"IKC" (space) message & send to 7575

’’اینیمل فارم‘‘ میں خوش آمدید

چاہے کھڑکی کے باہر چلچلاتی دھوپ ہو یاپھر مینہ برس رہا ہو،چاہے آپ کے ہاتھ میں کافی کا مگ ہو یا پائپ، اگر آپ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا مطالعہ کررہے ہیں، توآپ کا سامنا فقط المیوں سے ہوگا۔ 
جی ہاں، آپ ہر ورق پر المیوں سے روبرو ہوں گے۔ پاکستان ایک بازو سے محروم ہو گیا، باربار مارشل لالگا، کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا،دو قتل ہوئے اورایک کو پھانسی لگی،معیشت غیرمستحکم رہی، دہشت گردی کے عفریت نے حملہ کیا۔ البتہ المیوں کی اِس طویل فہرست میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کبھی عوام کو اہمیت نہیں دی گئی۔ آمر ہو یا سیاست دان،دونوں ہی نے اُنھیں بے وقعت جانا۔
فیض صاحب سے ہماری عقیدت اپنی جگہ، مگر خلق خدا کاراج دیکھنے کی آرزو،تاج اچھالے جانے اور تخت گرائے جانے کی امید۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ دھندلاتی جارہی ہے۔ شاید آپ ہمیں قنوطی ٹھہرائیں، مگر وہ حسین منظر، جس کی بابت فیض نے کہا تھا:'' لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ شاید ہم کبھی نہ دیکھ سکیں۔ جالب کے دور میں جو دس کروڑ تھے، یعنی عوام، وہ کب کے اٹھارہ کروڑ کا ہندسہ عبور کرگئے ، مگر اب بھی ریاست کے پلڑے کا سب سے ہلکاپتھر ہیں۔
آمر وںکا تو ذکر ہی کیا۔ وہ اپنی مرضی سے آتے ہیں،جب تک چاہتے ہیں، ٹھہرتے ہیں اور جب جی بھر جائے، کمر درد کا بہانہ بنا کر چل دیتے ہیں۔ اصل شکوہ تو ان منتخب نمائندوں سے ہے، جو عوام کو طاقت کا سرچشمہ ٹھہراتے ہیں، مگرصرف دو موقعوں پر اِس سرچشمے کو یاد کرتے ہیں۔ پہلی بار تب، جب انہیں اقتدار حاصل کرنا ہو ، اور دوسری بار۔۔۔ جب ان سے اقتدار چھین لیا جائے۔آج ن لیگ کو عوام کی یاد ستائی، ووٹ کے تقدس کا خیال آیا، مشرقی پاکستان اور بھٹو کا نام زبان پر آیا ہے، تو یہ بے سبب نہیں کہ انہیں کڑی مشکل درپیش ہے۔ ایک طرف نااہلی کے بعد نیب ریفرنس، دوسری طرف این اے 120 کا ضمنی الیکشن، اس پر مستزاد ،پارٹی میں جنم لینے والے اختلافات ۔ قائم مقام صدر کے انتخاب اور محترمہ کلثوم نواز کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ شاید مقاصد کے حصول میں معاون ہو، مگر کیا انہیں مقبول فیصلے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ جی نہیں!
براہِ کرم تنقید کا دائرہ ن لیگ تک محدود مت رکھیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی رسومات رائج۔ یہی طرز سیاست پیپلزپارٹی کو پنجاب میں لے ڈوبا۔ گو کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آصف علی زراری ‘میاں صاحب سے مفاہمت کا امکان رد کرکے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ مستقبل میں اُن کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، مگر انتخابات میں اُن کے لیے قلعۂ پنجاب فتح کرنا دشوارہوگا۔ اور اگر آپ پنجاب میں نہیں جیت سکتے، تو وفاق کو بھول جائیں۔یہی کلیہ ہے صاحب۔ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ میدان میں آنے والی تحریک انصاف بھی عوام کی امنگوں پر پوری نہیں اتری۔ آج خان کے گرد روایتی سیاست دانوں کا اکٹھ ہے۔ گو اس میں کوئی مضایقہ نہیں کہ پاکستان میں روایتی طرز سیاست رائج، مگر قیادت میں فکری مضبوطی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ساتھ ان کے شیخ رشید ہیں، جن کا ووٹ بینک پنڈی میں بھی مشکوک ۔ جناب طاہر القادری یہ مطالبہ تو کرتے ہیں کہ سانحۂ ماڈل ٹائون کے ذمے داروں کو انصاف دلائیں گے، مگر اُن کے دھرنے اور تحریک ایک خاص موڑ پر پہنچ کر خاموشی سے ختم ہوجاتی ہے۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے باوجود عوام کی بہتری کے لیے ٹھوس کام نہیں کرسکیں۔اے این پی نے اپنا نظریہ چھوڑ کر خود ہی اپنا بیڑہ غرق کر لیا۔ قصہ مختصر،عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کی ترجیحات میں عوام خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ 
عوام کی مظلومیت اور بدحالی جارج آرویل کے شہرہ آفاق ناول ''اینیمل فارم‘‘ کی یاد دلاتی ہے۔وہ سن 1945 کے ماہ اگست ہی میں شایع ہوا تھا۔ اِس ممتاز ادیب نے ناول میں سوویت یونین کے سخت گیر اشتراکی نظام پر کمال کا طنز کیا۔ باڑے میں حکمرانوں کے ہر ظلم کا جواز تراش لیا جاتا ہے، اور سادہ لوح مکین اِس جواز کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ ناول کے مختلف حیوانی کرداروں کے روپ میں ہماری کارل مارکس(اولڈ میجر)اسٹالن(نپولن) ٹراٹسکی (اسنوبال) سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسانی کرداروں میں زار نکولس دوم، ہٹلر اور برناڈشا کی جھلک نظر آتی ہے۔ پلاٹ کچھ یوں ہے کہ جانور انسانوں کو بے دخل کرکے باڑے پر قبضہ کر لیتے ہیں۔اس انقلاب کے نتیجے میں سوروں کے ایک بالادست طبقے کے ہاتھ میں اقتدار آجاتا ہے۔ جلد ہی یہ انقلاب بدترین آمریت میں ڈھل جاتاہے۔حالات پہلے سے بدتر ہوجاتے ہیں، مگر انقلابی خواب کا تقدس عوام کو اِس سچائی کا اعتراف نہیں کرنے دیتا۔ گوناول کا محوراسٹالن دور کا سوویت یونین ہے، مگر حکمران طبقے کی چالاکیوںاور عوام کی سادگی کوجس چابک دستی سے منظر کیا گیا ہے، وہ ناول کووقت سے ماورا بنا دیتا ہے۔
سب سے دل چسپ پہلو وہ سات اصول ہیں، جو انقلاب کے بعد باڑے کی دیوار پر لکھے جاتے ہیں، تاکہ سب جانور انہیں ذہن نشین کر لیں، جیسے کوئی جانور دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا، کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکمراں طبقہ ان اصولوں میں اپنی سہولت کے مطابق ترامیم کرتا رہتا ہے۔ جب دیگر جانور اعتراض کرتے ہیں، تو ترامیم کے جواز تراش لیے جاتے ہیں۔اہم ترین اصول :''تمام جانور برابر ہیں‘‘ ترمیم کے بعد کچھ یوں ہوجاتا ہے: ''تمام جانور برابر ہیں، مگر کچھ جانوردوسرے جانوروں سے زیادہ برابر ہیں!‘‘
''اینیمل فارم‘‘ اور ترقی پذیر ممالک کی سیاسی صورت حال میں حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے۔ پاکستان ہی کو لیجیے۔ اقتدار کی دوڑ میں شامل ہر شخص انقلاب اور تبدیلی کا علم بردار ،ہر ایک کا دعویٰ کہ وہ عوام میں سے ہے، مگر مسند پر بیٹھنے کے بعد سب عوام کو بھول کر اشرافیہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔اچھا، ''باکسر ‘‘اِس ناول کا سب سے اہم کردار ہے۔ یہ ایک محنتی گھوڑا ہے، جو مزاجاً حاکم (نپولین)کا وفادار ہے۔ دیگر جانوروں سے زیادہ محنت کرنے والے اِس مخلص کردار کا انجام بڑا الم ناک ہوتا ہے۔ جب ایک واقعے میں وہ شدید زخمی ہوجاتا ہے، تو اُسے علاج کے بہانے ایک وین میں سوار کروا کر فارم سے روانہ کر دیا جاتا ہے، مگر وہ اسپتال کی نہیں ،قصائی کی وین ہوتی ہے۔پھر یہ مشہور کر دیا جاتا ہے کہ باکسر کا انتقال ہوگیا ۔
سویلین بالادستی، پاناما کیس،سندھ میں نیب کا خاتمہ، عائشہ گلالئی کے الزامات؛ اِن کی اہمیت سے ہمیں انکار نہیں۔ آپ شوق سے ریلی نکالیں، دھرنا دیں،جلسے کریں۔ فقیر کا مطالبہ توفقط یہ کہ عوام کا بھی سوچیں۔ دعوے اپنی جگہ، مگر ترقی تواُسی وقت ممکن ہے، جب عوام کے مسائل حل کیے جائیں۔ناانصافی، ناخواندگی، غربت اور عدم تحفظ کا خاتمہ ہو، صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اُس خلیج کو بھی پاٹنا ہوگا، جو لسانی، مذہبی اور جغرافیائی تعصب کے نتیجے میں معاشرے میں ابھر آئی ہے۔ اس تقسیم نے ہمیں خاصا متعصب بنا دیا ہے۔ ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کے بنیادی اصول کو بھول چکے ہیں۔ ''باکسر‘‘ کے مانند فقط اپنے لیڈر کے سچے ہونے پر مصر ہیں۔ اُن کے کہنے پر دھرنے دیتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں، چندہ جمع کرتے ہیں، اور آخر میں۔۔۔ قصائی کی وین کو ایمبولینس سمجھ کر اس میں سوار ہوجاتے ہیں۔ 
چاہے کھڑکی کے باہر چلچلاتی دھوپ ہو یا پھربرف گر رہی ہو، اگر آپ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں گے، توآپ کا سامنا فقط باکسروں سے ہوگا۔اٹھارہ کروڑ باکسروں سے! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں