گزشتہ ہفتے‘ تین معزز جج صاحبان نے‘ مختلف مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس‘ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ خود ہی جلد فیصلہ سنانے کے اصول پر عمل نہیں کرتی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ دسمبر 2023ء میں ہو گیا تھا جسے تحریر کرنے کی ذمہ داری جسٹس اطہر من اللہ کو سونپی گئی تھی۔ جسٹس صاحب کو یہ فیصلہ لکھنے میں 223 دن (ساڑھے سات ماہ) لگ گئے۔ اس سے قبل خصوصی نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلیں سننے کے حوالے سے قاضی صاحب کی یہ رائے ایک کے مقابلے میں دو ووٹوں سے ردّ کر دی گئی کہ ''کسی فریادی کی داد رسی‘ ججوں کی تفریحی تعطیلات سے زیادہ اہم ہوتی ہے‘‘۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اس مسلّمہ تصورِ انصاف کی طرف توجہ دلائی کہ ''ججوں کے فیصلوں کا سرچشمہ‘ اُن کا ضمیر یا جذبات نہیں‘ آئین اور قانون ہونا چاہیے‘‘۔
عزت مآب جسٹس اطہر من اللہ نے سات سمندر پار‘ نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئے اپنی عدالتوں کے کچھ میلے کچیلے کپڑے دھوئے اور امریکیوں کو بتایا کہ ہمارے ہاں مارشل لائوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب جب ڈکٹیٹر حملہ آور ہوئے‘ عدالتیں بند تھیں۔ اگر کھلی ہوتیں تو ہم دیکھتے کہ کون مائی کا لعل آئین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ دست بستہ گزارش ہے کہ عدالت کبھی بند نہیں ہوتی۔ وہ کریانے کی دکان نہیں کہ تالا پڑ گیا تو سودا خریدنا ممکن نہ رہا۔ عدالت چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے اور جج ہمہ وقت جج ہوتا ہے۔ ہماری عدالتوں نے جب چاہا‘ عدل گاہوں کے تالے کھول کر بیٹھ گئیں۔ جہاں تک چار مارشل لائوں کا تعلق ہے‘ عدالتیں کھلیں بھی تو منصفینِ کرام کی ساری توجہ کورنش بجا لانے‘ دستِ آمر پر بیعت کرنے اور اُس کی منہ زور خواہشات کی تکمیل کے لیے نظریۂ ضرورت میں نئے بیل بوٹے ٹانکنے پر مرکوز ہو گئی۔
مجھے 20 جون 2001ء یاد آ رہا ہے جب علی الصباح خبر چلی کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دستخطوں سے ایک حکم نامہ جاری کرکے منتخب صدر‘ محمد رفیق تارڑ کو معزول کر دیا ہے اور اپنے ہی دستخطوں سے جاری ایک اور فرمان کے تحت خود کو صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز کر لیا ہے۔ یہ بدھ کا دن تھا۔ سپریم کورٹ سمیت پاکستان بھر کی عدالتیں پورے طمطراق سے کھلی تھیں۔ ایوانِ صدر سے دس قدم دور واقع‘ سپریم کورٹ بدستور انصاف بانٹ رہی تھی۔ رفیق تارڑ ظہر کی نماز پڑھ کر لاہور چلے گئے۔ سرِشام‘ چیف جسٹس ارشاد حسن خان‘ لمبے مور پنکھوں والی عبا (جسے دو حاجبوں نے تھام رکھا تھا) پہنے ایوانِ صدر آئے۔ چیف آف آرمی سٹاف‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے عہدۂ صدارت کا حلف لیا‘ جھکتے ہوئے آداب بجا لائے اور اگلے دن پھر سے انصاف بانٹنے روانہ ہو گئے۔ کسی سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ صدر رفیق تارڑ کہاں ہیں؟
سو ہمارا مسئلہ بند نہیں‘ کھلی عدالتیں ہیں۔ پاکستان پر ٹوٹتی بیشتر قیامتوں کا صور کھلی عدالتوں ہی نے پھونکا۔ اس کا سلسلہ 1958ء کے پہلے مارشل لاء سے چار برس قبل 1954ء میں شروع ہو گیا تھا جب جسٹس منیر کی 'کھلی عدالت‘ نے اسمبلی پر گورنرجنرل کے حملے کو سندِ جواز عطا کرتے ہوئے مولوی تمیز الدین کو گھر بھیج دیا تھا۔ اب تو آئین کو مسخ کرنا‘ من مانی تشریح کرنا یا من پسند آئین لکھ لینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ ''کھلی عدالتیں‘‘ یہ سب کچھ ''کھلم کھلا‘‘ کرتی اور اسے ''کامل انصاف‘‘ سے تعبیر کرتی ہیں۔
ایسا ہی ایک 'دیدہ دلیر‘ فیصلہ 12 جولائی کو ''کھلی‘‘ سپریم کورٹ کے مطلعِ عدل پر مہر عالمِ تاب کی طرح طلوع ہوا۔ ''نظریۂ سہولت‘‘ سے کسبِ فیض کرتے ہوئے آئین کے ایک مرنجاں مرنج آرٹیکل 187 کے سیپ سے ''مکمل انصاف‘‘ کا گوہرِ تابدار نکال کے بتایا گیا کہ آئین میں چاہے کچھ بھی لکھا ہو‘ قانون کچھ بھی کہتا رہے‘ فیصلہ 'وسیع تر انصاف‘ کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس عجوبۂ روزگار فیصلے نے 'قانون‘ ہی کو نہیں آئین کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ پہلے تو آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق‘ اپنی خوش دلانہ مرضی سے سُنّی اتحاد کونسل میں شامل ہو جانے والے ارکان کو حکم صادر ہوا کہ تم سُنّی اتحاد کونسل کو چھوڑ دو (کچھ پتا نہیں کس قانون کے تحت) پھر ارشاد ہوا کہ بتائو تم نے الیکشن کس جماعت کی تائید سے لڑا اور فوراً اس میں شامل ہو جائو (کس قانون کے تحت کچھ خبر نہیں)۔ ''مکمل انصاف‘‘ کے اصول کے تحت یقینی بنایاگیا کہ سُنّی اتحاد کونسل سے نکل کر پھر سے آزاد ہو جانے والا کوئی رکن‘ آئین کے تحت اپنی آزادانہ مرضی سے کسی جماعت میں نہ جا سکے‘ سوائے پی ٹی آئی کے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 51 کی ذیلی شق '5۔ ای‘ قرار دیتی ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد ہر آزاد رکن کو تین دن کے اندر اندر کسی جماعت میں شامل ہونا ہو گا ورنہ وہ آزاد تصور ہوں گے۔ پی ٹی آئی حمایت یافتہ ارکان نے یہ حق استعمال کر لیا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ حق دوسری بار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور تین دن کی آئینی میعاد کو کس طرح پندرہ دفتری دنوں (Working Days) تک پھیلایا جا سکتا ہے؟ یہ آئین کی تشریح وتعبیر کا کون سا فارمولا ہے؟ صورتحال یہ ہے کہ 12 جولائی کے بعد اب تک چھ ہفتہ وار اور محرم کی دو تعطیلات آ چکی ہیں۔ لہٰذا پندرہ دفتری دنوں کی میعاد عملاً 23 دنوں پر محیط ہو گئی ہے جو کوئی اور چھٹی نہ آئی تو 4 اگست تک جاری رہے گی۔ اگر آئین میں واضح‘ دوٹوک اور غیر مبہم طور پر تین دن کی میعاد لکھ دی گئی ہے تو یہ 23 دنوں تک کیسے پھیلائی جا سکتی ہے؟ آئین کے ساتھ ساتھ‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کی درجنوں شقیں ''مکمل انصاف‘‘ کی بھٹی میں جھونک دی گئی ہیں۔ نظر ثانی درخواستوں کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ وہ تعطیلات گزر جانے پر‘ 9 ستمبر کے بعد ہی لگیں گی۔ تب تک فیصلے پر کیا گزرتی ہے؟ کسی کو خبر نہیں۔
ایسا ہی ایک فیصلہ عالی مرتبت عمر عطا بندیال کی 'کھلی عدالت‘ نے مئی 2022ء میں دیا تھا جب آئین کے آرٹیکل 63 (1) میں خود ہی اپنی آئین نویسی کا پیوند لگا کر حمزہ شہباز کی حکومت کو گھر بھیجنے اور تحریکِ انصاف کو تخت پر بٹھانے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔
'کھلی عدالتوں‘ کے ایسے ہی کرشمہ ساز فیصلوں کے باعث ہماری عدلیہ دنیا کے 142 ممالک میں سے 130 اور خطے کے چھ ممالک میں سے پانچویں نمبر پر ہے۔ کاش تعطیلات کا دورانیہ کچھ اور بڑھا دیا جائے اور ہماری عدالتیں سال کا بیشتر حصہ بند رہا کریں۔ سپریم کورٹ میں پچپن ہزار مقدمات پہلے ہی زیر التوا پڑے ہیں۔ یہی ہو گا کہ کچھ اور بڑھ جائیں گے‘ آئین و قانون کی رسوائی تو نہ ہو گی۔ کالم تمام ہو رہا ہے اور ابھی ابھی ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ذہن میں لپکا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے بقول‘ اگر عدالتیں کھلی ہوتیں تو 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف‘ ایک منتخب وزیراعظم کا تختہ نہ اُلٹ سکتا۔ بجا‘ لیکن اس صورت میں جج صاحب کو پرویز مشرف کے عہدِ جمہور میں کم وبیش دو سال تک پانچ اہم وزارتوں کے حامل انتہائی معتبر صوبائی وزیر کا مقامِ بلند کیسے ملتا؟ یہ کوئی کم زیاں ہوتا؟