بلاشبہ عزت وعظمت اور ذلّت و رسوائی کے فیصلے قادرِ مطلق کے دستِ قدرت میں ہیں۔ احساس ِکامرانی سے سرشار کسی سہولت شعار جرنیل کا ٹویٹ اُس کے باطن کی ترجمانی تو کرسکتا ہے‘ ہمیشہ کیلئے لوحِ محفوظ پہ لکھے اٹل فیصلے نہیں مٹا سکتا۔ یہ فیصلے‘ کئی سالہ محنت بچانے پر کمربستہ کسی جرنیل کے دائرۂ اختیار واقتدار سے بھی ماوریٰ ہوتے ہیں۔ بندوق یا ترازو کا عقدِ مصلحت (Marriage of convenience) کچھ عرصے کیلئے اپنی مرضی کے موسم تخلیق کرسکتا ہے‘ ازلی وابدی تقویم کے دائمی اصولوں کو نہیں بدل سکتا۔ جبر‘ چہروں پر کالک تو تھوپ سکتا ہے‘ لیکن یہ سیاہ کاریاں کبھی طویل العمر نہیں ہوتیں‘ ہوا کے ایک ہی مصفّیٰ جھونکے سے دُھل جاتی ہیں۔
بہت دن ہوچکے لیکن میری لوحِ چشم پر وہ نامطلوب مناظر‘ رنگین فوٹو سٹیٹ کاپیوں کی طرح چسپاں ہیں۔ 10 ستمبر2007ء۔ لندن سے اڑنے والا طیارہ اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈّے کے ایک دور افتادہ گوشے میں آ رُکا۔ میں‘ کم وبیش سات برس کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آنیوالے نواز شریف کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ طیارے کے دریچے سے باہر بالشت بھر زمین بھی دکھائی نہ دی۔ چپّے چپّے پر مستعد مسلح وردی پوش کھڑے تھے۔ نواز شریف ہم سب کیساتھ بس میں بیٹھ کر راول لائونج پہنچا۔ ذرا دیر بعد اُسے ایک دوسرے طیارے میں بٹھا کر جدہ بھیج دیاگیا۔ یہ ''سیاہ کاری‘‘ اب پس منظر میں جاچکی ہے۔
13 جولائی 2018ء: نوازشریف اور مریم کو احتساب عدالت نے لمبی قید کی سزائیں سنادیں۔ دونوں جاں بہ لب بیگم کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے لندن سے نکلے۔ میں تب بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ ہیتھرو سے لاہور تک ہم تینوں منتشر سوچوں میں الجھے بے ربط مکالموں سے ایک دوسرے یا خود اپنے آپ کو فریب دیتے رہے۔ لاہور کا ہوائی اڈہ گیارہ برس پہلے والا منظر پیش کررہا تھا۔ سینکڑوں مسلح اہلکاروں کے نرغے میں کھڑے طیارے کے دریچے سے غول درغول جتھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک غول طیارے کے اندر گھس آیا۔ باپ اور بیٹی کو دھکیلتے ہوئے ایک اور چھوٹے سے طیارے میں ڈال کر پہلے اسلام آباد اور پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیاگیا۔ یہ ''سیاہ کاری‘‘ بھی قصہّ پارینہ ہوچکی ہے۔
نوازشریف سب سے زیادہ ریاستی اور عدالتی سیاہ کاریوں کا نشانہ بننے والا زندہ سیاستدان ہے۔ ہماری تاریخ کے کسی دوسرے وزیراعظم پر وہ نہیں گزری جو 12 اکتوبر1999ء کو نوازشریف پر بیتی۔ اُسے وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر کالے شیشوں والی گاڑی میں ڈالا گیا اور چکلالہ چھائونی کے کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیاگیا۔ تنگ وتاریک بیرک کے چھوٹے سے کمرے میں چار جرنیلوں نے اُس کے سامنے ایک کاغذ رکھا ''میں بطورِ وزیراعظم‘ قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہوں‘‘۔ اُس نے انکار کردیا۔ کرخت دھمکیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو اُس نے کہا ''مجھے چاہے گولی مار دو۔ میں دستخط نہیں کروں گا۔‘‘ لمحہ بھر بعد وہ بولا ''اس کیلئے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا ‘‘ (OVER MY DEAD BODY)۔ اُسے گورنر ہائوس مری کے ایسے کمرے میں ڈال دیاگیا جس کی کھڑکی پر گہرے رنگ کا کاغذ چڑھا دیاگیا تھا۔ دن اور رات کی تمیز بھی مشکل تھی۔ ہفتوں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں ہے؟ گئے زمانوں کے آدم خور قبائل جیسی یہ ''سیاہ کاری‘‘ بھی کم لوگوں کو یاد رہ گئی ہے۔ اٹک قلعے سے لانڈھی جیل لے جاتے ہوئے ہتھکڑیاں ڈال کر اُسے سیٹ سے باندھ دینے والی مکروہ ''سیاہ کاری‘‘ بھی بھولی بسری کہانی ہے۔ اٹک قلعہ‘ اڈیالہ‘ کوٹ لکھ پت‘ لانڈھی‘ گم نام بیرکس‘ بے نام بندی خانے‘ سب سیاہ کار قصّے‘ قصہ ہائے پارینہ ہوچکے۔
گزشتہ چھ برس کے دوران‘ جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے سیاہ کاریوں کی جو متعّفن داستان لکھی گئی‘ اُس کی نظیر خود ہماری سیاہ رُو تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ صرف پانامہ کو دیکھ لیں۔ پی ٹی آئی کو‘ کھوسہ کی طرف سے پانامہ کیس عدالت میں لانے کی سیاہ کار پیشکش‘ سیاہ کاروٹس ایپ کالز‘ سیاہ کار جے آئی ٹی‘ سیاہ کار ہیرے‘ سیاہ کار مانیٹرنگ بینچ‘ ''سسلین مافیا‘‘ اور ''گاڈفادر‘‘جیسے سیاہ کار ریمارکس‘ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی اور عمر بھر کی نااہلی کا سیاہ کار فیصلہ‘ سیاہ کار ریفرنسز اور سیاہ کارسزائوں کی ایک لمبی قطارہے۔ کوٹ لکھ پت جیل میں اس کے سامنے‘ اس کی بیٹی کو گرفتار کرنا کچھ کم سیاہ کاری تھی؟ اس کے والدین اور اس کی رفیقۂ حیات‘ اسی حیا باختہ ''سیلِ سیاہ کار‘‘ کی نذر ہوگئے۔
تاریخ کے اسی عہدِ بے ننگ ونام میں‘ ''سیلِ سیاہ کار‘‘ کے متوازی چلتی ''سہولت کاری‘‘ کی ایک جُوئے نغمہ خواں بھی ہے۔ عاشقانہ فریفتگی‘ والہانہ دِل بستگی اور مجنونانہ فداکاری کی رومانوی کہانی جس کے انگ انگ سے ''سہولت کاری‘‘ پھوٹ رہی ہے۔ یہ سہولت کاری پیہم‘ عمران خان کی بلائیں لیتی رہی۔ وہ اپوزیشن میں تھا تو اُس کے جلسوں‘ اس کے جلوسوں‘ اس کے دھرنوں اور اس کے لانگ مارچوں میں رنگ بھرتی رہی۔ اس کیلئے ذرائع ابلاغ کی مُشکیں کستی رہی۔ اس کے حریفوں کی زندگی اجیرن بناتی رہی۔ اس کی انتخابی مہم کو بال وپر عطا کرتی رہی اور اُس کیلئے عدالتوں سے صداقت وامانت کی خلعتِ فاخرہ کا اہتمام کرتی رہی۔ انتخابات کا ناقوس بجا تو یہی ''سہولت کاری‘‘ شرم وحیا سے عاری ہوکر‘ آر ٹی ایس کے حلق سے اس کی ''فتحِ مبین‘‘ نکال لائی۔ وہ تخت نشین ہوا تو یہ سہولت کاری کنیزوں اور خادمائوں کی طرح اس کی دربار داری میں لگی رہی۔ عدلیہ‘ ایک ہنرمند مشاطّہ کی طرح اس کے عارض وگیسو سنوارنے لگی۔ وہ پکڑا گیا تو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہوتے ہوئے سرشام سپریم کورٹ بیٹھ گئی‘ اُسے مرسڈیز میں بٹھا کر عدالت لایاگیا‘ رات شاہانہ بنگلے میں بصدسامانِ عیش گزارنے کی ''سہولت کاری‘‘ ملی‘ ایک ہی دن میں بارہ ضمانتوں کا ریکارڈ قائم ہوا‘ سہولت کاری کو معجزہ کاری کی حدوں تک پہنچاتے ہوئے فرمان جاری ہوا کہ یہ کچھ بھی کرتا پھرے‘ اسے گرفتار نہ کیاجائے۔ لاتعداد مقدمات میں حاضری سے استثنیٰ معمول بنارہا۔ عدالت سے دور سڑک پر کھڑی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے حاضری لگوانے اور گھر چلے جانے کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا۔ اشتہاری ہوتے ہوئے سب سے بڑی عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر حریفوں کے خلاف کارروائی سننے کی سہولت کاری ملی۔
دشتِ بے اماں کے بگُولوں جیسی ''سیاہ کاریوں‘‘ کے طمانچے کھانے اور چار برس دیارِ غیر میں گزار کر وطن واپس آنے والے شخص نے‘ قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ میں پاکستان واپس آ کر آپ کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہوں۔ عدالت نے حفاظتی ضمانت کی عرضی منظور کرلی۔ وہ جیل کی دیواریں پھلانگ کر نہیں‘ ڈاکٹروں کی رپورٹس کے بعد حکومت اور عدالت کی اجازت سے گیا تھا۔ واپس آتے ہی خود کو قانون کے حوالے کردیا لیکن کچھ دل بغض وکدورت کی ''کچرا کنڈیاں‘‘ بن چکے ہیں۔ خودساختہ دانشوروں کی دانشِ بیمار‘ انگاروں پہ لوٹنے لگی ہے۔ کل تک ''لغتِ قانونِ سیاہ‘‘ (Black Law Dictionary) سے برآمد کئے گئے ایک ''سیاہ کار‘‘ فیصلے پر سردھننے والے آج آئین کی کتابِ سبز کی دہائی دینے لگے ہیں۔ یہ نہیں بتا پارہے کہ عدالت نے آئین اور قانون کی کس شِق کو نظرانداز کیا ہے؟21 اکتوبر کو جب فلائی دبئی کی چارٹرڈ پرواز FZ-4525 نے اسلام آباد کے ہوائی اڈے کو چھوا تو نوازشریف نے بے ساختہ کہا ''الحمدللہ‘‘۔ اُس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ اُس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور پھر دیر تک دعا گو ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے رکھا۔ طیارے میں بیٹھے بیسیوں مسلم لیگی کارکن نعرہ زن تھے ''وزیراعظم نوازشریف۔‘‘ میں نے دریچے سے جھانک کر دیکھا۔ دور ونزدیک کوئی غول تھا نہ جتھہ۔ چار سُو اکتوبر کی نرم خُو دھوپ رُوپَہلی قالین کی طرح بچھی تھی۔