انوار الحق کاکڑ کو میں نے پہلی بار سینیٹ میں دیکھا‘ جب مارچ 2021ء میں ایوانِ بالا کا رکن بنا تب وہ اقتدار کا جھولا جھولتی تحریک انصاف کے ساتھ سرکاری بینچوں پر بیٹھتا تھا‘ باضابطہ اجلاس کے پہلے یا دوسرے دن ہی وہ میرے پہلو میں آ بیٹھا‘ دیر تک نیاز مندانہ انداز میں مجھ سے غائبانہ تعارف کی داستان کہتا رہا۔ بلوچستان کی مصفیٰ ہواؤں کا پروردہ گورا چٹا پٹھان‘ خوش جمال تو تھا ہی مجھے خوش خصال بھی لگا۔ جب میں نے پہلی بار اسے ایوان میں بولتے سنا تو لگا کہ وہ خوش جمال و خوش خصال ہی نہیں‘ خوش مقال بھی ہے۔ اس کا لہجہ شستہ‘ شائستہ اور متین تھا۔ گفتگو میں علم و دانش کا لبھائو بھی تھا‘ تاریخ کا رچائو بھی اور سلاست و روانی کا بہائو بھی۔ ہولے ہولے ہماری قربتیں گہری رازداری میں ڈھلتی گئیں‘ ایک مقام پر اس رازداری کا رنگ اتنا گہرا ہو گیا کہ نہ میں گوشۂ لب پر لا پائوں‘ نہ وہ بیان کر پائے۔
بلوچستان سے آنے والے بیشتر سیاستدانوں کے برعکس اس کے سر پر ''سرداری‘‘ کی کوئی دستارِ فضیلت نہیں‘ عام سے گھرانے میں پیدا ہوا‘ بلوچستان میں قاضی عیسیٰ اور مسلم لیگ کے بانیوں میں ایک بڑا نام ارباب کرم خان کاسی کا تھا۔ میونسپلٹی کا ممبر ہوتے ہوئے ارباب کرم خان نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ انوار الحق کی والدہ انہی ارباب کرم خان کاسی کی پوتی تھیں۔ انوار کے دادا ڈاکٹر نور الحق برسوں خان آف قلات کے خصوصی معالج رہے۔ لازوال حب الوطنی‘ بلوچستان کی تہذیبی و ثقافتی روایات سے پختہ وابستگی اور وہاں کے سخت کوش باسیوں کے جذبہ و احساس سے آگاہی‘ تین نسلوں سے انوار الحق کاکڑ کے لہو میں رچی بسی ہے۔ ماں تو اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے آرزوئوں کی بقچی کھولنے سے پہلے ہی اس وقت جہانِ فانی سے کوچ کر گئی جب انوار الحق کی عمر صرف چار سال تھی‘ عمر بھر سرکاری ملازمت کی نذر کرنے والے محنت شعار والد کی خواہش تھی کہ بیٹا سی ایس ایس کرکے بڑا افسر بنے یا پھر فوج میں کمیشن حاصل کرے۔ انوار الحق کے دل میں ابتدائے عمر ہی سے سیاست چٹکیاں لے رہی تھی‘ زمانۂ طالب علمی میں عوامی نیشنل پارٹی نے اس کے دل پر دستک دی۔ وہ اس کی ذیلی تنظیم ''پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کا سرگرم رکن اور پھر صدر بن گیا۔ جوانی کی شاخِ سبز پر شگوفے پھوٹ رہے تھے کہ والد کا بھی انتقال ہو گیا۔ تب انوار الحق کی عمر 19برس کے لگ بھگ تھی۔ اکلوتی بہن بھی 2005ء میں چل بسیں۔ نگران وزیراعظم کے طور پر اس کی تقریبِ حلف برداری میں غالباً اس کی اہلیہ اور اس کا اکلوتا بیٹا نو سالہ نور الحق ہی شریک ہو پائے۔ والدین کی روحیں یقینا آسودہ ہوں گی۔ والد احتشام الحق کاکڑ خوش ہوں گے کہ بیٹے نے سی ایس ایس نہ کیا لیکن بڑے بڑے افسروں سے بڑا افسر بن گیا۔ انہیں اس بات کی بھی خوشی ہوگی کہ گو انوار الحق وردی پہن کر فوج میں شامل نہ ہوا لیکن خود فوج نے اس کے دل میں پختہ بن کر دل والی چھائونی بنا لی۔
انوار الحق سیاست کیلئے بنا تھا‘ سیاست بھی ایسی کہ قید و بند اور دارو رسن کی پُر خطر راہوں سے کنی کترا کر سیدھی منزلِ لیلیٰ کو جا نکلے۔ اسی نظریۂ سیاست کے تحت اس نے اپنا سفر پرویز مشرف کے زچہ و بچہ مرکز میں جنم لینے والی مسلم لیگ (ق) سے کیا۔ 2008ء میں اس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور ہار گیا۔ یہ ناکامی اس کے فلسفۂ سیاست کو پختہ تر کر گئی‘ اسے زمینی حقیقتوں کے گہرے شعور کے ساتھ راستہ تراشنا‘ انتخابی بکھیڑوں میں پڑنے سے کہیں زیادہ اچھا لگنے لگا۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے ہی نتائج مرتب کیے جا چکے تھے‘ فیصلہ ہوا کہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کو بالادستی حاصل نہیں ہونی چاہیے اس کیلئے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ ضروری ٹھہرا۔ وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ نوشتۂ دیوار پڑھ کر وہ مستعفی ہو گئے۔ ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ساری منصوبہ بندی میں جام کمال اور انوار الحق پیش پیش تھے۔ زندگی کے پہلے سیاسی جوڑ توڑ میں اس فیصلہ کن کردار نے انوار الحق کیلئے ایوانِ بالا کے دروازے کھول دیے۔ زمینی حقیقتوں کے ایک اور نباض اور ''باپ‘‘ کے باپوں میں شمار ہونے والے محمد صادق سنجرانی بھی آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ میں آ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ تب انوار الحق کاکڑ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں سینیٹ کا چیئرمین بنایا جائے گا‘ وہ اس منصبِ بلند سے کوئی بالشت بھر ہی دور تھے کہ صادق سنجرانی زقند بھر کر آگے نکل گئے۔
انوار الحق صاحبِ علم و ادب سیاستدان ہے‘ گفتگو کرتا ہے تو ایک دبستان سا کھل جاتا ہے۔ تاریخِ عالم پر عبور حاصل ہے‘ نہایت کثیر المطالعہ ہے‘ ادب‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ شاعری‘ اقوام ِعالم کا عروج و زوال‘ اسلامی تاریخ کے نشیب و فراز‘ بڑے لوگوں کی سوانح‘ کسی نہ کسی موضوع پر کوئی نہ کوئی کتاب ہمیشہ اس کے زیرِ مطالعہ رہتی ہے۔ حافظہ بھی بلا کا پایا ہے‘ غیر شعوری (یا ممکن ہے شعوری) طور پر وہ اپنی گفتگو سے سننے والے کو مرعوب اور مبہوت کرتا رہتا ہے۔ یقینا علم و دانش کی دھاک بٹھا کر اسے آسودگی حاصل ہوتی ہو گی۔ برادرم محترم مجیب الرحمان شامی نے بجا طور پر گرفت کی ہے کہ کابینہ کے پہلے اجلاس (جو ایک اعتبار سے اس کا عوام سے پہلا خطاب بھی تھا) میں گفتگو کیلئے اُردو پر قابلِ رشک عبور رکھنے کے باوجود کیوں اس نے زبانِ غیر ''انگریزی‘‘ کا انتخاب کیا؟ مجھے بھی حیرت ہوئی اور افسوس بھی‘ شاید اس کی وجہ بھی دھاک بٹھانے کی وہی نفسیاتی گرہ ہو جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے۔
انوار الحق کاکڑ اپنی سوچ اور نظریات کے اعتبار سے کھردرے پن کی حد تک کھرا ہے۔ اسے خودسری اور سرکشی کے زور پر ریاست کو زیر کرنے کی حکمت عملی سے اختلاف رہا۔ وہ لاپتا افراد اور محرومیوں کی بعض کہانیوں کو بھی مبالغہ آمیز قرار دیتا ہے لیکن وہ بلوچستان کے مسائل سے آگاہ ہے۔ گہرا درد بھی رکھتا ہے اور سیمانی کا عزم بھی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جوں جوں قومی اسمبلی کی تحلیل اور نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ قریب آ رہا ہے‘ کاکڑ کے چہرے پر جلد دلہن بننے والی دوشیزہ کی شفق گہری ہو رہی ہے۔ ایک دن اس نے مجھ سے رازداری کا عہد لیتے ہوئے بتایا فیصلہ ہو گیا ہے میں ...بن رہا ہوں۔ اس نے جس عہدے کا ذکر کیا وہ وزیراعظم کا نہ تھا۔ اعلان سے دو دن قبل وزیراعظم شہباز شریف نے فون کیا‘ انوار الحق سے پوچھا کہ آپ کا نام وزارتِ عظمیٰ کیلئے شارٹ لسٹ کیا جا رہا ہے۔ آپ راضی ہیں۔ انوار نے بلوچستان کی پاکیزہ تہذیب کی پروردہ شرم و حیا میں گندھی دوشیزہ کی طرح گردن جھکائی اور بولا ''جی میں راضی ہوں‘‘ اور پالکی کا انتظار کرنے لگا۔
دوست ہونے کے ناتے میری آرزو ہے کہ انوار الحق اپنی پوری توجہ بروقت آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے بنیادی وظیفے پر مرکوز رکھے۔ وہ کوئی زندہ و تابندہ‘ منفرد و ممتاز روایت ڈال گیا تو ٹھیک ورنہ غلام مصطفی جتوئی‘ بلخ شیر مزاری‘ معین قریشی‘ معراج خالد‘ محمد میاں سومرو‘ میر ہزار خان کھوسو اور جسٹس (ر) ناصر الملک کے ناموں کے ساتھ ایک اور نام کا اضافہ ہو جائے گا۔ انوار الحق کاکڑ !