’لیول پلینگ فیلڈ‘ کا واویلا

'لیول پلینگ فیلڈ‘ (Level Playing Field) یعنی انتخابات میں تمام جماعتوں کیلئے یکساں اور منصفانہ مواقع کا مطالبہ‘ پیپلزپارٹی کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ عام طورپر اس طرح کا واویلا انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد اُس وقت اٹھتا ہے جب جاگتی آنکھوں کے سَت رنگے خواب چکنا چُور ہو جاتے ہیں اور اولین نتائج کے ساتھ ہی ایک دل گرفتہ سی شام‘ شامِ فراق کی طرح شکست خوردگان کے اُجاڑ خیموں میں آن اُترتی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال 2013ء کی انتخابی شکست کے بعد عمران خان کا آتش فشانی ردّعمل تھا۔ خواب تراشوں اور پیغمبرانہ تمکنت کے ساتھ الہامی لہجے میں پیش بینی کرنے والے مبصرینِ خود پرست نے خان کے دل ودماغ میں نقش کردیا تھا کہ ایک بے پناہ طوفان بحیرۂ عرب کے ساحلوں سے لگا کھڑا ہے جو 11 مئی کو سحر دَم اٹھے گا‘ نوازشریف سمیت سب کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور تخت طائوس‘ کشتیِ نوحؑ کی طرح مارگلہ کی پہاڑی پہ آ ٹھہرے گا۔ طفلانِ خود معاملہ کو لگام نہ ڈالی جاتی تو عین ممکن ہے کہ وہ ابرِنو بہار 2013ء ہی میں برس جاتا جس نے 2018ء میں خان صاحب کی کشتِ ویراں کو جل تھل کردیا۔ یہ ایک گہرا زخم تھا جو پی ٹی آئی دیر تک چاٹتی اور انتخابات میں دھاندلی کے نام پر نوبیاہتا بیوہ کی طرح سر میں راکھ ڈالے سیاپا کرتی رہی۔
انتخابی نتائج کے بعد‘ دھاندلی کا واویلا‘ شکست خوردگان کا شیوہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کی تالیفِ قلب کیلئے اس طرح کے جواز تراشتی رہتی ہیں۔ لیکن جب یومِ انتخاب سے مہینوں قبل ہی 'لیول پلینگ فیلڈ‘ نہ ملنے کو بیانیے کا درجہ دے دیا جائے تو جان لینا چاہیے کہ کسی متوقع افتاد کی آہٹ ابھی سے محسوس کی جانے لگی ہے اور جلی حروف میں لکھا نوشتۂ دیوار کمزور بصارت والی آنکھوں کو بھی دکھائی دینے لگا ہے۔
پیپلزپارٹی ایسا کیوں کررہی ہے؟ کیا ملک کے طول وعرض میں اُس کی مقبولیت کی دلپذیر ہوائیں چل رہی تھیں جو اچانک راستہ بھول کر 'رائیونڈ‘ کی طرف نکل گئی ہیں؟کیا پنجاب کی جنّت ِگم گشتہ پھر اسکے قدموں میں بچھ جانے کیلئے تڑپنے لگی تھی؟ کیا رائے عامہ کے جائزے اسے پاکستان کے عوام کی پہلی ترجیح بتا رہے تھے؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہیے کہ وہ وزارتِ عظمٰی کی پالکی ''بلاول ہائوس‘‘ میں اترتے دیکھنے لگی تھی کہ یکایک سارا کھیل بگڑ گیا۔ کابینہ میں بیٹھے دو تین بے ضرر سے وزیر اور نگران وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری (جو اَب مستعفی ہوچکا ہے) بہرحال اتنے طاقتور نہیں ہوسکتے کہ پیپلزپارٹی جیسی عوامی جماعت کے سیلِ بے پناہ کا راستہ روک لیں۔
'لیول پلینگ فیلڈ‘ کی فریادِ یتیم میں‘ پی ٹی آئی کے کچھ بچے کھچے اور روپوش خیرخواہ بھی شامل ہیں جو خود کوتحریکِ انصاف کہتے ہیں لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ اُنکے آشیانے کو خاکستر کر دینے والی بجلیاں کسی خفیہ منطقے نہیں‘ بنی گالا اور زمان پارک کی آغوش میں پلتی رہیں۔ 9 مئی‘ ایک سوچی سمجھی سازش اور بھرپور منصوبہ بندی کی کوکھ سے پھوٹا۔ آج جو قیمت پی ٹی آئی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ 9 مئی کی بھیانک واردات کے مقابلے میں کچھ ایسی بھاری بھی نہیں۔ کوئٹہ سے پشاور تک چشم زدن میں دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر نفرت انگیز حملے‘ ان حملوں کے ذریعے فوج میں اشتعال اور ارتعاش پیدا کرنے کا منصوبہ‘ اس تلاطم کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو معزول کرنے کی سازش اور پھر نئی انقلابی فوجی قیادت کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا۔ کیا اس سے بڑی کسی سازش یا بغاوت کا تصور کیا جاسکتا ہے؟1951ء میں جنرل اکبر خان سازش سے لے کر 1995ء میں جنرل ظہیرالاسلام کی ''آپریشن خلافت‘‘نامی سازش تک کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ 9 مئی جیسی شورش بپا کرتے۔ سازشی عناصر‘ منصوبہ ساز مرحلے میں ہی پکڑے گئے اور سزائیں پائیں۔کسی عدالت سے اُنہیں اس بنیاد پر کوئی رعایت نہ ملی کہ وہ عام شہری ہیں۔ اگر 9 مئی کی مکروہ سازش کو بھی معمول کی سیاسی سرگرمی‘ عمومی احتجاج‘ جمہوری استحقاق اور بنیادی حقوق کے زمرے میں ڈالاجاسکتا ہے تو بجا‘ ورنہ یہ سب کچھ کرنے والی جماعت کے منہ سے 'لیول پلینگ فیلڈ‘کی آرزو ‘ مضحکہ خیز ہی لگتی ہے۔
'لیول پلینگ فیلڈ‘ کی کمین گاہوں سے برسنے والے تیروں کا رُخ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے جسے شاید ہی کبھی یکساں منصفانہ انتخابی مواقع ملے ہوں۔ رواں صدی میں اب تک چار انتخابات ہوچکے ہیں۔ 2002ء کے انتخابات‘ پرویز مشرف کے زیر اہتمام منعقد ہوئے جو نوازشریف کے خون کا پیاسا تھا۔ تب نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن تھے اور آصف زرداری جیل میں۔ ہر سُو نوزائیدہ مسلم لیگ (ق) کا طوطی بول رہا تھا۔ سو وہ سرخ قالین پہ چلتی مشرف کے آراستہ پیراستہ حُجلۂ عروسی میں آبیٹھی۔دوسرے انتخابات‘ 2008ء میں ہوئے۔ مشرف تب بھی اقتدار میں تھا۔ اُس کے ایما پر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معاملات طے پاگئے۔ مشرف کو بے وردی صدر رہنے اور پیپلزپارٹی کو سازگار انتخابی فضا کے نتیجے میں وزارتِ عظمی دیے جانے کے عہدوپیمان ہوگئے۔ نواز شریف جلاوطنی ترک کرکے وطن آیا تو اُسے ایک بارپھر جدہ بھیج دیا گیا۔ مفاہمت کے نتیجے میں محترمہ پاکستان واپس آگئیں تو سعودی عرب نے نوازشریف کو پنجرے میں بند رکھنے سے انکار کردیا۔ مشرف خود دوڑے دوڑے سعودی عرب پہنچے لیکن بات نہ بنی۔ نواز شریف الیکشن سے چند دن قبل واپس آگئے۔ این اے 120 سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے جو مسترد کردیے گئے۔ شہبازشریف بھی انتخابات سے باہر کردیے گئے۔ 'لیول پلینگ فیلڈ‘ پر ہیوی رولر پھیرکر 'پچ‘ پوری طرح تیار کردی گئی۔ محترمہ تو شہید ہوگئیں لیکن پیپلزپارٹی نے 'مساوی انتخابی مواقع‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اقتدار میں آگئی۔تیسرے انتخابات 2013ء میں ہوئے۔ تب آصف علی زرداری صدر تھے۔ بڑی ہنرمندی سے انہوں نے اپنے قریبی دوست‘ میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم کے عہدے پر بٹھادیا۔ چاروں نگران وزرائے اعلیٰ بھی ان کے نامزد کردہ تھے۔ محترمہ کے ملٹری سیکرٹری رہنے اور صدر زرداری سے تین سال کی توسیع پانے والے اشفاق پرویز کیانی‘ آرمی چیف تھے۔ 'پراجیکٹ عمران‘ کی کمان‘ جنرل پاشا سے جنرل ظہیرالاسلام کو منتقل ہوچکی تھی۔ یہ تھی وہ 'لیول پلینگ فیلڈ‘ جس میں نوازشریف نے الیکشن لڑا اور وزیراعظم بنا۔ چوتھے انتخابات 2018ء میں اُس وقت ہوئے جب نوازشریف اور اس کی بیٹی اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ جنرل باجوہ پراجیکٹ عمران کے سنہری بجرے پر سوار ہوچکے تھے اور ملک مسلم لیگ (ن) کیلئے جلتا بلتا ریگستان بنادیاگیا تھا۔ اس کے باوجود اُس نے نہ 'لیول پلینگ فیلڈ‘ کی دہائی مچائی نہ بائیکاٹ کیا۔ کم کم کسی دانشور یا سیاسی مبصر نے کہاکہ جب سیاست کا سب سے بڑا کھلاڑی جیل میں پڑا ہے تو ایسے انتخابات کو کون مانے گا؟ ان 23سالوں میں نوازشریف گیارہ سال جلا وطن رہا۔ دو سال سے زیادہ کال کوٹھڑیوں میں گزارے۔ عدالتوں میں سینکڑوں پیشیاں بھگتیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
انتخابات‘ تین ماہ دور ہیں اور پیپلزپارٹی یوں ماتم کناں ہے جیسے یومِ انتخابات کی سوگوار شام ابھی سے اُس کے آنگن میں اُتر آئی ہے۔زرخیز موسموں میں چراگاہ کی سب سے شاداب اور معطرگھاس سے شکم سیر ہونے کے باوجود‘ رُت بدلتے ہی اپوزیشن کا رُوپ دھار کر سولہ ماہی اقتدار پر تبرّیٰ بھیجنا ‘ سی سی آئی میں نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کی خوش دلانہ تائید وحمایت کے فوراً بعد ''فوری انتخابات‘‘ کے نعرے لگانا‘ تقاضائے سیاست سہی‘ لیکن 'لیول پلینگ فیلڈ‘ کے واویلے سے یوں لگتا ہے جیسے پی پی پی کے پائوں تلے سندھ کی زمین بھی تھرتھرانے لگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں