"IKC" (space) message & send to 7575

ایک بیٹا، ایک بیٹی اور ایک فیصلہ

''ہمیں بلاچون و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے، یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا طریقہ ہے!‘‘
عظیم فرانسیسی فلسفی اور ادیب والٹیر کے شہرہ آفاق ناول'' کاندید‘‘کے یہ الفاظ، جو مرکزی کردار اختتامیے میں ادا کرتا ہے، اس قابل ہیں کہ انھیںآب زرسے لکھوا کر گھروں، درس گاہوں میں آویزاں کیا جائے کہ جب جب تاریکی گہری ہو،جبر بڑھے، امیددم توڑنے لگے، یہ سنہری الفاظ ہمارا حوصلہ بڑھائیں، آگے بڑھنے کی راہ دکھائیں، یہ سادہ سا نکتہ سمجھائیں کہ جب ہر سو اندھیرا ہو،روشنی کی کرن نظر نہ آئے،تو مایوس ہونے کے بجائے انسان کو اپنے کام میں مصروف رہنا چاہیے کہ فقط یہی عمل گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کی کھڑکی کھول سکتا ہے۔
کچھ روز قبل پاناما کیس کے فیصلے سے جو گرد اڑی تھی،وہ دھیرے دھیرے بیٹھ رہی ہے۔ ابہام گھٹ رہا ہے۔ فیصلے کا چہرہ ابھرنے لگا ہے۔ن لیگ کے وزرا نے مٹھائی بانٹنے اور جشن منانے میں جو پھرتیاں دکھائیں، اُس کے متوقع نتائج سامنے نہیں آئے، مکمل فتح کا تاثر قائم نہیں ہوسکا اورچند ہی گھنٹوں بعد اُن دو سینئر ججز کا اختلافی نوٹ موضوع بحث بن گیا ،جنھوں نے وزیر اعظم کو نااہل قرا ر دیا تھا، قطری خط بھی رد ہوا، اور ایسی تفتیشی ٹیم بنانے کا حکم دے دیاگیا، جس میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، جن کا انتخاب خود سپریم کورٹ کرے گی۔ فیصلے نے ن لیگ کو جس الجھن میں مبتلا کیا، اس کا اثر اسی رات حکومتی وزرا کے لہجوں سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ گو عمران خان نے اوائل میں فیصلہ قبول کر لیا تھا، اور بنی گالا میں پی ٹی آئی کے سینئر ارکان کے ساتھ منہ بھی میٹھا کیا، مگر زرداری صاحب نے، جن کی نظریں اگلے الیکشن پر گڑی ہیں، اور جنھوں نے پنجاب میں ڈیرا ڈال لیا ہے، فیصلے کو رد کرکے نہ صرف میاں صاحب سے استعفے کا مطالبہ کر دیا، بلکہ پی پی کی جانب سے احتجاج کا عند یہ دے کر کمال مہارت سے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ اگلے ہی روز پی ٹی آئی بھی احتجاج کی راہ پر چل پڑی۔ اب وکلا بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ 
تو فیصلے کا چہرہ ابھرنے لگا ہے۔ آغازمیں جنم لینے والی وہ منفی بحث ، جس میں اِس فیصلے کو جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت، مولوی مشتاق حسین کی جانب سے بھٹو کوپھانسی اورجسٹس ارشاد خان کا مشرف کے اقدام کو آئینی چھتری فراہم کرنے جیسے متنازع فیصلوںسے موازنہ کیا جارہا تھا، جلد ہی دم توڑ گئی۔ گو اس فیصلے کا تقابل جسٹس حمود الرحمان کی رپورٹ اور جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف حکومتی ریفرنس کالعدم قرار دینے جیسے فیصلوں سے بھی نہیں کیا جاسکتا، مگر اب یہ واضح ہے کہ چاہے اسے اگلے بیس برس یاد نہ رکھا جائے، مگر یہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔حکمران خاندان کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ یعنی سرنگ کے دہانے پر روشنی ہے۔ البتہ پاناما فیصلہ آنے سے قبل جو دوہولناک واقعات ہوئے، یعنی مشال خان قتل اور نورین لغاری کی ڈرامائی گمشدگی اور بازیابی۔۔۔ان کی جڑوںمیں گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے،جو مایوسی بڑھاتا ہے۔
مشال خان کے بہیمانہ قتل پر جتنا گریہ کیا جائے کم ہے۔ اس نوجوان کی موت کا نوحہ لکھنے کو الفاظ کم پڑجائیں۔بس، یہ سوچ کردرد کچھ گھٹتا ہے کہ اُس کی جان لینے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا گیا، ماضی کے برعکس اِس بار اُس کی شدید مذمت کی گئی۔ پہل تو بہرحال سوشل میڈیا ہی سے ہوئی۔ اس پڑھے لکھے روشن خیال طبقے سے،جسے اب مخالفین کھلے عام دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ ہاں، خود کو اسلامسٹ کہنے والے گروپ سے بھی توانا آوازیں اٹھیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مذمت کی گئی، تو وہ مشتعل گروہ، جس کے سرکردہ افراد نے اپنے حواریوں سے یہ عہد لیا تھاکہ کوئی قاتلوں کا نام نہیں بتائے گا، بے نقاب ہونے لگا۔ گو بعد میں وزیر اعظم نے بھی مذمت کی ، عدلیہ نے بھی نوٹس لیا، مگر یہ خیبرپختون خوا کی صوبائی حکومت تھی، جس نے نتیجہ خیز
پہل کی۔ پرویز خٹک کا دو ٹوک موقف اور پھر عمران خان کے بیانات، جو اس تاریکی میں امید کی کرن بنے۔ البتہ اس معاملے میں زندگی کے مختلف طبقات کی جانب سے آنے والے امید افزا ردعمل کے باوجود یہ واضح ہے کہ مشال خان قتل اپنی نوعیت کا آخری واقعہ ثابت نہیں ہوگا۔ اس کے پیچھے فقط ''مذہبی انتہاپسندی ‘‘نہیں ہے، جو مغر ب اور ہمارے نام نہاددانشوروں کی پسندیدہ اصطلاح بن چکی ہے، جس پر ہم اپنے بیشتر مسائل منڈھ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ اِن رویوں کے پیچھے وہ ناقص پالیسیاں بھی ہیں، جو ہم نے افغانستان اور اس سے قبل کشمیرکاز کے لیے عسکری گروہوں کی تشکیل میں برتیں، اور مذہب کو مفادات کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ اور وہ پالیسیاں بھی، جن کے باعث ہم سات عشروں میں ناخواندگی، ناانصافی، عدم تحفظ، بے روزگاری اور شعبۂ صحت کی بدحالی ختم نہیں کرسکے۔ اِس گمبھیر وجہ کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومتیں ماضی میں نہ صرف توہین رسالت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہیں، بلکہ جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف بھی جامع پالیسی اختیار نہ کرسکیں۔ حکومتوں کا یہی غافل رویہ ہمیں غداری اور کارو کاری کے الزامات میں بھی نظر آتا ہے۔ حساس معاملات میں سنگین الزامات لگانے والوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے بغیر مشال خان قتل جیسے
واقعات کی روک تھام دشوار ہے۔ 
ادھر نورین لغاری کا معاملہ بھی اندیشوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ مدارس کے طلبا و طالبات نہیں ، مذہبی گھرانوں کے بچے نہیں ، جن کے شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کا رجحان بڑھا ہے۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ اگر یہاں کے نوجوان بھی، جو میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کے اسٹوڈنٹ ہوں، اس پرخطرہ راہ پر چل پڑتے ہیں، تو تشویش دو چند ہوجاتی ہے۔ انھیں تحریک دینے، بلکہ گمراہ کرنے میں سوشل میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ اِس طرح کے پرفریب مواد پر، اور ساتھ ہی توہین آمیز مواد پر روک لگانا کسی طور ناممکن نہیں۔ ضرورت فقط سنجیدگی کی ہے۔ 
گو پاناما فیصلے سے بہتری کی امید جڑی ہے، مگر جیت کے غیرضروری دعوے اور ایک دوسرے کو طعنے دینے کا سلسلہ اسے گہنا سکتا ہے۔ دوسری طرف مشال خان اور نورین لغاری کے کیس تاریکی کو گہرا کرتے ہیں۔قوم کے ایک بیٹے کا وحشیانہ قتل، اورایک بیٹی کی وحشت کی سمت پیش قدمی؛ امید ڈھنے لگتی ہے،درد بڑھ جاتا ہے۔ او رایسے میں'' کاندید‘‘ کے الفاظ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ جب اندھیرا ہو،تو ہمیںمایوس ہونے کے بجائے بلاچوں و چراکام میں مصروف رہنا چاہیے۔اور یہاں کام سے مراد ہے، مقصد حیات کی تلاش۔ اور اس کے حصول کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار، جو نہ صرف فرد، بلکہ معاشرے کے لیے بھی سودمند ثابت ہو۔
فقط یہی عمل گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کی کھڑکی کھول سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں