عناصرِ فطرت کی باگ ڈور قادر ِمطلق کے ہاتھ میں ہے۔ موسموں کے تیور اور ہوائوں کے رُخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کوئی انسان کتنا ہی طاقتور اور زور آور کیوں نہ ہو‘ اس کی کرتب کاریوں اور حیلہ سازیوں کی ایک حد ہوتی ہے۔ اُس کے بعد کارخانۂ قدرت کی کوئی نادیدہ مشین حرکت میں آجاتی ہے۔ تب وہم وگماں تک میں نہ سمانے والی انہونیاں‘ جیتی جاگتی حقیقتوں کی شکل میں دانت نکوسے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں اور ہمہ مقتدر شخص بے دست و پا ہوکر دیکھتا رہ جاتا ہے۔
خود کو ناقابلِ تسخیر‘ ریاست سے طاقتور‘ کروڑوں عوام کی ''ریڈلائن‘‘ اور قانون وعدل کے خرخشوں سے آزاد سمجھنے والے عمران خان ان دنوں اٹک جیل میں ہیں۔ اپریل 2022ء میں تحریکِ عدم اعتماد کے ہاتھوں محرومِ اقتدار ہونے کے بعد انہوں نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق ہنگامہ وفساد اور تصادم وپیکار کا راستہ چُنا اور دائیں بائیں دیکھے بغیر بگٹٹ دوڑتے چلے گئے۔ اُن کا یہ جارحانہ پن‘ اُن کی قوت بن گیا۔ حکومت ہی نہیں ریاست بھی ان کے جاہ و جلال کے سامنے سکڑی سمٹی دکھائی دینے لگی۔ دیکھتے دیکھتے زمان پارک ایک قلعے کی شکل اختیار کر گیا۔ فدائین مستقل طورپر خیمہ زن ہو گئے اور کسی ریاستی اہلکار کیلئے ممکن نہ رہا کہ اُن کی بارگاہِ عالی مرتبت کی چار دیواری کے اُس طرف جھانک کر بھی دیکھے۔ 9مئی کو گرفتار ہوئے تو اُن کے طے کردہ منصوبے بلکہ سازش کے تحت اُن کے شیدائی کوئٹہ سے پشاور تک اپنے متعینہ اہداف کی طرف لپکے اور ایک حشر بپا کردیا۔
افواجِ پاکستان سے متعلقہ علامتیں اُن کا خصوصی ہدف تھیں۔ سپریم کورٹ کی انصاف پروری کے باعث وہ ایک شب پولیس لائنز کی آراستہ پیراستہ کوٹھی میں گزارنے اور صدر عارف علوی کے لائے انواع واقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اگلے ہی دن رہا ہوگئے لیکن محض چند گھنٹوں کے اندر وقت ایک بہت بڑی جست لگا چکا تھا۔ اور وقت ایسا چور ہے جو بھاگتے وقت لنگوٹی بھی نہیں چھوڑتا۔ عہدِ حاضر کا بہت بڑا بیانیہ ساز ہونے کے باوجود عمران خان افلاسِ بیاں کا شکار ہوئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی پارٹی تحلیل ہوتی چلی گئی۔ جانیں چھڑکنے والے ساتھی خزاں رسیدہ زرد پتوں کی طرح ٹوٹنے لگے۔ یکا یک زمان پارک‘ ویران ہوگیا۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ اولیں عدالتی سطح سے آیا ہے۔ وہ اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ جاسکتے ہیں۔ وہاں شنوائی نہ ہو تو سپریم کورٹ میں اپیل کا دروازہ کھلا ہے۔ میں نے نوازشریف کے مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دوست خواجہ حارث کو کبھی اتنا متحرک‘ فعال اور گرم جوش نہیں دیکھا۔ سختی سے اجلی روایات پر کاربند رہنے والے نامور وکیل کے اسلوبِ وکالت میں اچھی خاصی لرزش بھی محسوس ہوئی۔ عمران خان کی قانونی ٹیم نے کسی بھی مقدمے میں ''میرٹ‘‘ کو اہمیت نہیں دی۔ وہ قانونی نکتہ آفرینیوں‘ موشگافیوں اور پینترابازیوں کے زور پر تاخیری حربوں ہی کو کمالِ فن سمجھتے رہے۔ توشہ خانہ کیس کی کوئی چالیس پیشیاں ہوئیں۔ عمران خان صرف تین دفعہ آئے۔ ایک بار تو وہ سامنے والی سڑک پر گاڑی پارک کرکے اُس میں بیٹھے رہے اور کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے اس لئے عدالت میں نہیں جائوں گا۔ اُن کی حاضری کیلئے فائل خود اُن تک پہنچائی گئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بعدازاں وہ غائب ہوگئی۔ شاید ہی پچھتر سالہ تاریخ میں کسی اور کو یہ رعایت ملی ہو۔ فارن فنڈنگ کیس میں دو سو کے لگ بھگ تاریخیں پڑیں اور تحریکِ انصاف کے وکلا بڑی کامیابی کے ساتھ اُسے نوسال سے کھینچے چلے آرہے ہیں۔
کسی پر ٹوٹنے والی اُفتاد سے لطف اٹھانا‘ انسانیت کی نفی ہے۔ عمران خان کو بہرحال انصاف ملنا چاہیے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے جیسا نوازشریف کے ساتھ ہوا۔ بعض جرنیلوں اور ججوں کے عقدِ مصلحت نے اُس وقت قانون وانصاف کے چہرے پر سیاہی تھوپی تو آج اسے ہرگز نہیں دُہرایا جانا چاہیے۔ اچھا ہوا کہ عمران خان پر کسی خیالی کمپنی اور تصوراتی اثاثے کا نہیں‘ کروڑوں روپے مالیت کے زندہ و موجود اثاثوں کا مقدمہ بنا‘ اچھا ہوا کہ کسی عدالت نے اُن کے خلاف پٹیشن کو پہلے فضول‘ ناکارہ اور لایعنی قرار دے کر بعدازاں مقدس نہیں ٹھہرایا‘ اچھا ہوا کہ وٹس ایپ کالز کے ذریعے جے آئی ٹی کیلئے ہیرے نہ تلاش کئے گئے‘ اچھا ہوا کہ فوج کے دو اعلیٰ افسران کوکسی جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنایا گیا‘ اچھا ہوا کہ اُن کے خلاف کارروائی عدالت کے ازخود نوٹس پر نہ ہوئی‘ اچھا ہوا کسی جرنیل نے جج کے گھر جاکر یہ نہیں کہا کہ عمران خان کو سزا دو ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی‘ اچھا ہوا کہ کوئی خفیہ کار‘ عدالت کے پچھلے دروازے سے منہ چھپائے نکلتا پکڑا نہیں گیا‘ اچھا ہوا کہ جج کو وڈیوز دکھا کر بلیک میل نہیں کیاگیا‘ اچھا ہوا کہ کوئی خان مخالف جج‘ سیشن عدالت پر نگاہ رکھنے کیلئے مانیٹرنگ جج نہیں بنایا گیا‘ اچھا ہوا اُن کا مقدمہ براہِ راست سپریم کورٹ میں نہیں چلا ورنہ وہی حتمی ٹھہرتا اور اپیل کے سارے حقوق ختم ہو جاتے‘ اچھا ہوا کہ عدالتِ عظمیٰ میں ثاقب نثار نہیں جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس کی مسند پر فائز تھے۔ اچھا ہوا کہ سسلین مافیا اور گاڈ فادر کے بجائے ''گڈٹو سی یو ‘‘ جیسے ریمارکس اُن کے کانوں کی زینت بنے۔
اللہ کرے خان صاحب کنجِ زنداں کی تنہاہیوں میں اپنے عروج وزوال کی داستان پر غور کرسکیں۔ یہ بات اب طے پاچکی ہے کہ وہ عوامی حمایت کے بل پر نہیں‘ ایک پراجیکٹ کے ذریعے اقتدار میں لائے گئے۔ اگست 2018ء کے بعد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کیلئے اُن کے سامنے وسیع میدان تھا۔ انہیں اقتدار میں لانے والوں نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ گرم ہوا کا کوئی جھونکا بھی وزیراعظم ہائوس کے دریچوں سے نہ جھانکے۔ میڈیا کو لگام ڈالی‘ سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر جیلوں میں ڈالا‘ عوام کو تسلیاں دیں‘ نگرنگر سے ڈالر لاکر دیے‘ اُن کے چارسوپھیلی کرپشن سے صرفِ نظر کیا‘ پارلیمنٹ میں اُن کے بندے پورے کئے‘ اُن کے بجٹ منظور کرائے‘ انہیں قانون سازی میں نمبر گیم کا سہارا دیا‘ اس کے باوجود اُن کا پونے چار سال پر محیط عرصۂ حکمرانی خشک سالی کی ماری بنجر زمین کی طرح کِشتِ ویراں ہی رہا۔ نتیجہ یہ کہ عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اپنا کوئی ایک کارنامہ بھی عوام کے سامنے پیش کرنے کے بجائے انہیں بے سروپا امریکی سائفر سے کھیلنا پڑا۔
قومی اسمبلی اپنی معیاد پوری کرکے رخصت ہورہی ہے۔ اس سوال کا جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ایوانِ زیریں میں موجود رہنے‘ توانا قائدِ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے‘ پارلیمانی حرکیات کا حصہ رہنے اور نظام میں فعال کردار ادا کرنے کے بجائے طفلِ خود معاملہ کی طرح کوچہ وبازار گرمانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ یہیں پر بس نہیں‘ اُنہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بھی توڑ دیں اور اپنی ہی حکومتوں کا گلہ گھونٹ دیا۔ یقینا اُن کے ذہن میں کوئی نقشۂ کار ہوگا۔ 9 مئی کو اس نقشۂ کار کے خدوخال سامنے آگئے‘ منصوبہ ناکام ہوگیا لیکن خان صاحب کی سیاست کے بخیے ادھیڑ گیا۔
توشہ خانہ اور دوسرے مقدمات سے گلو خلاصی ہوبھی جائے تو کیا عمران خان پاکستان کی سیاست میں واپس آ سکتے ہیں؟ اس کا جواب'' ہاں‘‘ میں دینے کیلئے خوش گمانی کا کوۂ ہمالیہ چاہیے۔بظاہر سفر تمام ہوا۔