''جو کچھ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتے رہے‘ وہ موجودہ حکومت کو عمران اور تحریک انصاف کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
یہ ہے معصوم ہونٹوں پر تازہ گلاب کی طرح مہکنے والا وہ مُشک بو جملہ جو اِن دنوں ٹیلی وژن پر جلوہ گر دانشورانِ خوش بیاں اور میزبانانِ نکتہ آفریں کی زبان پر ہے۔ اس جملے میں عفو ودرگزر اور رحمت و التفات کے پیغمبرانہ اوصافِ حسنہ کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔ بلاشبہ وطنِ عزیز کو ایسے مکروہات کے شیطانی چکر سے نکلنا ہوگا۔ میں خود بھی یہی سوچتا اور یہی کہتا ہوں۔ فواد چودھری کی گرفتاری پر ایوانِ بالا میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ''اگر کسی نے قانون شکنی کی ہے تو ایف آئی آر درج کرکے باضابطہ طور پر قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ رات گئے کسی کے گھر پر یلغار کرنا‘ دَھڑ دَھڑ دروازے پیٹنا‘ دیواریں پھلانگنا‘ اہلِ خانہ کو ہراساں کرنا‘ دہشت گرد کے انداز میں گرفتار کرنا‘ ہتھکڑیاں پہنانا‘ منہ پر کپڑا ڈالنا‘ یہ سب کیا ہے؟ کیا مہذب معاشرے یہی کچھ کرتے ہیں؟ کیا جواز ہے کہ فواد چودھری کو پہروں گاڑی میں بٹھائے رکھا گیا کہ عدالت لگے؟ میں اس کی مذمت کرتا اور دُکھ کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔
میرے ان کلمات پر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے پی ٹی آئی کے ارکان نے زور دار ڈیسک بجائے۔ پھر میں نے بڑے اختصار کے ساتھ خود پر گزری واردات کی کتھا سنائی اور اپنا ایک شعر پڑھا ؎
فصل کانٹوں کی ہر اک کھیت میں بوتے کیوں ہو
اور جب کاٹنا پڑتی ہے تو روتے کیوں ہو
اس پر پی ٹی آئی نے چُپ سادھ لی اور حکومتی ڈیسک دیر تک بجتے رہے۔ اب دہائی دینے والوں کو کون یاد دلائے کہ تمہارا چار سالہ عہدِ نامسعود‘ سیاسی مخالفین پر جبرِناروا کا مکروہ اور سیاہ ترین دور تھا۔ آپ 'غداری‘ سے 'کرایہ داری‘ تک ہر قانون کے فولادی کوڑے مخالفین پر برساتے اور اُن کی تذلیل سے لطف اٹھاتے رہے۔ انسانیت کی ہر حِس سے عاری ہوکر ہر ادارے ہر ایجنسی کو بے دردی سے استعمال کرتے رہے۔ تخیّلاتی ''ریاست مدینہ‘‘ کے فرماں روا‘ اخلاقیات کے ادنیٰ ترین قرینوں کو ہی نہیں خوفِ خدا کوبھی بھول گئے۔ یہ بھی یاد نہ رہا کہ ''ثبات ایک تغّیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ اللہ کے اس فرمان کو بھی یاد نہ رکھا کہ ''وہ دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتا اور تبدیل کرتا رہتا ہے‘‘۔ خود پرستی اور خدا فراموشی کا دور تمام ہوا تو نئی حقیقتیں سینہ پھلا کر سامنے آکھڑی ہوئیں۔ آج وہ صدر علوی کو پے درپے خطوط ارسال کررہے ہیں کہ ''اداروں اور ایجنسیوں کو اپنی حدود میں رکھا جائے۔ اُنہیں سیاست میں مداخلت سے روکا جائے۔ اپنے حلف سے انحراف کرنے پر جنرل (ر) باجوہ کا محاسبہ کیا جائے‘‘۔ کیا خان صاحب اتنا جلدی بھول گئے ہیں کہ انہیں اقتدار میں لانے اور نوازشریف کو بے دخل کرنے کے لیے یہ ادارے‘ ایجنسیاں اور جنرل (ر) باجوہ کیاکیا گُل کھلاتے رہے؟ ''دوجیم‘‘ نے باہمی سہولت کاری سے‘ صرف آپ کے عشق میں‘ اچھی خاصی حکومت کو دونیم کردیا۔ کون سا ادارہ اور کون سی ایجنسی تھی جسے اندھے عناد کی بھٹی کا ایندھن نہ بنایاگیا؟ کس تفاخر سے ''جان اللہ کو دینی ہے‘‘ والے وزیر کے ساتھ ایک باوردی اعلیٰ اہلکار کو بٹھا کر ادارے کی توہین کی گئی؟ کون سی جسارت پر بشیر میمن کو باتھ روم میں بند کردیاگیا؟ جاوید اقبال نامی شخص کو جال میں پھانس کر بلیک میل کرتے ہوئے‘ کس طرح حیاباختہ عنادی شطرنج کا مہرہ بنایاگیا؟ کس طرح نصف شب مریم نواز کی خواب گاہ کے دروازے توڑے گئے؟ یہ متعفن حکایت بہت دراز ہے۔ عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے اور ہیلی کاپٹر کے ہلکورے لیتے ہوئے تمام لذائذ ِ منصبی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کیا وہ بے خبر رہے کہ اُن کی ماتحت ایجنسی کا ایک اعلیٰ وردی پوش اہلکار اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سینئر جج کے گھر جاکر کہتا ہے کہ ''انتخابات سے پہلے نوازشریف اور مریم کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی؟ آج جنرل (ر) باجوہ کے مبینہ بیان کی تحقیقات کے لیے صدر کو خط لکھنے والے خان صاحب کو اُس وقت کیوں نہ سوجھی کہ وہ ایک 'خود سر‘ افسر کا محاسبہ کرتے؟ تب تو یہ کردار اُن کے دل میں لالہ وگُل کھلاتا رہا۔ اس لئے کہ آئین سے انحراف اور ایجنسیوں کی خودسری کا نشانہ نواز شریف تھا۔ اُن دنوں آئین اور اپنے حلف سے روگردانی کرنے والا یہ افسر اپنے اسی کردار کے سبب اُن کی آنکھ کا تارا بنارہا اور آج صدر علوی کو خط لکھتے وقت بھی وہ کردار بچھڑ جانے والے محبوب کی طرح اُن کے خوابوں میں جھلملا رہا ہے۔
تو براہِ کرم‘ نامہرباں موسم کا ماتم کرنے اور اپنی پاکیٔ داماں کی حکایت دراز کرنے سے پہلے اپنے دامن اور بندِ قبا پر بھی ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے۔ آج آپ جن باتوں کو گناہِ کبیرہ قرار دے کر صدر سے گرفت کرنے کی التماس کررہے ہیں‘ کل انہی کار ہائے نمایاں کے صلے میں کسی کو توسیع در توسیع دینے اور کسی کو جگر گوشہ ٔخاص بنانے میں لگے تھے۔
عمران خان اگر واقعی اداروں کی پاکبازی‘ جمہوریت کا استحکام‘ مہذب سیاسی اقدار کا فروغ اور انتقامی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو کسی دن دو پرچموں کے درمیان آراستہ کرسی پر فروکش ہوکر قوم سے ایک نئے انداز کا خطاب کریں۔ کہیں ''میرے پاکستانیو! مجھے اعتراف ہے کہ میں نے پاکستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کو سب سے بڑی ترجیح بنائے رکھا۔ غلط کیا۔میں نے اُنہیں جھوٹے مقدمات میں الجھانے‘ سزائیں دلوانے‘ جیلوں میں ڈالنے اور اذیتیں دینے کے لیے جو کچھ کیا‘ وہ بھی غلط تھا۔ میں نے اداروں اور ایجنسیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا‘ بہت غلط کیا۔ میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں اور اُن سے بھی جو میرے اس طرزِعمل کا نشانہ بنے‘‘۔
اس کے بعد ہی ایک نئے عہد کی تمناکی جاسکتی ہے۔ کارزارِ سیاست میں کسی ایک فریق سے عفو ودرگزر کے پیغمبرانہ اسوہ ٔحسنہ کی توقع عبث ہے جبکہ دوسرے فریق کی زبان آج بھی زہر میں بجھے خنجر کی طرح چلتی ہو اور وہ اپنی کارستانیوں کو اپنے نا مۂ اعمال کا حسن گردانتا ہو۔ جس سیاست کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا اُس سیاست کے سینے میں ہم پیغمبروں کے سے دل کی پیوندکاری کیسے کریں؟