میں اکثر سوچتا ہوں!

یہ چار برس قبل کہی گئی نظم ہے‘ جب 2019ء کے انہی دنوں میں ''انسانی حقوق کی پاسبان‘‘، ''شخصی آزادیوں کی نگہبان‘‘ اور ''احترام ِآدمیت کی ترجمان‘‘ حکومت نے نصف شب کو مجھے گھر سے اُٹھا کر ہتھکڑی ڈالی اور ایک اسسٹنٹ کمشنر سے فیصلہ لے کر اڈیالہ جیل کی قصوری چکّی میں بند کردیا ۔ ایسا نہ کل درست تھا نہ آج ٹھیک ہے لیکن پاکی ٔ داماں کی حکایت کو یورپ اور امریکہ تک لے جانے والوں کو اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ اپنے دامن اور بندِ قبا پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں‘ بھُول جائوں
اُس گریباں چاک سے دن کو
کہ جس دن میرے دائیں ہاتھ میں
فولاد و آہن میں ڈھلی اک ہتھکڑی تھی
جس کو اک پولیس والے کے
جواں ہاتھوں نے مضبوطی سے ایسے تھام رکھا تھا
کہ جیسے میں بس اک جھٹکے سے
اس کو توڑ ڈالوں گا
اور اس کی آہنی کڑیاں
زمیں پر دور تک بکھری پڑی ہوں گی
میری ٹانگوں میں جیسے بجلیاں بھرجائیں گی
اور میں بہت ہی مستعد ہتھیار برداروں کا
نرغہ توڑ کر یکدم ہوا ہوجائوں گا
بازار میں رُک رُک کے لوگوں نے مجھے دیکھا
کسی نے ہاتھ لہرایا
کسی نے چشمِ نفرت سے مجھے گھُورا
کہ شاید میں کوئی خود کُش ہوں
جو کوئی دھماکہ کرنے والا تھا
مگر پکڑا گیا ہوں
اور اک ایسا بھی تھا اُن میں
جو سَرپَٹ دوڑتا میرے قریب آیا
گلے کی پوری قوت سے پکارا ''زندہ باد‘‘
اور ساتھ والی اک گلی کو مڑ گیا
میں سوچتا ہوں بھول جائوں
اُس قیامت خیز سے دِن کو
کہ جب میں ہتھکڑی پہنے
کسی مجرم کی صورت‘ سربہ زانو
ایک عالی مرتبت خاتون منصف
کی ''عدالت‘‘ میں کھڑا تھا
میں نے مُنصِف صاحبہ سے بات کرنے کی اجازت لی
تو وہ بولیں ''اجازت ہے‘‘
سو میں گویا ہوا ''میڈم یہ دایاں ہاتھ ہے میرا
کہ جس میں آہن و فولاد کی یہ ہتھکڑی ہے
جس نے ساری عمر قرطاس وقلم سے یا کتابوں
یا کسی تختِ سیاہ پر لکھنے والے چاک سے
رشتہ نبھایا ہے
مجھے دُکھ ہے‘ بہت دُکھ ہے
کہ یہ زنجیر دائیں ہاتھ میں کیوں ہے؟‘‘
یہ سب کہتے میری آواز کچھ بھرّا گئی
زنجیر بستہ ہاتھ تھوڑا کپکپایا
اور کلائی میں ذرا سی سنسناہت کسمسائی
لفظ دھندلانے لگے
لیکن بہت ہی ضبط سے میں نے کہا ''میڈم
اگر یہ ہاتھ چوری کے کسی الزام میں کٹ کر
متاع ٔکوچہ وبازار ہوجاتا تو اچھا تھا
کہ اس کو اس طرح زنجیر بستہ دیکھنا
میرے لئے ممکن نہیں ہے ‘‘
میری اس تقریر کی بے معنوّیّت پر عدالت مسکرائی
اور نہایت تمکنت سے فیصلہ دیتے ہوئے بولی
''اسے چودہ دنوں کو داخلِ زندان کردو‘‘
سوچتا ہوں‘ بھول جائوں
جیل کی چھوٹی سی‘ متعّفن سی کھولی کو
قصوری چکّیوں میں
سب سے دہشت ناک عادی مجرموں کی
غار جیسی کوٹھڑی کی وحشتوں کو
اُس کے سنگّی فرش کی ڈستی چبھن کو
اور اکثر بھول بھی جاتا ہوں
لیکن شام ڈھلتی اور شب پہلو بدلتی ہے
کوئی مہمان آجائے تو دروازے کی گھنٹی
زور سے بجتی ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے درجنوں ''ڈالے‘‘ پرے باندھے
گلی کے اس سرے سے اُس سرے تک ایستادہ ہیں
اور اُن کی سرخ نیلی بتّیاں جل بجھ رہی ہیں
کچھ مسلّح اہلکاروں کے گروہ ہیں
ایک فربہ جسم والا شخص کہتا ہے 'چلو جلدی کرو‘
تو میں نہایت عاجزی سے عرض کرتا ہوں
کہ ''میں تو رات کے ملبوس میں ہوں
رف چپل پائوں میں ہیں
مجھ کو یہ کپڑے تو بدلنے دو دوائیں تو اٹھانے دو‘‘
مگر دو ہاتھ میرے ناتواں شانوں پہ پڑتے
اور کچھ بندوق والے‘ مجھ کو دھکّے دے کے
اک گاڑی میں ایسے ڈال لیتے ہیں
کہ جیسے میں بہت نامی گرامی
کوئی دہشت گرد ہوں اور میرا سر
لاکھوں کروڑوں ڈالروں کا نرخ رکھتا ہے
میں اکثر سوچتا ہوں اور کئی دن سے مسلسل سوچتا ہوں
زندگی کے اس ورَق کو پھاڑ ڈالوں
بھول جائوں‘ اور اکثر بھول بھی جاتا ہوں
لیکن شام ڈھلتی اور شب پہلو بدلتی ہے
کوئی مہمان آجائے تو
دروازے کی گھنٹی زور سے بجتی ہے
دل میں وسوسوں کی دُھول سی اٹھتی ہے
باہر گیٹ تک جاتے
نہ اپنے پیرہن کو دیکھتا ہوں میں
نہ پائوں کے چپل پر دھیان دیتا ہوں
نہ اپنی روزمرہ کی دوائوں کی کوئی بقچی اٹھاتا ہوں
فقط‘ بس لاشعوری طورپر شاید
میں دایاں ہاتھ دامن میں چھپا لیتا ہوں
جب مہمان اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کی جانب بڑھاتا ہے
تو میں گُم صُم کھڑا اُس کو تکے جاتا ہوں
(یکم اگست2019ء)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں