جس روز ڈان لیکس کی رپورٹ کے مندرجات ٹی وی چینلزاور سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے، اورمریم اورنگ زیب کا اصرار تھا کہ ابھی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی، ٹھیک اسی روز ٹوئٹر پر#21YearsOfJunoon (یعنی جنون کے 21 سال) کا ٹرینڈ تیزی سے اوپر اٹھ رہا تھا۔تحریک انصاف کے قیام اور عمران خان کی سیاسی جدوجہد کو 21 برس ممکن ہوگئے تھے۔ خان کے دیوانوں کے علاوہ معروف اینکر پرسن بھی اس ہیش ٹیگ کو برتتے ہوئے ٹوئٹ کر رہے تھے، جس میں کہیں محتاط اور کہیں کھلے الفاظ میں کپتان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا۔ ان ٹوئٹس کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں مئی 2013 کی گرم سہ پہر،کراچی کے چوراہوں پر بیٹھے نوجوانوں کے چہرے گھومنے لگے ۔ ان چہروں پر اندیشے ضرور تھے، مگرجنون خوف پر غالب آگیا تھا۔
اگر آج مجھ سے پوچھا جائے کہ ان21 برس میں خان کے کیریر کا نقطۂ عروج کیا تھا؟ تومیں عروس البلاد کی سڑکوں پر بیٹھے ان لڑکے لڑکیوں کی سمت اشارہ کروں گا، جن کے والدین تو ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی پی کے ووٹرز تھے، مگر 2013 میں پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے نے نوجوان نسل کا دل موہ لیا۔ الیکشن والے روز وہ دیوانہ وار باہر نکلے۔ کراچی کے دس لاکھ ووٹرز نے خان کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ مگر یہ اس کی اصل کامیابی نہیں تھی۔ خان کا ستارہ تب اوج پر پہنچا، جب کراچی میں دھاندلی کے خلاف دھرنوں کی کال دی گئی، اور یہاں کے نوجوان، یہ جانتے ہوئے بھی کہ 90 پر دھمکی آمیز، غصیل تقاریر ہورہی ہیں۔۔۔ کلفٹن کے ساحل سے کٹی پہاڑی تک سڑکوں پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ عین اُن علاقوں میں جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جاتے تھے، ایم کیو ایم کے خلاف مظاہرے ہوئے۔جی ہاں، میرے نزدیک خیبرپختون خوا کی کامیابی، پنجاب میں ملنے والا زبردست رسپانس، تین ماہ تک جاری رہنے والا دھرنا اور ہر وہ لمحہ، جسے خان نے اپنی فتح ٹھہرایا۔۔۔کراچی کی سڑکوں پر بیٹھے نوجوانوں کے جذبے کے سامنے ہیچ ہے۔
بدقسمتی سے اُس کے بعد ہمیں پی ٹی آئی کی سیاست میں گراوٹ نظر آئی۔ بہت پہلے معراج محمد خان، پھر جاوید ہاشمی اور آخر میں جسٹس وجیہہ الدین احمد؛ اصول پسند لوگ ایک ایک کرکے الگ ہوتے گئے۔روایتی سیاست داں اُن کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ خان کی باتوں میں امکانات سے زیادہ الزامات کا ذکر ہونے لگا ۔ لہجہ درشت ہوگیا۔ فیصلے لاحاصل ثابت ہونے لگے۔ پنکچر کے سب دعوے پنکچر ہوئے۔ ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی۔ دھرنے کے بعد ہونے والے جلسوں میں بھی پہلے جیسی چمک نہیں رہی۔ کراچی میں ہونے والے ستمبر 2016 کے جلسے سے بڑی ریلی تو اُسی روز ایم کیو ایم پاکستان نے نکال لی تھی، جو ہنو ز22 اگست کے صدمے میں تھی۔ مجھے کہنے دیجیے، بہ طور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا سفر ابتری کی جانب ہے۔ تازہ مثال لیجیے؛پہلے ایک ارب درخت لگانے پر لطیفے گھڑے جارہے تھے، اب پاناماپر خاموشی کے عوض دس ارب کی پیش کش چٹکلوں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے والے روزکپتان نے اپنے حواریوں کے ساتھ بنی گالا میں منہ میٹھا کیا ، اور اگلے روز یہ سوال اٹھادیا کہ آخر ن لیگی کس خوشی میں مٹھائی بانٹ کر رہے ہیں، فیصلہ تو اُن کے خلاف آیا ہے۔ مگر اب وہ خود احتجاج کے راستے پر چل پڑے ہیں۔اسلام آباد جلسہ، جس پردس ارب کی پیش کش چھائی رہی،اِس کی ابتدا ہے۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، کراچی جلسے کی تیاری زوروں پر ہے، گو اِس سے زیادہ امید نہیں باندھنی چاہیے۔ آگے وہ نوشہرہ اور سیالکوٹ جارہے ہیں۔اُن کے احتجاجی راہ پر گامزن ہونے کا ایک سبب زرداری صاحب کی شان دار حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے، جنھوں نے عمران خان کے دل میں شک پیدا کر دیا ہے کہ جے آئی ٹی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اور اُنھوں نے منہ میٹھا کرنے میں جلدی کر دی۔دس ارب کا الزام خاصا سنگین ہے۔ اُدھر حکومت ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا انتظام کر رہی تھی، اِدھر اسلام آباد میں اُنھوں نے خود اعلان کر دیا کہ وہ عدالت میں پیش کش کرنے والے کا نام بتانے کو تیار ہیں۔انھوں نے الزام تو لگا دیا ہے، مگر کیا وہ اِسے ثابت بھی کرسکیں گے؟شاید اس اسکینڈل کا فائدہ بھی ان کے مخالفین ہی کو ہو۔
اگر پی ٹی آئی کے پاس عمران خان کی کرشماتی شخصیت،جنونیوںکا بے بدل جذبہ اور کرپشن کے خلاف جنگ کا نعرہ نہ ہوتا، تو گذشتہ تین برس کے غلط فیصلوں کے باعث یہ پارٹی اب تک بکھر چکی ہوتی، اِس میںسوار ہونے والے سرمایہ دار اور گدی نشین کشتی سے کود چکے ہوتے، اورلوگ خان سے تعزیت کر رہے ہوتے۔ البتہ ابھی وہ لمحہ نہیں آیا۔ ابھی لوگ خان سے مایوس نہیں ہوئے۔پی پی اور ن لیگ روایتی سیاست کی علم بردار ہیں۔ پی ٹی آئی کی آمد نے سیاسی جمود توڑ ا، نئے رجحانات متعارف کروائے،اور فرینڈلی اپوزیشن کے اس بے وقعت تصور سے جان چھڑائی، جس پر پی پی اور ن لیگ کاربند تھیں۔ البتہ عمران خان عوامی ایشوز''ہائی لاٹ‘‘ نہ کر سکے۔ اُن کا تمام تر زور حکومت گرانے پر رہا۔ پاناما کے بعد اب ڈان لیکس کو بھی اِس مقصد کے لیے برتا جائے، تو حیرت کیسی۔
ایک زاویے سے موجودہ صورت حال 93ء سے مماثل دکھائی دیتی ہے، جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی برطرف حکومت کو بحال توکر دیا تھا، مگر وزیر اعظم اور صدر پاکستان، غلام اسحاق خان کے درمیان تنائو ختم نہیں ہوا ، جس کا آغاز، تجزیہ کاروں کے مطابق، جنرل آصف نواز کی بہ طور آرمی چیف تعیناتی سے ہوا تھا۔اور ایسے میں اپوزیشن جماعتیں جولائی 93ء میں لاہور میں اکٹھی ہوئیں، اورحکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔گو مارشل لا کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، مگر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکٹر نے توجہ آئینی حل پر مرکوز رکھی۔اسٹیک ہولڈز کے درمیان طے پایا کہ صدر اور وزیر اعظم دنوں استعفیٰ دے دیں، اور نگران حکومت تین ماہ میں انتخابات کروائے۔ ان انتخابات میں پی پی نے اکثریت حاصل کی (اگرچہ یہ بھی طے پایا تھا کہ پی پی جیت گئی، تو غلام اسحاق خان دوبارہ صدر بن جائیں گے، ،مگر یہ ہو نہ سکا!)
تو صورت حال 93ء سے مماثل دکھائی دیتی ہے، مگر کیا اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو کر اتنا دبائو ڈال سکتی ہیں کہ حالات بگاڑ کی سمت جانے لگیں، انتشار اُس سطح پر پہنچ جائے کہ پھرکوئی کاکٹر فارمولا استعمال کرنا پڑے؟ روز بہ روز بدلتی صورت حال کے باعث مستقبل کی بابت کچھ کہنا دشوار، مگرسی پیک اور ملک میں جاری ردالفسادکی وجہ سے اِس کاامکان کچھ کم ہے۔ ایک وجہ یہ بھی کہ93ء میں محترمہ اکلوتی بڑی اپوزیشن لیڈر تھیں، آج اِس محاذ پر عمران خان کو آصف علی زرداری کی جانب سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ اِن حالات میں جے آئی ٹی ہی عمران خان کی سب سے بڑی امید ہے۔ شریف خاندان کے لیے اِن تحقیقات سے بے داغ نکلنا، جس پر سپریم کورٹ کے علاوہ میڈیا اور عوام کی بھی نظریں ٹکی ہیں، جس میں ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہیں، ذرا مشکل ہے۔ یہ جے آئی ٹی عمران کی راہ میں حائل کئی رکاوٹیں ہٹا سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ نتائج سامنے نہیں آئے، جن کے خان خواہش مند ہیں، تو پھر شایداُنھیں وزیر اعظم بننے کے لیے مزید پانچ چھ برس انتظار کرنا پڑے۔ہاں، ڈان لیکس میں آنے والے ڈرامائی موڑ ان کی کہانی بدل سکتے ہیں۔