا جاتاتھا، آج اس سے وابستگی ظاہر کرتے ہوئے بھی احتیاط برتی جارہی ہے۔ 22 اگست کے نعرے کے بعدسامنے آنے والی رابطہ کمیٹی کے ارکان زیر عتاب آئے۔ کارکنوں کے خلاف بھرپور آپریشن ہوا۔ یہی سبب ہے کہ کراچی میں لندن سے ہمددردی رکھنے والوں کی اکثریت نے ہونٹوں پر چپ کے تالے ڈال لیے ہیں۔ اور جو رہنما لندن میں ہیں، وہ ڈاکٹر ظفر عارف سمت گرفتار ہونے والے ارکان کے حق میں بیانات داغنے میں مطمئن ہیں، یہاں آکر جدوجہد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ منی لانڈرنگ اورعمران فاروق قتل کیس بھی ختم نہیں ہوئے۔ سرنگ طویل اور تاریک ہے۔۔۔الغرض ایم کیو ایم کو درپیش حالیہ بحران ماضی کے بحرانوں سے زیادہ گمبھیر ہے۔ وہ جماعت، جس نے 2013 کے انتخابات میں اردو اسپیکنگ ووٹرز کی جانب سے عمران خان کی غیرمتوقع حمایت کے باوجودقومی اسمبلی کی 18 سیٹیں اپنے نام کر لیں تھیں، ماضی میں گم ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ 
معروضی حالات تو یہی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم زوال کا شکار ہے، لیکن اس جماعت کے خاتمے کااعلان قبل ازوقت ہوگا۔ یاد رہے، ماضی میں بھی اس طرح کے کئی دعویٰ کیے گئے ۔ماضی میں بھی آپریشن ہوئے ۔ سخت آپریشن۔ محلوں میں خندقیں کھد گئیں، علاقوں کے داخلی حصوں میں آہنی دروازے لگ گئے۔ ماضی میں بھی اس جماعت کو غدارٹھہرا یاگیا، ٹارچر سیل اور بوری بندلاشوں کے شواہد میڈیا کی زینت بنے، نقشے برآمد ہوئے، مگر تمام آپریشنز، الزامات،انکشافات کے باوجود ایم کیو ایم ہر بار ابھر آئی۔اِس کی ایک وجہ تومخلص ووٹرز اور جانثار کارکن ٹھہرے، دوسرا سبب وہ حکمران تھے ، جنھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے، اپنے مفادات کے لیے اُسی ایم کیو ایم سے ہر بارہاتھ ملا، جسے وہ فاشسٹ قرار دیتے تھے، اُسی 90 کا رخ کیا، جہاں، ان کے بہ قول،غیرملکی ایجنٹ بیٹھے تھے، اُن ہی کو اسمبلیوں میں خوش آمدید کہا، جن پرکراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کا الزام تھا۔ یہی سچ ہے صاحب، ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرنے والی پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے خود ہی دودو باراس جماعت کو حکومت کا حصہ بنایا۔ پرویز مشرف ، جو سویلین کے برعکس زیادہ باخبر تھے،اُن کی نظر میں بھی ایم کیو ایم پسندیدہ ٹھہری۔
تاریخ خود کو نہیں دہراتی، یہ آدمی ہے، جو اپنے مفاد کے لیے وقت کی بساط پر یکساں چالیں چلتا آیاہے،اور یوں تاریخ کے اوراق پر یکساں کہانیوں کا جنم ہوا۔۔۔
اگر مستقبل میں پھر ایم کیو ایم کی ضرورت پیش آئی، پھر کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستیں اہمیت اختیار کر گئیں، پھر مرکز کو سہارادرکار ہوا، تو آپ معجزے رونما ہوتے دیکھیں گے۔ایک دوسرے کو طعنے دینے والے راتوں رات ایک ہوجائیں گے۔غیرفطری اتحاد بنیں گے۔ ضرورت پیش آئی، تو ایم کیو ایم لندن کے لیے بھی آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔'' وطن دشمن‘‘کواقتدار کا ستون بنایا جاسکتا ہے۔ 
ایم کیو ایم کا مستقبل،بظاہرایم کیو ایم کے ماضی میں پنہاں ہے۔ البتہ کچھ عناصر ایسے ضرور ہیں، جو منظر میں نئے رنگ بھر سکتے ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ آج نہ تو ایم کیو ایم کے پاس پہلے جیسا ووٹر ہے، نہ ہی کارکن ، نہ ہی رہنما۔ دوسری وجہ 2013الیکشن میں عمران خان کو پڑنے والا ووٹ ہے، جس کا ایک حصہ دراصل اینٹی ایم کیو ایم ووٹ تھا۔ تحریک انصاف کراچی میں بے وقعت ضرور ہوئی ،مگر الیکشن سے قبل وہ اور جماعت اسلامی خود کو منظم کرسکتے ہیں۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ سول اورملٹری قیادت کے گزشتہ تین برسوں کے فیصلے ہیں۔ ماضی کے برعکس اس بار ن لیگ نے ایم کیو ایم کو اقتدار کا حصہ نہیں بنایا۔فاصلہ رکھا۔دوسری طرف سکیورٹی اداروں نے آپریشن کے طریقۂ کار کو تبدیل کیا۔ 
اگرمیاں صاحب کو مستقبل میں کراچی سے سیاسی حمایت کی ضرورت پیش آئی بھی، تو ممکن ہے، اُن کا انتخاب فاروق ستار گروپ ٹھہرے۔ممکن ہے، وقت کی بساط پراِس بار نئی چالیں چلی جائیں۔ممکن ہے، اس بار ایک نئی تصور ابھر آئے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں