مجھے یاد ہے کہ جب میں ستر اور اسّی کی دہائی میں لاہور میں رہتا تھا تو ہم براہ ِراست نلکے کا پانی پیتے تھے۔ اب میں یہ پانی صرف اُسی صورت پیوں گا جب آپ گن لے کر میرے سر پر کھڑے ہوجائیں اور مجھے سست روی سے خودکشی پر مجبور کریں۔ اب ہر کوئی، جو بھی استطاعت رکھتا ہے، منرل واٹر استعمال کرتا ہے ، ورنہ پانی ابال کر اور فلٹر کرکے پیتا ہے۔ یہ ایک اور میدان ہے جس میں پاکستان تنزلی کا شکار ہے کہ یہ زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے شہریوں کوپینے کا صاف پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اگر آپ کا نلکا مین سپلائی سے دور ہے اور اگر اس میں پانی بھی آتا ہے تو اُسے پینے سے آپ سنگین بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک انگریزی اخبار میں ایک خبرشائع ہوئی کہ وزیر ِ اعلیٰ سندھ کے گھر کو فراہم کیے جانے والے پانی کو کلورین گزار کر جراثیم سے پاک نہیں کیا جاتا ہے؛ چنانچہ اگر صوبے کے سب سے بااثر شخص کے گھر مہیا کیے جانے والے پانی کی کوالٹی مشکوک ہے تو پھر عوام کیا پیتے ہوںگے؟اگلے دن ایک ٹی وی چینل کے ایک اینکر چند ایک ماہرین کے ساتھ لاہور میں راوی کے کنارے چلتے ہوئے دریامیں پانی کی حالت پر بات کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے اس میں کشتیاں تیر اکرتی تھیں لیکن اب پانی کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اُس گارے سے کوئی قوی جانور، جیسا کہ اونٹ، ہاتھی، گینڈا، وغیرہ بمشکل چلتے ہوئے گزرجائیں تو بڑی بات ہوگی۔ اس پانی میں کبھی راوی سے
ملنے والی مشہور مچھلی ''راوی کھگا‘‘(Ravi khagga) تو کیا اب کوئی سخت جان آبی حیات بھی ایک پل نہ گزار سکے۔ کبھی یہ مچھلی لاہوریوں کی من پسند خوراک ہوتی تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ نئی نسل نے اس کا نام بھی سنا ہے۔
صرف راوی ہی نہیں ، دیگر دریا اور ندیاں، جو صنعتی علاقوںکے قریب سے گزرتی ہیں، بھی بری طرح آلودہ ہیں۔ واہ آرڈیننس فیکٹری نے اُ س رومانوی دریا کا پانی بری طرح آلودہ کردیا ہے جو کبھی مغل باغات کے قریب سے بل کھاتا ہوا گزرتا تھا۔ اس سنگدلانہ لاپروائی کی وجہ سے ہر سال پورے پاکستان میں پانچ سال تک کی عمر کے 250,000 بچے آلودہ پانی کی وجہ سے پیداہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ حسن فائونڈیشن کے مطابق پانی کی وجہ سے پھوٹنے والی بیماریوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو سالانہ 1.3 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ ہیضہ، پیچش، ٹائیفائیڈ اور یرقان جیسی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ آلودہ پانی ہے؛ تاہم آلودہ پانی کی وجہ سے اس وسیع پیمانے پر ہونے والے انسانی جانوں اور مالی نقصانات کے باوجود ہم بجٹ میں اس اہم ترین سیکٹر کے لیے صرف 0.2 فیصد رقم مختص کرتے ہیں۔ پینے کے پانی کی کوالٹی ایک طرف، اس کی مقدار میںبھی شدید کمی واقع ہورہی
ہے۔ اگرچہ دریائوں کے بہائو کم وبیش جوں کے توں ہیں (اس کے لیے ہمیں بھارت کے ساتھ کیے جانے والے سندھ طاس معاہدے کا شکرادا کرنا چاہیے) لیکن نہایت برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی اور صنعتی مقاصد کے لیے پانی کے استعمال میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے۔
اس وقت وطنِ عزیز میں پانی کا بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ اگر ہم نے دستیاب آبی وسائل کو احتیاط سے استعمال کرنا نہ سیکھا تو یوں سمجھ لیں کہ ایک سنگین بحران ہمارا منتظر ہے۔ 1996ء میں سالانہ فی کس پانی کی دستیابی تقریباً1,300 کیوبک میٹر تھی‘ اب یہ مقدار کم ہوکر صرف ایک ہزار کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے۔ پانی کی کم ہوتی ہوئی دستیابی کی وجہ سے پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو آبی قحط کا شکار ہیں۔ اگرچہ ہماری دیہی آبادی ہینڈپمپس کے ذریعے زیر ِ زمین پانی استعمال کرتی ہے لیکن اس پانی کا 36 فیصد کھاری ہے۔
وہ آبادیاں جو صنعتی علاقوں کے قریب ہیں، وہاں کا پانی انتہائی آلودہ ہے ۔ اسی طرح کراچی میں صنعت کار سمندر کو ایک ''کوڑے دان‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ساحلی علاقوں کے نزدیک سے پکڑی جانے والی مچھلی میں سیسے اور پارے کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے؛ چنانچہ اگلی مرتبہ جب آپ بھنی ہوئی مچھلی کھانے جائیں تو اپنی صحت کا سوچ لیں۔
اگلے دن نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے کس طرح اپنی پانی کی کمی پر قابوپایا ہے۔ اس نیم صحرائی ریاست نے سب سے پہلے فواروں کے ذریعے آ بپاشی کا نظام متعارف کرایا۔ اس طریقے سے پانی کا ضیاع کم سے کم ہوتا ہے۔ اب یہ پانی کی بچت کی ایسی مزید بہت سی پالیسیاں متعارف کرارہی ہے۔ اسرائیل میںپانی کے گھریلو استعمال میں 18 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ استعمال شدہ پانی کو صاف کرکے(water recycling) چالیس بلین گیلن پانی صارفین کو مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ ریاست کھاری پانی کو استعمال کے قابل بنانے میں ورلڈ لیڈر قرار دی جاسکتی ہے۔ پانی سے ہونے والی آمدنی کو پانی کے ہی منصوبوں میں لگادیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم پانی پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیوریج پائپ خستہ اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے لیک ہو جاتے ہیں اور تعفن اور بیماریاں پھیلاتے رہتے ہیں۔
کراچی میں سراٹھانے والا پانی کا حالیہ بحران صرف مسئلے کی ایک علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اس صنعتی مرکز کے بہترین علاقے، جیسا کہ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی، بھی اپنے شہریوں تک پائپ کے ذریعے پانی نہیں پہنچا سکتے۔ اس سے متواتر کئی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بات کسی عالمی ادارے نے ہمیں نہیں بتانی کہ ہم نے اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال سے پھوٹنے والی بیماریوں کا بھی سب کو پتہ ہے، چنانچہ اس مسئلے سے صرفِ نظر کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ایک ملک، جو جوہری ہتھیاروں پر اربوں روپے خرچ کرسکتا ہے،کیا وہ اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کرسکتا؟کیا اُس میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ استعمال شدہ پانی کو دریائوں اور سمندر میں پھینکنے سے پہلے ٹریٹ کرلے؟تاہم ہمارے ہاں ایسے مسائل کا حل ممکن نہیں کیونکہ حکمران اشرافیہ جیسے سرکاری سکولوں، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کی حالت بہتر بنانے سے گریزاں ہے، یہ پانی اور سیوریج کے نظام کو بھی بہتر نہیں بنائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دولت مند افراد پرائیویٹ تعلیمی اداروں اورمہنگے نجی ہسپتالوں کی سہولت سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، اسی طرح وہ منرل واٹر بھی پی سکتے ہیں؛ چنانچہ اُنہیں ان معاملات میں ہاتھ آلودہ کرنے کی کیاضرورت ہے؟ حکمران طبقے کی یہ سنگدلی ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب تک اُن کا احتساب نہیںہوتا، پاکستانیوں کے مسئلے حل نہیں ہوںگے۔