جنگ ِعظیم دوئم کے بعد کے دور میں عالمی سرحدوںکو تبدیل کرنے اور علیحدگی کی تحریک چلانے کے تصور کو پسندنہیں کیا جاتا۔ خطرہ ہے کہ علیحدگی کی کسی تحریک کی کامیابی کی مثال عالمی سطح پر انتشار اور افراتفری پھیلا سکتی ہے۔ آئر لینڈ میں آئی آراے ، سپین میں ای ٹی اے اور دنیا کے ہمارے حصے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی تحریکوں کو عالمی برادری کی طرف سے کوئی حمایت نہیں ملی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ہمسایہ ریاست کسی کو دق کرنے کے لیے ایسی تحریک کو تقویت دینے کی کوشش کرے لیکن مجموعی طور پر عالمی رویہ علیحدگی پسندی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد بلقان میں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر خونی فسادات ہوئے ۔ اس سے پہلے ماسکو کی سختی نے اس تنائو کو فعال ہونے کا موقع نہیں دیا تھا، لیکن اس کی اتھارٹی تحلیل ہونے کے بعد تشکیل پانے والی نئی ریاستوں میں کشمکش شروع ہو گئی۔ تاہم شکر ہے کہ کشمکش ختم ہونے کے بعد اب اُنہیں عالمی برادری کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ 1960ء میں ریاست کانگو سے علیحدگی حاصل کرنے والا صوبہ کاتانگا(Katanga)صرف تین سال تک بطور ایک خود مختارریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکا۔ اگرچہ بلجیم کی فورسز اور صوبے کے قدرتی وسائل پر نظر رکھنے والی فرموں نے اس کی علیحدگی کی حمایت کی لیکن اقوام ِ متحدہ نے اس کی الگ قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بنگلہ دیش کا وجود میں آنا البتہ ایک نادر مثال تھی۔ یحییٰ خان کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے فوج نے مشرقی پاکستان میں سختی کی، چنانچہ وہاں ایسے حالات پیدا ہوگئے جن سے بھارت نے فائدہ اٹھا لیا۔ اُس وقت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو یکایک بھاری عالمی حمایت بھی مل گئی۔ پاک فوج کے ہتھیار ڈالتے ہی بنگلہ دیش کو اقوام ِ متحدہ کا رکن تسلیم کرلیا گیا۔
اس پس ِ منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی برادری مجموعی طور پر ریاستوں کی شکست و ریخت اور عالمی سرحدوں کے تبدیل ہونے کے خلاف ہے۔ اس کے باوجود ایسی صورت ِحال بھی پیدا ہوسکتی ہے جس میں پیہم گھریلو جھگڑے سے بچنے کے لیے آخری متبادل کے طور پر طلاق کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس وقت عراق ایسی ہی صورت ِحال سے دوچار ہے۔ امریکی کولیشن فورسز نے صدام حسین اور ان کی بعث پارٹی کا تختہ الٹ کر عراقی معاشرے کی اُن فالٹ لائنز کو فعال کردیا جنہیں سیکولر آمریت نے دبارکھا تھا۔ صدام حسین کے منظر ِعام سے ہٹتے ہی شیعہ گروہ، جنہیں عشروںسے سنیوں نے دبا رکھا تھا، کو طاقت مل گئی۔ اس طرح شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر برسر ِ پیکار دکھائی دیے۔ یادرہے، ان کے درمیان نفرت امریکہ یا کسی مغربی طاقت نے نہیں پیدا کی، یہ ان کے درمیان صدیوںسے موجود تھی، لیکن صدام حسین کے جبر نے اس نفرت کو عملی خانہ جنگی کے قہر میں ڈھلنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ اب وہاں ہونے والی خانہ جنگی میں صرف شیعوں اور سنیوں کا ہی خون نہیں بہہ رہا، کم وبیش ایک ملین عیسائیوں کو بھی اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح شمال میں موجود کرد وں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے عشروں پرانے علیحدگی کے مطالبے کو عملی شکل دینی شروع کردی ہے۔
2011ء میں امریکی فورسز کے انخلا کے باوجود فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے بطور ریاست عراق کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت پہلی جنگ ِعظیم کے فاتحین سلطنت ِعثمانیہ کی شکست کے بعد جب ''مال ِ غنیمت ‘‘تقسیم کررہے تھے تو یہ ریاست اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ جس ملک کو ہم آج عراق کے طور جانتے ہیں، اس کے تین حصے تھے(مرکز میں بغداد، شمال میں موصل اور جنوب میں بصریٰ) اور وہ سلطنت ِعثمانیہ کے تین صوبو ں کی حیثیت رکھتے تھے جن پر خلیفہ کے مقرر کردہ گورنر حکومت کرتے تھے۔ یہ تینوں صوبے بالترتیب سنی، کرد اور شیعہ آبادی کا ارتکاز رکھتے تھے۔ اگرچہ ان تینوں صوبوں کی آبادی ایک دوسرے سے میل جول رکھتی تھی لیکن الگ یونٹس ہونے کی وجہ سے ان کی مسلکی اور نسلی تفاوت کا ایک دوسرے سے تصادم دیکھنے میں نہیں آتا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تینوں آبادیوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے عثمانیوں نے یہاں کافی امن اور ہم آہنگی برقرار رکھی ہوئی تھی۔
جب عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے ان تینوں صوبوں کو باہم ملا کر ایک ریاست تشکیل دی اور عرب ریاست میں پیدا ہونے والے ایک رہنما کو اس پر مسلط کردیاتو اس میں بے چینی اور انتشار کے جراثیم پرورش پانے لگے۔ اس صورت ِحال پر 1932 ء میں شاہ فیصل اوّل نے ان الفاظ میں اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔میرادل غمگین ہے، مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ عراق میں عراقی عوام موجود نہیں ،اس میں کچھ گروہ ہیں جو قومی جذبات سے عاری ہیں۔ ان گروہوں کے دل توہم پرستی، غلط روایات اورمذہبی تعصبات سے لبریز ہیں۔ ان کے درمیان کوئی یگانگت نہیں پائی جاتی۔ وہ افواہوں اور بے سروپاروایت پر یقین کرتے ہوئے کسی بھی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔‘‘اس کے بعد حالات میں بہتری کی بجائے خرابی ہی آتی دکھائی دی۔ صدام حسین کا دور انتہائی جابرانہ تھا ، چنانچہ اس کی وجہ سے انتشار کے جذبات دب گئے، ختم نہ ہوئے۔ بہرحال صدام حسین نے اقلیتوں کو تحفظ دیااور خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے اور انتشار کو سراٹھانے کا موقع نہ دیا۔
موجودہ دور میں عراقی ریاست انتہائی تشدد اور بدعنوانی کا شکار تھی کہ اچانک داعش ابھری اور اس نے شام اور عراق کے سرحد کے آرپار ایک بڑے حصے کو ریاست کی علمداری سے چھین کر اپنی خلافت کا اعلان کردیا۔ عراق اور شام کے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اب نہیں لگتا کہ یہ صورت ِحال واپسی کی طرف لوٹ سکے گی۔ اب تک نسلی اور مسلکی بنیادوںپر اتنا خون بہہ چکا ہے کہ اس جن کو واپس بوتل میں ڈالنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف نائن الیون کے بعد کی دنیا میں اقوام ِ متحدہ بھی سخت اور مشکل فیصلے کرتے ہوئے شیعہ سنی تصادم کو روکنے کے لیے کچھ کرنے سے گریز کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری مشکل فیصلوںسے گریز کرتے ہوئے خون بہنے کی اجازت دے رہی ہے۔ موجودہ صورت ِحال ایسی بن چکی ہے کہ کوئی ایک اتھارٹی عراق کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں۔چنانچہ ہم ابھی مزید خونریزی دیکھتے ہوئے ریاستوں کی سرحدوں کو تبدیل نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے رہیں گے۔ اس دوران علاقائی طاقتوں، جیسا کہ سعودی عرب، ایران ، اسرائیل، ترکی اور خلیجی ریاستوں کے درمیان تنائو بھی کسی متفقہ نتیجے تک پہنچنے کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ بڑے کھلاڑی، جیسا کہ امریکہ، روس اور چین بھی ایک صفحے پر نہیں۔ چنانچہ ہم لامتناہی گفتگو اور خونریزی ساتھ ساتھ چلتے دیکھتے رہیں گے۔