ڈاکو بمقابلہ رینجرز

حالیہ دنوں رینجرز آپریشن کے حوالے سے کراچی اور اسلام آباد کے درمیان لفظی گولہ باری دراصل مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنائو کو ظاہر کرتی ہے۔ جس دوران پی پی پی رینجرز آپریشن میں توسیع کی منظوری دینے میں پس و پیش سے کام لے رہی تھی تو بے دھڑک بات کرنے والے چوہدری نثار نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سندھ میں گورنر راج لگانے کا عندیہ دے دیا۔ یقینا ایسی بات کرنا جمہوریت کے لیے خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتالیکن قدرے محتاط لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آبادی کا ایک بڑاحصہ اس پیش رفت کا اگر خیر مقدم نہ کرتا تو برا بھی نہ مناتا۔ 
جس دوران آپریشن کا فوکس ایم کیو ایم پر تھا اور رینجرز اُس کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپے مارہی تھی اور اس کے عہدیدار اور کارکن، جن پر مبینہ طور پر ہدفی قاتل ہونے کا الزام تھا، گرفتار کیے جارہے تھے، یا اُن کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں کی جارہی تھیں تو پی پی پی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، لیکن جب اس کی اپنی امن کمیٹی کے عہدیداران کی بار ی آئی اور اس کے بھی اہم ارکان پکڑے جانے لگے تو انھوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ کہا گیا کہ بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات صوبائی حکومت کا آئینی استحقاق ہے اور یہ کارروائی رینجرز کو حاصل مینڈیٹ سے باہر ہے۔ پی پی پی کو آئینی حوالے یاد آنے لگے کہ صوبے پر حکومت کرنا اس کا حق ہے، اور یہ کہ کوئی ریاستی ادارہ اس کی آئینی ذمہ داریوں کے راستے میں 
روڑے نہ اٹکائے۔ یقینا پارٹی کا خیال ہے کہ چونکہ مرکز تو شاید ہمیشہ کے لیے اس کے ہاتھ سے نکل چکا، اس لیے اس کے رہنمائوں کو کم از کم صوبے کے وسائل پر ہی ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے، اور اس کا ر ِخیر میںمرکز اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے احتراز کرے۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام آبادمیں موجود جو افرادسندھ میں تشدد اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سخت ایکشن لینے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں، اُن کا اپنا دامن بھی صاف نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ کئی ماہ تک پی ایم ایل (ن)کی حکومت نے طالبان کے خلاف کارروائی التوا میں ڈالے رکھی تھی۔ آج بھی اس کے کچھ اہم ارکان جہادی گروہوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس صورت ِحال پر کہا جائے کہ پاپی کو پہلا پتھر مارنے کا حق اُس کا ہے جس نے خود کوئی پاپ نہ کیا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اس میں کسی طوربھی آنے والی بہتری کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ اگرچہ ایم کیو ایم اور پی پی پی ، دونوں کی قیادت اپنے صوبے میں وفاق کی مداخلت پر چراغ پا ہونے کا حق رکھتی ہے لیکن عام شہری اس مداخلت، جو امن و امان کو واپس لے آئے اور بدعنوانی کے جن کو واپس بوتل میں ڈالے، کی حمایت کرتے ہیں۔ آپریشن کی حمایت میں شہر میں ہونے والے مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ صوبے کے حالات اس قدر ابتر ہوچکے تھے کہ لاکھوں افراد اپنی جان کے تحفظ سے مایوس تھے۔ ان کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ وہ تحفظ کا ہر صورت خیر مقدم کرتے‘ چاہے یہ کسی بھی حلقے کی طرف سے فراہم کیا جاتا۔ اگر کراچی کی گلیوں میں جان کے تحفظ کی ضمانت جنات کا کوئی گروہ بھی دیتا تو کراچی کے شہری اُس کے ہم قدم ہو لیتے۔ اس عالم میں رینجرز، جو پولیس کی طرح نہ تو بدعنوان ہیں اور نہ ہی کسی طرف سیاسی جھکائو رکھتے ہیں، نے بے دھڑک بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا اور سیاسی چھتری تلے پلنے والے بہت سے مافیاز کو اُڑا کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے یہ مافیاز اپنے سیاسی آقائوں کی جیب گرم رکھتے تھے ، لیکن رینجرز میں لہو کی حرارت بہت ہے، اُنہیں ان ہدفی قاتلوں کا ڈر ہے نہ کوئی سیاسی دبائو۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے کئی مواقع ہوں جہاں رینجرز اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے دکھائی دئیے ہوں لیکن مجموعی طور پر ان کی طرف سے کیا گیا کریک ڈائون بہت موثر اور جچا تلا تھا۔ اس کی تمازت مافیاز محسوس کررہے ہیں۔ 
ناقدین کا کہنا ہے کہ رینجرز کی طرف سے سب سے متنازع اقدام ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری تھی۔ ڈاکٹرعاصم حسین کو مبینہ طور پر زرداری صاحب کا فرنٹ مین کہا جاتا ہے۔ نوّے روزہ ریمانڈ کے بعد اُنہیں پولیس کے حوالے کیا گیا۔پولیس نے انہیں رہا کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خلاف جرائم کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔ اس پر رینجرز سندھ ہائی کورٹ میں چلے گئے تاکہ ڈاکٹر عاصم کی رہائی کا راستہ روکا جائے۔ رینجرز وکیل نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے اہم ثبوت ضائع کردیئے ہیں۔ اگرچہ اس کالم کی اشاعت تک سندھ اسمبلی رینجرز آپریشن کی توسیع کی قرارداد منظور کرچکی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہو، لیکن اس غیر معمولی صورت ِحال نے وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان تنائو کو واضح کردیا ہے۔ یقینا سندھ پولیس کی رپورٹ پر سندھ انتظامیہ کا اثر تھا۔ دوسری طرف رینجرز ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال کو دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ اس طرح کم از اکم اس کیس میں ریاست کے دو اداروں کے درمیان ٹکرائو کا تاثر ابھرتا تھا۔ چوہدری نثار کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے پاس ڈاکٹر عاصم کے اعترافی بیانات کے ویڈیوز موجود ہیں۔ 
ایک انگریز ی اخبار نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں دلیل دی ہے کہ سندھ حکومت کے پاس حق ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی سے رینجرز کے اختیارات کی توثیق کرائے۔ کالم نگار فاضل ایڈیٹر سے اتفاق کرتا ہے لیکن جمہوری عمل کے ذریعے اس اہم ترین مسئلے کو ایک ڈرامہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں پہلے تو کبھی صوبے کو درپیش مسائل، جیسا کہ تعلیم، صحت، امن وامان وغیرہ پر بات نہیں کی گئی ۔ کئی برسوںسے عوام کا خون بہہ رہا تھا اور پی پی پی اور ایم کیو ایم خاموش تھیں۔ ان کے درمیان اپنے اپنے مفاد پر چیخ پکار ہوتی رہتی تھی ، لیکن عوام کی بات کسی نے نہیں کی تھی۔ چنانچہ جمہوریت کو ہر موقع پر ترجیح ملنی چاہیے۔ایک آن لائن سروے کے مطابق چوراسی فیصد عوام اس آپریشن کے حق میں ہیں۔ یقینا آن لائن سروے پاکستان کی اکثریت کی آواز نہیں ہوتے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مٹھی بھر سیاست دانوں کو لوٹ مار کی چھٹی دے دی جائے اور اگر کوئی اُن کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرے تو وہ جمہوریت کے پیچھے پناہ لینے لگیں۔ مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ سندھ میں بھی پی پی پی کو کامیابی کے لیے انتظامیہ اور اپنا بھاری بھرکم جاگیردارانہ بازو استعمال کرنا پڑا ہے۔ بہت سے اُمیدواروں کا بلا مقابلہ کامیاب ہوجانا اس کی مقبولیت کانہیں، اپنائے گئے غیر جمہوری رویے کا شاخسانہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں