"IKC" (space) message & send to 7575

روہنگیا کی آنکھ میں ٹھہرے آنسو

حقیقت کا کامل بیان ممکن نہیں۔۔۔
الفاظ۔۔۔کسی باکمال مصنف کے الفاظ طرب یا کرب میں ڈوبے منظر سے کچھ قطرے تو کشید کرسکتے ہیں، آپ کو چند جھلکیاں دکھا سکتے ہیں،مگر فقط اُن الفاط کے ذریعے قاری اُس منظر کو کاملیت سے جی سکے۔۔۔یہ ممکن نہیں!
فکشن نگاری کے فن سے جڑا یہ انکشاف انتظار حسین، عبداللہ حسین، تارڑ اور اسد محمد خاں جیسے جید قلم کاروں سے ہونے والے میرے طویل مکالموں کی عطا نہیں، گو وہ مکالمے اپنے اندر کئی انکشافات رکھتے تھے، یہ انکشاف مسلسل لکھی جانے والی کہانیوں سے بھی برآمد نہیں ہوا،بلکہ برسوں قبل ایک سرد شام اکادمی ادبیات، کراچی میں ہونے والی تقریب کے وسیلے ہاتھ آیا کہ جب ہم نے اپنے کالم میں اُس عمارت اور وہاں منعقدہ تقریب کی منظر کشی کی، تو وہ اُس منظر کشی سے یکسر مختلف تھی، جو ہمارے ایک صحافی دوست نے اپنے روزنامے کے لیے کی تھی۔ یعنی منظر ایک تھا، مگربیان یک سر مختلف۔ 
تو کسی منظر کا کامل بیان ممکن نہیں، اس کے باوجود جب ذبیح اللہ نے پُرنم آنکھوں اور لرزتی آواز کے ساتھ میانمار میں جاری تشدد میں اپنی بہن اور بھانجوںکی شہادت کا ذکر کیا،تو درودیوار ہلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اُن بدنصیبوں کا تذکرہ، جو آج تاریک جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، غذائی بحران، بیماریوں اور خوف کا شکار ہیں،جن کے بچے اور بوڑھے قتل کر دیے گئے، عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔۔۔ اُن بدنصیبوں کا تذکرہ گو ہماری آنکھوں کے سامنے روہنگیا کے حقیقی کرب کی تصویر تونہیں کھینچ سکتا،مگر جتنی بھی تصور بنتی ہے، وہ روح کو جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔ ذبیح اللہ ''پاک روہنگیا ویلفیئر آرگنائزیشن ‘‘کے صدر ہیں۔ برادرم مصطفی حبیب نے روزنامہ دنیا، کراچی آفس میں روہنگیا کے سلگتے ایشو پر فورم کاانعقاد کیا، تو اُن سے ملاقات ہوئی۔ سینیٹرنہال ہاشمی ، اسامہ رضی اور آصف حسنین بھی مدعو تھے۔ وہاں روہنگیا المیے کے چند مزید پہلوسامنے آئے۔ 
موضوع یہ طویل ہے۔اور پھر شور اتنا ہے کہ لکھے ہوئے لفظ بے وقعت ٹھہرے، مگر فرد پر لازم ہے کہ ظلم کے خلاف، جس حد تک ممکن ہو، آواز اٹھائے۔روہنگیامسلمانوں کاموقف ہے کہ اراکان برما کا حصہ نہیں، بلکہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔صوبۂ اراکان، جسے سرکار نے رخائن کا نام دے دیا ہے، میانمار کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کی زمینی اور آبی سرحد بنگلادیش سے ملتی ہے۔ اراکان کے مسلمانوں کو روہنگیا کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ روہنگ سے ماخوذ ہے، جو اراکان کا پرانا نام تھا۔یہاں اسلام کی آمد نویں صدی میں ہوئی۔ روہنگیا مسلمانوںکے مطابق سلیمان شاہ نے پندرہویں صدی میں یہاں پہلی مسلم حکومت قائم کی ۔ پھر ادھر 48 مسلم حکمران گزرے۔اٹھارویں صدی کے اواخر میں برمی استعماریوں نے اِس پر قبضہ کر لیا۔ 1824 میں یہ برطانیہ کی کالونی بن گیا۔ 1947 میں جب برطانیہ رخصت ہوا، تو اراکان کے باسیوں کی مرضی کے خلاف اِسے برما میں ضم کر دیا۔روہنگیا، جنھوں نے کبھی پاکستان سے الحاق کی تحریک چلائی تھی، اِس فیصلے کو قبول نہ کرسکے۔ یہیں سے المیے کا آغاز ہوا۔جب 1962 میںبرمی فوج نے اقتدارپر قبضہ کیا، تو نسلی، مذہبی اور سیاسی اختلاف کے باعث روہنگیا اور بدھ مت کے پیروکاروں میں فاصلہ بڑھتا گیا۔ المیے میں شدت آتی گئی۔ عالمی قوتوں، مسلم ممالک اور اقوام متحدہ کی خاموشی سے معاملات بگڑتے گئے۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ 
روہنگیا ایشو پرپاکستان میں رائے عامہ بٹی ہوئی ہے۔ایک متوازی موقف بھی ہے، جس کے چند نکات سے انکار ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی کئی ویڈیوز اور تصاویر گم راہ کن اور جعلی ہیں، جو معاملے کو مزید بگاڑ رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ ترکی کے نائب وزیراعظم بھی ایسی ہی جعلی تصاویر کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ بات بھی بڑی حد تک ٹھیک کہ حالیہ کارروائیاں میانمار کے تمام مسلمانوں کے نہیں، فقط روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ میانمار میں مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 22 لاکھ ہے، روہنگیا مسلمانوں کی تعداد، جن کا بڑامرکز صوبۂ اراکان ہے، دس لاکھ کے قریب ہے۔ اس صوبے میں بدھ مت کے پیروکاروں بھی آبادہیں۔ یعنی یہ مسئلہ مذہبی کے ساتھ ساتھ نسلی اور سیاسی زمین میں بھی جڑیں رکھتا ہے۔ یہ اعتراض بھی صحیح ہے کہ بنگلادیش پر اِس معاملے میں حد سے زیادہ تنقید درست نہیں۔گزشتہ دو ہفتوں میں ڈیڑھ لاکھ مہاجرین بنگلادیش میں داخل ہوئے ہیں۔ اوریہ نکتہ بھی وزن رکھتاہے کہ طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آنے والی آنگ سان سوچی آج بھی طاقت کا محور نہیں۔ اختیار ہنوز فوج کے پاس ہے۔اور اس کہانی سے ہم مانوس ہیں۔
مذکورہ اعتراضات اپنی جگہ، مگر اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ روہنگیا آج بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ حکومتی سرپرستی میں اُن کا قتل عام ہوا۔ وہ بے گھر ہوئے۔ قتل کیے گئے۔ ان مظالم کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ریلی، جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری ہے۔مظاہروں، مذاکروںاور سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے جو مطالبات کیے جارہے ہیں، ان میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک کی اتحادی فوج میانمار میں کارروائی کرے۔ یہ مطالبہ حقائق سے پرے ہے۔ اسلامی فوج کے نہ تو اغراض و مقاصد واضح ہیں، نہ ہی ہیئت۔اچھا،یہ نعرہ کہ پاکستان کو وہاں اپنی فوج بھیجنی چاہیے،جذباتی ، غیرمنطقی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال بھی پنپ رہا ہے کہ روہنگیامسلمان عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں، اور دنیا بھر کی جہادی تنظیمیں اُن کی مدد کو پہنچیں۔گو عشروں سے ظلم کی شکار کسی اقلیت کی جانب سے ہتھیار اٹھا لیناقابل فہم ہے، اور اِس نوع کے چند واقعات میانمار میں ہوئے بھی ہیں، تشدد کی حالیہ لہر 25اگست کو پولیس چوکیوں پرحملے کے بعد اٹھی تھی، مگر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عسکری جدوجہد روہنگیا کی مشکلات میں فقط اضافے کا سبب بنے گی۔جہادی تنظیموں کا وہاں قدم جمانا خطے کے لیے مضر ثابت ہوگا۔ 
مسلمانوں کے دل ، دعائیں اور آنسو روہنگیا کے ساتھ ہیں، مگر مسئلے کا حل عوام نہیں، حکمرانوں کے پاس ہے۔وقت ترکی، سعودی عرب اور پاکستان کی جانب سے منظم و مربوط سفارتی کوششوں کا متقاضی ہے ۔چین کو اِس عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتے ہوئے پہلے مرحلے میں میانمار پر سفارتی دبائو ڈال کر تشددکی لہر پر قابو پایا جائے۔ پھر مہاجرین کی بحالی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔اگرمختلف مسلم ممالک سرکاری سطح پر امدادی ٹیمیں روانہ کریں، تو میانمار حکومت پر نفسیاتی اثر پڑے گا۔ مسلمانوں میں درد دل رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ ایک بین الاقوامی فنڈ کا قیام سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر مسلم ممالک بنگلادیش کو تعاون کا یقین دلائیں، اس کاہاتھ بٹائیں، تو وہ روہنگیا مہاجرین سے متعلق اپنے رویے میں تبدیلی لاسکتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ روہنگیا کی بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے۔ یہاںاس کمیونٹی کو گوناگوں مسائل کاسامنا ہے، جنھیں حل کیے بغیر پاکستانی حکومت دیگر ممالک پر دبائو ڈالنے اور سیاسی جماعتیں میانمار کے سفارت خانے کا گھیرائو کرنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتیں۔
میانمار سرکار روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں، انھیں بنگلادیشی مہاجرین ٹھہراتی ہے۔ایسے میں روہنگیا کاخودمختاری کا مطالبہ شاید غلط نہ ہو، مگر موجودہ حالات میں، جب مفادات اور مسلکوں میں بٹے مسلم ممالک فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل نہیںکروا سکے، لگتا ہے، روہنگیا کا یہ سپنا بھی ان کے آنسو ئوںکے ساتھ بہہ جائے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں