آسیب کا سایہ

بہت سی قدیم تہذیبوں میںکسی دمدار ستارے کا آسمان پر نمودار ہونا قدرتی آفات اور بہت سے دیگر خوفناک واقعات کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا تھا۔ مائیں اپنے بچوں کو چھپا لیتیں، کسان اپنے مویشیوں کو باڑوں میں بند کر دیتے، بادشاہ دیوتائوں کے سامنے قربانی پیش کرتے، انجانے خوف کو عقیدے کا رنگ دیا جاتا۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان میں سالانہ آمد ایسی ہی ''تھرتھرلی‘‘ مچا دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ آج مائیںخوف کے مارے اپنے بچوں کو نہیں چھپاتیں لیکن حکومت اپنی سیٹ بیلٹ ضرور باندھ لیتی ہے۔
ناقدین نے علامہ صاحب کے دوروںکے وقت کو نوٹ کیا ہے کہ فلک پر رمضان المبارک کے چاند کے طلوع ہونے اور موصوف کی پاکستان کے لیے ٹکٹ کی بکنگ میں ایک عجیب سا اتفاق اور حیران کن ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان میں اہل ِایمان مذہبی تنظیموں کو جی بھر کر عطیات دیتے ہیں۔ کچھ مخالفین نے ڈاکٹر صاحب کو منہاج القرآن انٹر نیشنل کے پلیٹ فارم سے ملنے والے فنڈز کے آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، ایسا مطالبہ کرنے والوں کو پہلے بھی مایوسی ہوئی تھی، آئندہ بھی ہوگی۔ آڈٹ کو چھوڑیں، آج کل خبر ہے کہ ڈاکٹر صاحب ائیرکنڈیشنڈ کنٹینر لاہور میں محو سفر ہیں۔ اس کنٹینر میں ایک صوفہ، چھوٹی سی لائبریری اور وائی فائی سمیت زندگی کی تمام جدید سہولیات موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی جیب بہت بھاری ہے۔ اُن کے حالیہ علامتی دھرنے کا مقصد دوسال پہلے ماڈل ٹائون لاہور میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چودہ افراد کے ورثا کو انصا ف دلانا تھا۔ اس احتجاج کو بلاجواز کون قرار دے سکتا ہے؟ تاہم بہتر ہوتا کہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے بلائے جانے پر مولانا پیش ہوتے، لیکن کینیڈا ، جو ملک مولانا نے رہنے کے لیے چُنا ہے، کا موسم پاکستانی موسم ِگرما کی نسبت کہیں زیادہ خوشگوار ہے۔ اسے چھوڑنے کو دل بھی تو نہیں کرتا۔
دوسال پہلے اسلام آباد دھرنے سے قادری صاحب کے یک لخت اٹھ جانے نے حکومت کو سکون کا سانس لینے کا موقع دیا تھا، لیکن اب وہ پھر آن دھمکے ہیں اور حکومت گرانے کی کوشش میں مستعد، تیار اور آمادہ نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کی جماعت، پی ٹی آئی، کے پاس بھی پاناما پیپرز کی وجہ سے نواز شریف صاحب کو منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کرنے کا جواز موجود ہے۔ ان دونوں رہنمائوں کے درمیان قربت بھی موجود ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دونوں رہنمائوں، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری، کی طرف سے اٹھائے گئے ایشو اس قابل ہیں کہ ان پر آواز بلند کی جائے۔ ہم نے عمران خان کی انتخابی اصلاحات لانے کی کوشش کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح وہ پاناما پیپرز میں بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے مطالبے میں حق بجانب ہیں۔ یقینا ماڈل
ٹائون فائرنگ کیس میں ملوث افراد کو قانون کا سامنا کرنا چاہیے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں مطالبات کے پیچھے اصل محرک صاف دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کو ابھی بھی یقین ہے کہ اگر ''منظم دھاندلی ‘‘ نہ ہوتی تو 2013ء کے انتخابات میں اُن کی جیت یقینی تھی۔ چنانچہ اُس وقت سے لے کر اب تک اُنھوں نے نواز شریف حکومت کو گرانے اور تازہ انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ قادری صاحب کی جماعت، پاکستان عوامی تحریک کی پارلیمنٹ میں ایک نشست بھی موجود نہیں، چنانچہ ان کی طرف سے انتشارپھیلانے اور افراتفری برپاکرنے کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
تاہم گزشتہ دھرنوں کے بعد ہونے والے انکشافات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میڈیا میں شائع ہونے والی کچھ رپورٹس کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف مبینہ طور پر ان دھرنوں کی ڈور ہلا رہے تھے۔ خوش قسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور انکشاف ہونے پر اُن کے باس، موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اُن سے باز پرس کی اور اُنہیں منصب سے ہٹا دیا۔ سازش بے نقاب ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ طاقتیں انتخابات کے ایک سال بعد ہی نوا زشریف صاحب کو منصب سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ آج اپنی تیسری مدت کے بمشکل تین سال پورے کرنے والے وزیر ِاعظم(جن کے پہلے دو ادوار بھی ادھورے رہ گئے تھے )کے خلاف آج پھر خنجر بدست قوتیں جمع ہوچکی ہیں۔ جب پی پی پی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے تو ہمارا خیال تھا کہ اب ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اگرچہ زرداری حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی لیکن کوئی بات نہیں، جمہوری تسلسل سے معاملات بہتری کی طرف چل نکلیں گے ۔ اُس وقت بھی ایک سابق جسٹس ہاتھ دھو کر آصف زرداری کے پیچھے پڑے تھے، آج عمران خان اور طاہرالقادری یہی کام کر رہے ہیں۔
نوّے کی دہائی سے ہونے والے تجربات کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ گفتارکے غازی ہر دوسال بعد منتخب شدہ حکومت سے اکتا کر اسے گرانے کی تدبیر کرنے لگتے ہیں۔ انہیں میڈیا بھی متحرک کرتا ہے، خود جس کی ڈور بھی کسی ماہر ہدایت کار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد دھرنے اور لانگ مارچ کا جواز نکل ہی آتا ہے۔ سلگتے ہوئے کالم اور سنسنی خیز بریکنگ نیوز اور ہنگامہ پرور ٹاک شوز جلتی پر تیل گراتے ہیں اور یوں شہرزاد کی کہانی کا ایک اور صفحہ پلٹتا ہے۔ فوج اور عدلیہ سے ملک کو بچانے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ یہ تمام منظر بھی ہمارے دیکھے بھالے ہیں۔ یہ ہزار داستان ہمارے ہاں ہر سال، دوسال بعد دہرائی جاتی ہے ۔ ہم نے نوّے کی دہائی میں پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان میوزیکل چیئر کی گیم دیکھی تھی۔ تاہم ہمارا خیال تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والا میثاق ِ جمہوریت ان مسائل سے ہماری جان چھڑا کر ملک کو آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔
نوازشریف صاحب نے بھی زرداری حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے دی جانے والی ترغیبات کو مسترد کر دیا حالانکہ اُس وقت کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُن پر خاصا دبائو تھا۔ تاہم آج ہم دیکھتے ہیں کہ پی پی پی اس مقصد کے لیے عمران خان کا ساتھ دینے جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی اسی صف میں شامل ہے۔ یقینا سیاست ایک عجیب کھیل ہے، اس میں دشمن کے ساتھ بھی ہاتھ ملا کر کسی اور دشمن کے خلاف اتحاد کرنا پڑتا ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شہری اشرافیہ تو جمہوری حکومت سے ایک دوسال بعد اکتا جاتی ہے لیکن فوجی آمر عشروں گزار جاتے ہیں۔ اُس وقت مقدس طبقہ اور میڈیا بھی اسی دسترخوان پر دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ آمروں کو فری ہینڈ مل جاتا ہے، اور یوں زہریلے ٹاک شوز کی محفل سج جاتی ہے ۔ اس رمضان میں ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ نمودار ہونے والا دمدار ستارہ خیرو عافیت سے اپنے گھر سدھارے اور پاکستان اس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں