وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے شاہ بلوط کے پیڑوںکے درمیان چلا کرتے، اور پھول چنتے جاتے۔
خواہش تو یہی تھی کہ جی ٹی روڈ سے گزرتے میاں نواز شریف کے کارواں کو موضوع بنایا جائے، جس کے نہ تو فی الحال اہداف واضح ہیں، نہ ہی یہ عقدہ کھلتا ہے کہ وہ کس کے خلاف ہے، مگر 10 اگست کے بعد اب یہ ممکن نہیں۔۔۔ وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی اِس کارواں پر غیر ضروری تنقید، طاہر القادری کی اچانک آمد اور عائشہ گلالئی کے سنگین الزامات کے خاموشی سے پس پردہ چلے جانے کا تجزیہ کیا جائے، مگر 10 اگست کے بعد یہ ممکن نہیں کہ اس صبح اُس سانحے کی خبر ملی، جس کی شدت کا عوام کی اکثریت کو ادراک نہیں۔ اور جنھیں ادراک ہے، اُن کے لیے اب ہر خبر بے معنی ہو چکی ہے۔
وہ روشنی کا مینار، عزم کا استعارہ، امید کا دیا، وہ فرشتہ صفت عورت جسے دنیا ڈاکٹر رُتھ فائو کے نام سے جانتی ہے، اب اِس دنیا میں نہیں رہی۔ وہ جرمن راہبہ، جس نے اپنا سب کچھ تج کر پاکستان کو اپنا گھر بنا لیا، اور ابن مریم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوڑھیوں کو اچھا کیا، رخصت ہو گئی۔ وہ جس نے اِس تصور کا قلع قمع کیا کہ جذام گناہوں کی دین ہے، سسکتے انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔ انتقال کر چکی ہے۔
ڈاکٹر رتھ فائو کون تھیں؟ اُن کے کارنامے کیا ہیں؟ اُن کے اِس قوم پر کیا احسانات ہیں، اس تذکرے کے لیے پورا دفتر درکار ہے۔ وہ جذبہ، جو ہمارے وزرا کو ہمہ وقت حکومت کے دفاع کے لیے چوکس رکھتا ہے، وہ حوصلہ، جس کے وسیلے ہر پیش گوئی غلط ثابت ہونے کے باوجود ہمارے سیاست دان ایک اور پیش گوئی کرگزرتے ہیں، اور وہ لگن، جس کے طفیل ہمارے لیڈر 126 دنوں تک ایک ہی تقریر دہراتے رہتے ہیں، اگر یک جا ہو جائیں، تب بھی ڈاکٹر رتھ فائو کی عظمت کا بیان ممکن نہیں۔ وہ اِس کم یاب نسل سے تھیں، جنھیں متی کی انجیل میں '' زمین کا نمک‘‘ کہا گیا ہے۔ وہ اس قابل تھیں کہ قوم کے بیٹے بیٹیاں اُن کے لیے گیت گائیں، اور نوجوان ان کے نقش پا کا تعاقب کریں۔ (گو اُن کی پیروی کرنا لگ بھگ ناممکن ہے!)
ڈاکٹر رتھ فائو کی زندگی پر اساطیر کا گمان ہوتا ہے۔ یہ ناممکنات سے پُر ہے۔ اِس زندگی پر ایک نہیں، کئی کہانیاں اور ناول لکھے جا سکتے ہیں، متعدد فلمیں بن سکتی ہیں۔ اُن کا بچپن جنگ کے سائے میں گزرا۔ وہ 9 ستمبر 1929 کو مشرقی جرمنی کے شہر لائپ زش میں کتابوں کے ایک ناشر والتھر فائو کے گھر پیدا ہوئیں۔ تب ہٹلر مرکزی حیثیت اختیار کر چکا تھا، اور جرمنی انتہا پسندانہ سوچ اور بے روزگاری کی لپیٹ میں تھا۔ اُن کی دسویں سالگرہ سے کچھ روز قبل دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ ان کے شہر پر اتحادی فوج نے بمباری کی۔ کئی ہلاکتیں ہوئیں، مگر قدرت نے رتھ فائو کو اپنے عظیم منصوبے کے لیے محفوظ رکھا۔۔۔ تو صاحب، ایک کہانی تو اُن کے بچپن پر لکھی جا سکتی ہے۔ اور دوسری اس زمانے پر، جب جنگ کے بعد جرمنی دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ مشرقی جرمنی روس کے زیر تسلط چلا گیا۔ ادھر سیاسی و معاشرتی جبر تھا۔ غذائی بحران کی وجہ سے اُنھیں اپنے بھائی سے محروم ہونا پڑا۔ والدین تو کسی نہ کسی طرح مغربی جرمنی چلے گئے، مگر رتھ فائو کو یہ سفر طے کرنے کے لیے تن تنہا جنگلات، کھیتوں اور ویرانوں سے گزرنا پڑا۔ سرحد پار کرتے ہوئے دو فوجیوں نے گرفتار کر لیا، ایک روسی تھا، دوسرا جرمن۔ سزائے موت تجویز ہوئی، مگر قدرت اُس کی محافظ تھی۔ خدا نے جرمن فوجی کے دل میں رحم ڈالا، اور اُس نے اس لڑکی کو سرحد پار کروا دی۔
اگلا زمانہ مغربی جرمنی کا ہے، جب زخمی فوجیوں اور پناہ گزینوں کی دیکھ ریکھ کرنے والی رتھ فائو نے طب کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُسی زمانے میں وہ محبت کے حسین تجربے سے گزری۔ شاہ بلوط کے درخت، زمین پر بکھرے پھول، اور ایک نوجوان۔ شادی کرنا اور گھر بسانا ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے، مگر تقدیر لکھنے والا کچھ اور چاہتا تھا۔ دھیرے دھیرے رتھ فائو کی سوچ تبدیل ہونے لگی۔ روشن خیالی کے اُس دور میں مذہبی سوچ پروان چڑھنے لگی۔ اُنھوں نے راہبہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ جرمنی سے پیرس پہنچیں، اور Daughters of the Heart of Mary نامی تنظیم کا حصہ بن گئیں۔ کچھ عرصے بعد تنظیم کی ہندوستانی شاخ کو ایک گائناکولوجسٹ کی ضرورت پڑی، تو اُن کا انتخاب کیا گیا۔ حضرات، یہ کہانی کا سب سے اہم موڑ تھا۔۔۔ قدرت کا منصوبہ مکمل تھا۔۔۔ حیران کن طور پر انھیں ہندوستان کا ویزا نہیں مل سکا۔ ایسے میں کسی نے کراچی جا کر وہاں سے ویزا حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ یوں 8 مارچ 1960 کو وہ کراچی آ گئیں۔ ایک گرم، پُرشور اور مشکل شہر میں۔ ارادہ مزید سفر کا تھا، مگر پھر ملاقات میکسیکن نن سسٹر برنس وارگس سے ہوئی، جنھوں نے میکلوڈ روڈ (موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) پر کوڑھیوںکے لیے ایک ڈسپنسری کھول رکھی تھی۔ سسٹر برنس وارگس بھی قدرت کے منصوبے کا حصہ تھیں۔ وہی ڈاکٹر رتھ فائو کو جذامیوں کی بستی لے گئیں، جہاں انسانیت کو تڑپتا دیکھ کر اس رحم دل خاتون نے ہندوستان جانے کا ارادہ تج دیا، اور ان دھتکارے ہوئے انسانوں کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ جب انھوں نے اِس لاعلاج تصور کیے جانے والے مرض کے خلاف جہاد شروع کیا، اس وقت فقط ایک جھگی تھی، اور جیب میں بیس روپے۔ کچھ عرصے بعد میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر قائم ہوا۔ دھیرے دھیرے نیک دل ہم خیال لوگ اُن سے آن کر ملنے لگے، مگر یہ سفر دشوار تھا کہ اِس مرض سے متعلق غلط تصورات جڑ پکڑ چکے تھے۔ وہ ایک ایک کرکے ان تصورات کو شکست دیتی رہیں۔ پاکستان کے دشوار گزار علاقوں، یہاں تک کہ طالبان کے زمانے میں افغانستان میں بھی کام کیا۔ روشنی پھیلتی گئی۔ ملک بھر میں میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر کھل گئے۔ ہزاروں مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ایک جرمن راہبہ محسن پاکستان بن گئی۔ اور یوں۔۔۔ قدرت کا منصوبہ مکمل ہوا۔
یہ اگست کا مہینہ ہے، پاکستان کو آزاد ہوئے 70 برس ہو چکے ہیں، لیکن ہم اب تک اپنے فکری، نظریاتی، سیاسی اور معاشی اہداف کا تعین نہیں کر سکے۔ آج بھی انتشار اور ابہام کا شکار ہیں۔ دوسری طرف چھ عشرے قبل جرمنی سے آنے والی ایک راہبہ نے کوڑھیوں کی تعفن زدہ، وحشت ناک بستی میں کھڑے ہو کر ایک پل میں اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیا تھا، اور پھر اپنے غیر متزلزل یقین کے سہارے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پاکستان کو جذام سے پاک کر دیا۔ عظیم فرانسیسی ادیب والٹیر کا ناول ''کاندید‘‘ یاد آ گیا، جس کا مرکزی کردار کہتا ہے: ''ہمیں بلا چون و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے۔ یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا اکلوتا طریقہ ہے‘‘۔ ڈاکٹر رتھ فائو کی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما رہا۔ ایک ایسے زمانے میں جب دہشت گردی عروج پر تھی، سیاسی اور معاشی حالات مخدوش تھے، وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہیں۔ ایک روز ایک صحافی نے اُن سے پوچھا: ''کیا یہ حادثات، سانحات آپ کو پریشان نہیں کرتے؟‘‘ کچھ دیر توقف کیا۔ پھر بولیں: ''پریشان تو کرتے ہیں، مگر ہمیں تو اپنا کام کرتے رہنا ہے‘‘۔ اس عظیم عورت کی زندگی سے اگر ہم ایک چیز سیکھ سکتے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ اپنے مقصد کا تعین کریں، اور پھر خود کو اس کے لیے وقف کر دیں۔ یہی قدرت کا عظیم منصوبہ ہے۔
ارادہ تو یہی تھا کہ جی ٹی روڈ سے گزرتے کارواں پر کچھ لکھا جائے، مگر 10 اگست کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ وہ عورت چلی گئی تھی، جو اس قوم کی محسن ہے، اور جس کو خراج تحسین پیش کرنا مجھ پر لازم تھا۔