آٹھواں گیل ادبی تہوار ، جو سری لنکا کے جنوبی ساحل پر واقع تاریخی ڈچ قلعے میں منعقد ہوا،مختلف قوموں اور پس ِ منظر سے تعلق رکھنے والے تخلیق کاروں کامتاثر کن اجتماع تھا۔ میں نے اب تک منعقد ہونے والے تمام گیل ادبی تہواروں میں شرکت کی ہے اوران میں سے ایک میں مجھے اظہار ِخیال کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ یہ انتہائی متاثر کن ادبی تہوار نہ صرف علمی اورفکری آبیاری کرتے ہیں بلکہ ان میں بہت سے دوستوں سے ملنے اور نئے دوست بنانے کا موقع بھی ملتا ہے ۔
گیل ایک قدیم بندرگاہ ہے ۔ اس کا ذکر سب سے پہلے 125 عیسوی میں Ptolemy کے دنیا کے نقشے میں ملتا ہے ۔ یہاں مسلمانوں کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے جن کا تعلق اسلام کے ابتدائی دور سے بتایا جاتا ہے۔جب عرب تاجر چین کی طرف سامان ِ تجارت لے کر جاتے تھے تو وہ گیل میں قیام کرتے تھے ۔ درحقیقت قلعے میں آبادروایتی مسلمان خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب تاجروںکی نسل سے ہیں۔ یہاں مشہور سیاح، ابن ِ بطوطہ نے بھی سیاحت کے دوران قیام کیا تھا۔ اس وقت یہاں یورپی تارکین ِوطن بھی مقامی افراد سے مکانات خرید کر اُنہیں اپنے ذوق کے مطابق نئی شکل دے رہے ہیں۔ چونکہ گیل کا قلعہ یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہے ، اس لیے اس کے ارد گرد کسی بلندوبالا عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں۔ قلعے کا سامنے والا حصہ بھی اصل حالت میں برقرار رکھا جانا ہے ۔ ان قوانین کی وجہ سے اس قصبے کی شان و شوکت باقی ہے ، چنانچہ یہاں کثیر تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ تاہم مسلمان آباد ی ان سیاحوں کی آمد اور طرز ِزندگی کی وجہ سے مضطرب ہے ، حالانکہ مقامی آباد ی کی معیشت کے لیے سیاحت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ا س قلعے کی فصیل چار میٹر سے زیادہ موٹی ہے ۔ ہر صبح اور شام مقامی افراد اور سیاح اس کے ارد گرد چکر لگا تے ہوئے ساحلی چٹانوں سے ٹکرانے والی سمندر کی موجوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس تہوار کے دوران مشہور ماہرین ِ تعمیرات اس قلعے اور دیگر تاریخی مقامات کا دورہ کرتے ہوئے ان کے نت نئے خدوخال پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
لورنسو ڈی المیڈا(Lourenco de Almeida) کی قیادت میں پرتگالی فورسز نے سب سے پہلے اس بندرگاہ پر 1505 ء میں قبضہ کیااوردرختوںکی لکڑی اور ناریل کے پتے استعمال کرتے ہوئے ایک قلعہ تیار کیا ۔ اس کے بعد ڈچ فوج نے 1640ء میں اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا اور موجودہ بندرگاہ تعمیر کی ۔ اس وقت اس بندرگاہ کو ایک جیل خانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے غیر ملکیوں کی موجودگی پر اعتراض کرنے والوں کو قیدکیا جاتا ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا، کوڑے مارنے اور پھانسی پر لٹکانے کی سزائیں عام تھیں۔1796 ء میں اس قلعے کو ڈچ سے برطانیہ نے چھین کر 1815 ء میں سری لنکا کو اپنی کالونی قرار دے دیا۔ برطانیہ کا یہاں قبضہ 1948 ء تک رہا۔ اس طرح سری لنکا450 برسوں تک جزوی یا مکمل طور پر غیر ملکی قبضے میںرہا۔
ادبی تہوار کے دوران وزیر ِاعظم ، رانیل وکرم سنگھے نے بدھ مت دور کے قدیم سری لنکا کی تاریخ کے انیسویں صدی کے ترجمے کے نئے ایڈیشن کی تقریب ِرونمائی میں شرکت کی ۔ سری لنکن وزیر ِاعظم کے دفتر میں موجود ایک سیل قدیم مخطوطوں کی تلاش اور اشاعت کے لیے کام کررہا ہے ۔ مسٹر وکرم سنگھے نے ایک ادبی ڈنر میں بھی اپنی بیوی کے ہمراہ شرکت کی ۔ میں نے بھی اس ڈنر میں بکنگ کرائی ہوئی تھی ، لیکن مجھے پہلے نہیں پتہ تھا کہ سری لنکن وزیر ِاعظم بھی اس میں شرکت کریں گے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں تصور کرنے لگا کہ اگر موجودہ پاکستانی وزیر ِاعظم کسی ادبی تہوار میں شرکت کرتے یا بر ِ صغیر کی تاریخ میں دلچسپی لیتے دکھائی دیں تو کیسی خوشگوار حیرت ہوگی۔ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی، کرسٹینا لیمب نے اپنی ایک نئی کتاب سے کچھ پڑھ کر سنایا۔ یہ کتاب اُن کے بطور ایک نوجوان رپورٹر افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے تجربات کے بارے میں ہے ۔ اُنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی میں بھی شرکت کی تھی ۔ سفر نامے لکھنے
والے ایک مشہور مصنف جان گیملٹ(John Gimlette) نے اپنے اُس دور کی باتیں بتائیں جب وہ اپنی نئی کتاب، ''Elephant Complex‘‘ کے بارے میں تحقیقات کررہے تھے ۔ میرے کچھ دوستوں نے اس تحقیق کی سند پر سوالات اٹھائے کہ مصنف نے صرف تین ماہ یہاں قیام کرنے کے بعد یہ کتاب کس طرح لکھ لی ۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اُنھوںنے اس کتاب کے ذریعے مجھے اس جزیرہ نما ملک کے ایسے خدوخال سمجھنے میں مدد کی جو میں کئی برسوں تک یہاں آنے کے باجود نہیں سمجھ پایا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غیر ملکی اُن اشیا کی اہمیت کو بھی دیکھ لیتے ہیں جو مقامی افراد کے لیے معمول کی عام چیزیں ہوتی ہیں۔
اس ادبی پروگرام کو مربوط کرنے والا عامل یقینی طور پر تاریخ ہے ۔ افسوس میں نے پیٹر فرینکوپن کی بیسٹ سیلر ''The Silk Roads‘‘ پر گفتگو مس کردی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنے اخبار کے لیے مقرر وقت پر کالم لکھنا تھا، چنانچہ میں نے انتہائی متاثر کن اور معلومات افزا گفتگو سننے کا موقع گنوا دیا۔ تاہم میں نے ''گم شدہ شہروں کی تلاش‘‘ پر من نائن لہری کی گفتگو سنی کہ سندھ کی تہذیب کس طرح دریافت ہوئی ۔ اُنھوں نے مونجوداڑو، ہڑپہ اور وادی ٔ مہران کے دیگر مقامات کی اولین کھدائی کے بارے میں۔ ابتدا ئی طور پر ان کا مطالعہ جدا آثار ِ قدیمہ کے طور پر
کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک نوجوان انڈین ماہر ِ آثار ِقدیمہ کو احساس ہوا کہ ان تمام مقامات سے ملنے والے نوادرات میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ مس لہری، جو ایک مشہور مورخ ہیں، نے بتایا کہ تقسیم ِ ہند کے وقت ایک طے شدہ فارمولے کے مطابق نوادرات میں دونوں ممالک کا حصہ مقرر کیا گیا تھا،لیکن ایسا کرتے ہوئے ان بیش قیمت اثاثوں کو تقسیم کردیا گیا۔ اُنھوںنے بہت دردمندانہ اپیل کی کہ ثقافتی ورثے کے بارے ذوق ِ لطیف کا مظاہر ہ کیا جائے ۔ تاہم اُنھوںنے تسلیم کیا کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کی ترجیحات کی فہرست میں ثقافتی ورثے کا تحفظ بہت پست درجے پر ہے ۔
گزشتہ سال کے گیل ادبی تہوار میں میں نے کولمبو میں اپنے ہائی کمشنر کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بھی اس تہوار کی ایک یا دو نشستوں میں شرکت کریں تو اس سے سری لنکا میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ چونکہ گزشتہ دو تہوار وں سے کسی پاکستانی مصنف کو گفتگو کرنے کی دعوت نہیں دی جارہی ، تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں شرکت کرتے ہوئے پاکستانی لکھاریوںکا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاہم افسوس، ہمارے ہائی کمشنر کے پاس گیل آنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ ہمارے بہت کم سفارت کار ثقافتی مماثلت اجاگر کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اُن کی زیادہ تر توجہ سیاست دانوں ، صحافیوں، کاروباری افراد اور سرکاری اہل کاروں سے روابط قائم کرنے پرہوتی ہے۔ تاہم اچھی تعلیم اورادبی ذوق رکھنے والے سفارت کار ثقافتی اقدار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سفارت کاروں کا شمار ان میں نہیں ہوتا۔