سہیل وڑائچ صاحب کے گزشتہ کالم پر میرا پہلا ردّعمل یہی تھا کہ اب چُپ سادھ لینے کا مرحلہ آگیا ہے۔ میں نے جو کہنا تھا‘ وضاحت سے کہہ چکا۔میں نے چار متعیّن سوالات اٹھائے تھے تاکہ ''کالماتی مکالمہ‘‘ موضوعاتی حدودِاربعہ کے اندر رہے لیکن کسی ایک بھی سوال کا جواب نہیں ملا۔ کہانی وہیں گھُمن گھیریاں کھا رہی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
وہی پرانی بات دہراتے ہوئے کہاگیا : ''جو سلوک عمران خان کے دور میں نوازشریف اور اُن کی جماعت سے ہوا‘ نوا ز شریف کو وہ سلوک دہرانے کے بجائے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔‘‘ گویا عمران خان‘ مشکلات کے جس بھنور میں ڈبکیاں کھا رہے ہیں‘ اُس کا سبب نوازشریف کی خُوئے انتقام ہے۔ کم ازکم میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ عمران خان کے قضیے میں تیروں کا رُخ نوازشریف کی طرف کیوں ہے؟ اس آشفتہ سر نے تو مٹی کی محبت میں ایسے بہت سے قرض اتارے ہیں جو اُس پہ واجب بھی نہیں تھے۔ خان صاحب تو ایوان کے عدم اعتماد کے باعث فارغ ہوئے‘ نوازشریف تین بار وزیراعظم بنا‘ تینوں بار کسی نہ کسی کی تیغِ ستم کا نشانہ بنا۔ نو سال جلا وطن رہا۔ دو برس سے زائد زندانوں کا رزق بنا رہا۔ انہی بے مہر موسموں میں اُس کے والدین چھن گئے۔ وہ اُن کے تابوت لحد میں نہ اتار سکا۔ شریکِ حیات رخصت ہوئی تو وہ بیٹی سمیت اڈیالہ جیل میں پڑا تھا۔ دو برس بیٹی کی انگلی تھامے پیشیاں بھگتتارہا اور آج بھی بھگت رہا ہے۔ عشروں پر محیط کڑی سزائوں کے مقابلے میں اب تک اُس کا ثابت شدہ جرم صرف یہ ہے کہ اُس نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی۔
اور اب جب وہ چارسالہ جلا وطنی کاٹ کر وطن لوٹا ہے تو اُسے ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کرلیاگیا ہے۔ ''مبلغّینِ مفاہمت‘‘ کی ایف آئی آر یہ ہے کہ وہ ساری توانائیاں عمران خان کی معافی تلافی پر مرکوز نہیں کررہا۔ نوازشریف کے کسی ہمدرد کو یہ کہنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی کہ جس عمران خان نے کوئٹہ سے چکدرہ تک درجنوں فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذریعے فوج میں بغاوت بھڑکانے اور جنرل عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش کی‘ اُسے مدعی (فوج اور ریاست) قانون اور عدالتوں نے کوئی چھوٹ دینی ہے یا نوازشریف نے؟
مزید کہاگیا : ''میں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو پارٹی سے نکال دیں۔ جس طرح بے نظیر نے طیارہ اغوا کے بعد الذوالفقار سے پیپلزپارٹی کو بالکل علیحدہ کرلیا تھا۔‘‘ بے نظیر بھٹو اور الذوالفقار کی مثال میں نے دی تھی۔ اُسے ''خلط مَبحَث‘‘ کا زاویہ دیتے ہوئے بھلا دیاگیا کہ بے نظیر بھٹو‘ الذوالفقار کی سربراہ نہیں تھیں۔ انہوں نے طیارہ اغوا کیا تھانہ ریاست کے خلاف باغیانہ کارروائیاں منظم کی تھیں۔ عمران خان اس معاملے میں بے نظیر نہیں‘ ''مرتضی بھٹو‘‘ ہیں۔ وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہی نہیں‘ ان واقعات کے محرک اور منصوبہ ساز ہیں۔ اُن سے یہ مطالبہ کہ ''وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو پارٹی سے نکال دیں‘‘ منطق و دانش کا مضحکہ خیز نمونہ ہے۔
ارشاد ہوا : ''فوجی سربراہوں سے اختلاف بالکل وہی جرم ہے جو نوازشریف نے چھ بار کیا جبکہ عمران خان نے وہی جرم تھوڑی بار کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ میاں صاحب نے ہر بار مقتدرہ سے دوبارہ صلح کرلی۔ عمران خان اس لچک سے عاری ہیں۔ یہی بات ہے کہ وہ مسلسل مشکل میں ہیں۔‘‘ یہ دلیل تاریخ کے چہرے پر کالک تھوپنے کے مترادف ہے۔ نواز شریف کی اگر چھ فوجی سربراہان سے نہیں بنی تو یہ سول بالا دستی اور فوجی دراز دستی کی جنگ تھی۔ کسی بھی آرمی چیف سے اُس کی پرخاش کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ اسمبلی میں اُس کی نمبر گیم پوری کیوں نہیں کرتا؟ اُس کیلئے میڈیا کو نکیل کیوں نہیں ڈالتا؟ اُس کے مخالفین کو جیلوں میں کیوں نہیں جھونکتا؟ اس کی کرپشن کی پردہ پوشی کیوں نہیں کرتا؟ اس کے حریفوں کو عبرت کے نمونے کیوں نہیں بناتا؟ اس کیلئے دنیا سے پیسے بٹور کر کیوں نہیں لاتا؟ باجوہ سے واحد طفلانہ مطالبہ یہ تھا کہ ''مجھے نیچے نہ اُتارو۔ مسلسل گود میں لیے رکھو۔‘‘ جنرل راحیل شریف نے نوازشریف سے کہا تھا : ''سر! مجھے توسیع دے دیں‘ پانامہ کو میں سنبھال لوں گا۔‘‘ نوازشریف نے جواب دیا : ''توسیع تو نہیں دی جاسکتی ‘ پانامہ بھگت لوں گا۔‘‘خان صاحب کا ''بے لچک رویہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ حکومت چلی گئی تو کوچۂ رقیب میں سَر کے بل چلتے ہوئے ایوانِ صدر پہنچے ۔ خودی کے پرچم بردار کا مقصد آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات کرنا تھا۔ بیٹھتے ہی بولے: ''عارف تم باہر جائو۔‘‘ صدر علوی کمرے سے نکل گئے تو باجوہ سے دست بستہ التماس کی : ''پی ڈی ایم والوں کو گھر بھیجو۔ میری حکومت بحال کرو۔ میں آپ کو تاحیات توسیع دینے کو تیار ہوں۔‘‘ یہ کہانی آئی ایس آئی چیف اپنی تاریخی پریس کانفرنس میں بیان کرچکے ہیں۔ کس کی ''بے لچکی‘‘ کا موازنہ کس کی استقامت سے کیا جارہا ہے ؟ عمران خان کی پوری سیاسی زندگی جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی والہانہ حمایت سے لے کر جنرل باجوہ کی رضاکارانہ تاحیات توسیع تک محدود ہے۔اس میں 'بے لچکی‘کہاں سے آگئی؟
بارِدگر عرض ہے کہ عمران خان اور اُن کے رفقا کو انصاف ملنا چاہیے۔ ان کے آئینی حقوق پامال نہیں ہونے چاہئیں۔ عدلیہ انہیں ''سسیلین مافیا‘‘ اور ''گاڈ فادر‘‘ والا نہیں حقیقی عدل دے۔ وڑائچ صاحب نے تازہ ترین کالم میں کہا ہے کہ ''تحریک انصاف اپنے صلح پسند لیڈروں کو آگے لائے تاکہ وہ 'مقتدرہ‘ اور دوسری سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرکے کھلاڑی خان اور تحریک انصاف کیلئے راستہ کھولیں۔‘‘ یہی گزارش میں روزِاوّل سے کررہا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ راستہ کھلوانے کیلئے جنہیں 'مقتدرہ‘ کہاگیا ہے‘ میں انہیں چابی بردار کہہ رہا تھا۔
درست کہاگیا کہ ''جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔‘‘ نوازشریف ایکڑوں پر محیط‘ آلام ومصائب کی خودرو فصل‘ بغیر بوئے ہی کاٹ رہا ہے۔ عمران خان نے تو زہریلے نوکیلے کانٹوں کی فصل بڑی مشقت وریاضت سے بوئی۔ اور آج جب پک کر تیار ہوجانے والی یہ فصل خان صاحب کو کاٹنا پڑ رہی ہے تو ''مبلغّینِ مفاہت‘‘ کا تقاضا ہے کہ نوازشریف‘ خان صاحب کو تو کسی سایہ دار درخت تلے بٹھادے اور یہ فصل خود کاٹے۔
اور آخری بات یہ کہ باسی بھوسے کی جُگالی اور مُرجھا جانے والی دلیلوں کے گل دستے سجانے کا بے ذوق تماشا کب تک؟