"IKC" (space) message & send to 7575

کیا غلطی سدھارنے کا وقت آ گیا؟

جس روز ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے تھے، پاکستانی سیاست طوفانوں کی زد میں تھی۔ پاناما فیصلے کے بعد پیدا ہونے والا طاقت کا ڈیڈ لاک امریکی صدر کے جنوبی ایشیا سے متعلق اولین پالیسی بیان سے قبل عروج پر پہنچ چکا تھا۔ سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں نے نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا، عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیار ی جاری تھی، ڈان لیکس کی بازگشت پھر سنائی دی، وکلا سڑکوں پر تھے، اپوزیشن موقعے کی تاک میں تھی، ایسے میں۔۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدر بننے سے پہلے کے موقف کو پس پشت ڈالا، اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو یکسر رد کر دیا۔ ساتھ الزام لگایا کہ اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود پاکستان اُنہی دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے، جن سے امریکا برسر پیکار ہے، اورِ اس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔
امریکا کا ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ نیا نہیں، مگر لہجہ اور الفاظ کا چنائو تشویشناک ہے۔ اقتصادی پابندیاں، ساتھ نہ دینے کی صورت میں نقصان کی دھمکی، اپنے فوجیوں کی قربانی کا صلہ مانگنا، فضائی حملوں کو امکانی قرار دینا۔۔۔ یہ حالیہ برسوں میں امریکا کا پاکستان سے متعلق سخت ترین موقف ہے۔ شاید ٹرمپ کی نئی پالیسی ہی وہ خطرہ تھا، جس کی جانب چوہدری نثار نے ناراضی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اشارہ کیا تھا۔ ٹرمپ کے بیان کا موازنہ پرویز مشرف کو 9/11 کے بعد ملنے والے اُس سخت پیغام سے کیا جا سکتا ہے، جب کہا گیا تھا: ''یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف!‘‘
''مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کے شاعرانہ تصور کو خارجہ پالیسی میں شامل کرنے پر بضد دفاعی تجزیہ کار شاید یہ موقف اختیار کریں کہ ہمیں امریکی دھمکی کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی تو پاکستانی قوم میں کمبوڈیا اور ویت نام والی خصوصیات دیکھ کر یہ کہہ اٹھے کہ اگر ٹرمپ نے کوئی غلط قدم اٹھایا، تو پاکستان امریکی فوج کا قبرستان بن جائے گا۔ مولانا سمیع الحق بھی منہ توڑ جواب دینے کا روایتی مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ رجائیت پسندانہ موقف جذبات کے لیے تو اچھی غذا ہے۔ البتہ یہ معاملہ نعروں، دعووں اور ریلیوں سے حل ہونے والا نہیں۔ سبب یہ نہیں کہ امریکا سپر پاور ہے، اور عالمی معیشت پر ڈالر کی حکمرانی ہے۔ یہ سبب بھی نہیں کہ امریکا بڑی سہولت سے نہ صرف ڈرون حملے کرتا رہا ہے، بلکہ آپ کی حدود کی خلاف ورزی کرکے اسامہ اور ملا منصور کو بھی نشانہ بنا چکا ہے۔ اصل وجہ یہ ہے صاحب کہ وہ اپنی بیان کردہ پالیسی کے برعکس اِس خطے میں امن کا نہیں، بلکہ یہاں قیام اور ادھر ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا خواہاں ہے۔ جی، اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے، نیٹو فورسز نکل جاتی ہیں، تو چین مضبوط ہو گا۔ چین کا استحکام افغانستان میں جاری پاک بھارت پراکسی وار میں پاکستان کے مفاد میں جائے گا۔ یہ ساری صورت حال امریکا کو قبول نہیں۔ مودی اور ٹرمپ میں گاڑھی چھنتی ہے، تو اِس کا سبب مشترکہ عادات نہیں، مشترکہ مفادات ہیں۔ دونوں کی آنکھوں میں سی پیک کھٹک رہا ہے۔ چین کو، جسے اقتصادی ماہرین مستقبل کے سپر پاور کے طور پر دیکھتے ہیں، اِس بات کا بہ خوبی ادراک ہے۔ اِسی لیے پاکستان سے قبل چین نے ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دیا۔ اگر مستقبل میں روس کا وزن آپ کو پاکستانی پلڑے میں دکھائی دے، تو یہ غیر متوقع نہیں ہو گا۔ اِس میگا پروجیکٹ سے کئی ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔
اچھا، ناراض امریکی حلقوں کا یہ موقف کہ پاکستان نے کسی مرحلے پر دل سے ان کا ساتھ نہیں دیا، اور اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا، شاید کلی طور پر غلط نہ ہو۔ بھارت سے سات عشروں سے جاری کشیدگی کے تناظر میں 9/11 کے بعد مزید دشمن پیدا کرنا منطقی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔ پھر دشمنی بھی اُن سے، جن کی تشکیل میں افغان وار کے دوران پاکستان نے کردار ادا کیا۔ بے شک ہم متذبذب تھے، اور اب بھی ہیں، مگر فیصلہ وقت کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا۔ اِس فیصلے کی پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے نتیجے میں ایک ہولناک جنگ ہمارے شہروں میں داخل ہو گئی۔ خود کش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات میں ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے، جن میں چھ ہزار فوجی جوان شامل تھے۔ یہ تعداد افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، مزید افغان پناہ گزینوں کا بوجھ ہم پر آن پڑا۔ 
فی الوقت یہ بحث غیر متعلقہ ہے کہ ٹرمپ کی اِن دھمکیوں کا جواب عسکری کے بجائے سیاسی قیادت کو دینا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کا موقف کہ پاکستان کو امریکا سے امداد نہیں اعتماد چاہیے، افغانستان میں ہماری کوششیں قومی مفاد کے مطابق ہیں، اور ہماری قربانیوں کا احترام کیا جائے۔۔۔ پالیسی بڑی حد تک واضح کرتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں عسکری اداروں کا کردار ترقی پذیر ممالک میں ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اب مدعا ہے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا۔ یہ طے کرنا کہ امریکی خوشنودی کتنی اہم ہے، اور اس کی ناراضی ہم کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں۔ فیصلہ ساز اِس بات سے باخبر ہیں کہ آج کا امریکا سولہ برس پرانے امریکا سے مختلف ہے، جو افغانستان پر چڑھائی کے لیے پُرجوش تھا، اور خطۂ عرب میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کا عزم کیے بیٹھا تھا۔ موجودہ امریکا میں معاشی عدم استحکام سر اٹھا چکا ہے۔ 65 فیصد امریکی افغان وار میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ ادھر پاکستان کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ امریکی امداد چند ہزار ملین ڈالر ہے، جبکہ پاک چین اقتصادی شراکت کا حجم 110 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ امریکی امداد میں جہاں کئی تلخ مطالبے ہیں، وہیں چین کی پیش کش میں اعتماد ہے۔ پھر 9/11 کے برعکس آج پاکستان میں جمہوریت ہے۔ گو پارلیمنٹ اتنی مضبوط نہیں، مگر یاد رہے، اِسی پارلیمنٹ کے فیصلے کے طفیل پاکستان یمن سعودیہ تنازعے میں غیر جانب دار رہا تھا۔
عمومی رائے ہے کہ 1949ء میں سٹالن کی دعوت پر امریکی صدر ٹرومین کی دعوت کو ترجیح دے کر لیاقت علی خان نے پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا تعین کیا، مگر حقیقتاً اِس پالیسی کی داغ بیل بٹوارے سے قبل قائد اعظم کی زندگی میں پڑ چکی تھی۔ عالمی حالات، بھارت اور سوویت یونین کی قربت کے باعث پاکستان کا امریکی صف میں جانا ٹھہر گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عشروں پر محیط یہ اتحاد پاکستان کے لیے کس حد تک سود مند ثابت ہوا؟ جواب کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری نہیں۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا، مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا، جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اترتی رہی، پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت نے لپیٹ میں لے لیا، معیشت ہنوز غیر مستحکم ہے۔ اِس تناظر میں ٹرمپ کی تقریر میں، جسے ممتاز دانشور، ڈاکٹر لال خان مایوسی کی غماز قرار دیتے ہیں، جہاں ہمارے لیے تھوڑی تشویشناک ہے، وہیں ایک موقع بھی ہے۔ اپنی غلطی سدھارنے کا موقع۔ آقا و غلام کے رشتے کو ایک حقیقی اتحادی کے رشتے میں بدلنے کا موقع۔ خارجہ پالیسی کو درست کرنے کا موقع۔ ایک نیا ریاستی بیانیہ اختیار کرنے کا موقع۔
امریکا چار ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس وقت وہاں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار ہے۔ یہ تنہا اقدام قیام امن کے لیے ناکافی ہے۔ افغان تنازعے میں پاکستان کا کردار ناگزیر ہے۔ چین معاملے میں براہ راست دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکا اب اکلوتا فیصلہ ساز نہیں۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں، جہاں چین اور روس کی جانب سے نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل کو امکانی خیال جا رہا ہے، پاکستان کو ماضی سے سبق سیکھ کر، اپنے جغرافیے اور ایٹمی قوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے ایک نئے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔ قرضوں کے بوجھ اور عشروں سے امریکی چنگل میں پھنسے ہونے کے باعث یہ دشوار ضرور ہے، ناممکن نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں