"IKC" (space) message & send to 7575

اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

جس نے کہا سچ کہا: غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں۔
دو مصرعوں میں ہونے نہ ہونے کا کائناتی فلسفہ سمو دینا اِسی فسوں گر کا کمال۔ دریا کوزے میں بند ہوجاتا ہے۔ اشعار عشروں پرانے، مگر ہنوز تازہ۔موجودہ سیاسی صورت حال پر جب جب نگاہ کی، غالب یاد آئے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کچھ ایسے ہی حالات ہیں صاحب۔ پاکستانی سیاست ایک مستقل سانحے کی زد میں ہے۔ سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر سیاسی جماعتیں اپنی معنویت کھورہی ہیں۔ اقدامات، بیانات خبروں کو تو جنم دے رہے ہیں، مگر کسی تبدیلی کا محرک نہیں بن رہے۔ ایک جمود ہے، جو ن لیگ کی این اے120 میں جیت، پی ٹی آئی اور پی پی کے جلسوں کے باوجود قائم ہے۔ہاں، میاں صاحب کی آمد سے کچھ ہل چل ہوئی ہے۔کچھ لہریں اٹھی ہیں!
اِسی تناظر میں یاد آیا۔گزشتہ دنوں'' ڈپلومیٹک فورم‘‘ کے تحت امریکا کی نئی افغان پالیسی اور پاکستان کو درپیش چیلنجزکے موضوع پر کراچی میں ایک سیمینار ہوا، توہم ڈاکٹر شاہدہ وزارت، ڈاکٹر طلعت وزارت، بریگیڈیر طارق خلیل اور عبداللہ حسین ہارون کے سامع بنے۔ وہاں جس لفظ کی بازگشت سنائی دی، وہ تھا : کرپشن۔ہمارے نزدیک کرپشن کے سدباب کے لیے نصب کردہ چھلنی مستقبل میں سیاست دانوں کو درپیش سب سے کٹھن چیلنج ثابت ہو گی۔ میاں صاحب اور اسحاق ڈار اِس کا شکار ہوچکے۔شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کا اس کی زد میںآنا متوقع۔ یہ چھلنی نہ صرف پی پی، بلکہ کل پی ٹی آئی کے لیے بھی وبال جان بن سکتی ہے۔
مذکورہ سیمینار میں ایک تجزیہ کار نے پاکستان میں لگنے والے مارشل لا زکا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب جب سسٹم میں خلا پیدا ہوگا، کوئی نہ کوئی قوت اُسے پُر کرنے آگے آئے گی۔ بات تواُن کی درست۔ البتہ ماضی سے موازنہ کیا جائے، تو موجودہ صورت حال زیادہ تلخ کہ ایک بڑا خلا ہے، مگر اسے پُر کرنے نہ تو کوئی قوت سامنے آ ئی ہے، نہ ہی مستقبل قریب میں اِس کا کوئی امکان ۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت دور کی کوڑی ہے۔فی الحال ایک بے نام ٹھہرائو ہے۔ذرا دیکھیے، سیاسی سیٹ اپ موجود، وزیر اعظم غیر ملکی دورے کر رہے ہیں، وزیر خارجہ اپنا گھر صاف کرنے کا ارادہ باندھے بیٹھے ہیں، زرداری صاحب میاں صاحب پر تیر برسا رہے ہیں، عمران خان نے زرداری صاحب کو نشانے پر رکھا ہوا ہے،مگر یہ سیاسی سرگرمیاں بے معنی معلوم ہوتی ہیں۔ نظام کمزور پڑتا جارہا ہے۔
گو حالیہ دنوں میں ن لیگ کی جانب سے نادیدہ قوتوں کا ذکر ہوا، کچھ تجزیہ کار بھی خفیہ ہاتھ کی جانب اشارہ کرتے ہیں، مگر تذکرے سے ہمیشہ اجتناب برتا گیا۔ ہاں، کبھی ڈھکے چھپے، کبھی واضح الفاظ میں تنقید ہوئی۔ شاید چند اعتراضات درست ہوں، مگردست بستہ پوچھنا چاہوں گا، کہیںحالیہ اقدامات کا محرک وہ تو نہیں، جس کی بنیاد جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں پڑی تھی؟ وہی جسٹس افتخار چوہدری جن کی بحالی کی تحریک میں میاں صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا ۔جی، افتخار چوہدری ہی کے زمانے میںمیمو کیس اٹھا ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نااہل قرار پائے، اور پھرافتخار چوہدری ہی پرعمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی میں معاونت کا الزام عائد کیا۔دائرہ مکمل ہوا!
سیاسی نظام مضبوط سیاسی جماعتوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے نظریات اور ایم کیو ایم کی پرتشدد سیاست سے ہماری بیزاری اپنی جگہ، مگر اُن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ دونوں سیاسی سیٹ اپ کے لیے اثاثہ ۔ اور اس تناظر میں ن لیگ اہم ترین اثاثہ ٹھہرتی ہے۔ بدقسمتی سے حالیہ جمود کا اصل شکار بھی یہی جماعت ہوئی ۔وفاق اور پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود ہرگزرتے دن کے ساتھ اِس کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ٹرمپ کی نئی پالیسی، انڈیا افغان گٹھ جوڑ، سی پیک سے جڑے تقاضے اور تحفظات، عدالتی احتساب؛ ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک طاقتور وزیر اعظم درکار۔
کیا جناب شاہد خاقان عباسی ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موزوں ترین شخص ہیں؟ اگر آپ یہ سوال چوہدری نثار سے کریں، توشاید اُن کا جواب نفی میں ہو۔ لیکن اگر اِس عہدے پر میاں شہباز شریف فائز ہوتے، کیاتب بھی چوہدری صاحب کا جواب نفی میں ہوتا؟
ن لیگ کو بیرونی محاذ پر احتساب کا سامنا ہے، مگر اندرونی سطح پر بھی ایک چیلنج درپیش ہے۔ اور یہ ہے میاں صاحب کی سیاسی وراثت۔شریف خاندان میں اختلافات کو اُن کے مخالفین کی آرزواور اِس نوع کی تمام خبروں کو افواہ قرار دیا جاسکتا ہے،مگر وہ مہم پریشان کن ہے، جس کا نشانہ میاں شہباز شریف بنے۔ اس مہم میں سوشل میڈیا کے ساتھ تحریر و تقریر کو بھی کام میں لایا گیا۔ میاں شہباز شریف پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے نرم گوشہ رکھنے،ضمنی الیکشن سے شعوری دوری اور نثار سے قربت کا الزام عائد کرنے والے اُن کی خدمات اور قربانیوں کوجس سہولت سے نظر انداز کر گئے، وہ تھوڑا حیران کن تھا۔
یہ خیال مختلف پلیٹ فورمز سے دہرایا جارہا ہے کہ ن لیگ کا ووٹ بینک دراصل میاں صاحب کا ووٹ بینک ہے، اور میاں صاحب کی سیاسی جانشین مریم نواز ہیں۔ووٹ بینک والا موقف درست ہے، اورمریم نواز کی صلاحیتوں سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ حالیہ جیت میں اُن کی محنت کا بڑا عمل دخل تھا، مگران کا، محترمہ سمیت، سینئر اور تجربہ کار سیاست دانوں سے موازنہ قبل از وقت ہے۔ شاید اِسی بات کے پیش نظر خواجہ سعد رفیق نے اُن کی قابلیت کو سراہتے ہوئے اُنھیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔اور شاید اسی بات کے پیش نظر خود شہباز شریف نے اختلافات کی تردید کو ضروری جانا۔
ویسے مریم نواز کو جلد یا بدیر سیاست میں آنا ہی ہے۔ برصغیر کی سیاست میںیہی چلن۔ باپ کی سیاسی وراثت اولاد ہی کو منتقل ہوتی ہے۔ وہی پارٹی سنبھالتی ہے، اور مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ نہرو، بھٹو اور مجیب خاندان اِس کی بڑی مثال۔ یہاں بھٹو خاندان کا تذکرہ اہم کہ پی پی نے کبھی، کم و بیش اِسی صورت حال کا سامنا کیا تھا، جو آج ن لیگ کو درپیش۔ 80 کی دہائی میں سینئر اور تجربہ کارنصرت بھٹو پر نوجوان بے نظیر بھٹوکو فوقیت دی گئی۔محترمہ کی شہادت کے بعد اُن کے صاحب زادے بھٹو کے لاحقے کے ساتھ سیاست میں وارد ہوئے، جنھیں نہ صرف عوام، بلکہ پڑھے لکھے باشعور طبقے نے بھی معروضی حقائق کے پیش نظر قبول کر لیا۔ 
قصۂ مختصر،اگر ن لیگ میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے،جو متوقع ہے، تو وہ بھی عوام میں قبولیت حاصل کر لے گا۔البتہ موجودہ حالات میں، جب یہ جماعت عدالتوں سے الجھی ہے،اکائونٹ منجمد ہوگئے ہیں، ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھتا جارہا ہے، پی پی موقعے کی منتظر ہے، اورمذہبی جماعتوں کا اتحاد تشکیل پانے کو ہے، نئے الیکشن کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔۔۔ ایسے میں اندرونی محاذ کھولنا دانش مندانہ اقدام نہیں ۔اگلے انتخابات میں ن لیگ کی فتح کا دارومدار میاں صاحب پر ہے۔ وہی اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی۔ان کے فیصلے اہم۔سیاسی جمود کو توڑنے کے فیصلے۔ فیصلے، جو انھوں نے لندن میں کیے ، مگر اُن کے اطلاق کے لیے پاکستان کے سیاسی منجھدار میں لوٹ آئے۔اورجب وہ لوٹے، تو اُنھیں منیر نیازی والی صورت حال درپیش تھی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں