(یہ کالم کوئی ساڑھے سات ماہ قبل‘ دو جنوری 2024ء کو شائع ہوا تھا۔ تب اس کا عنوان تھا ''9 مئی! دھند گہری ہو رہی ہے‘‘۔ قندِ مکرر کے طور پر وہی پرانا کالم پیشِ خدمت ہے اس سوالیہ تجسس کے ساتھ کہ ''کیا دھند چھٹنے لگی ہے؟‘‘)
9 مئی کی منصوبہ بند غارت گری پر مسلح افواج کا ردّعمل قطعی‘ غیر مبہم اور دوٹوک تھا۔ کہا گیا ''یہ قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ سیاست کا لبادہ اوڑھے اقتدار پرستوں نے وہ کچھ کرڈالا جو پچھتر سالوں میں ہمارا دشمن بھی نہ کر سکا۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت (Rebellion) کی آگ بھڑکانے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جائے گا۔ فسادیوں کے بدنما چہرے انسانی حقوق کے پُرفریب پردوں میں چھپنے نہیں دیں گے۔ 9 مئی کو بھلائیں گے نہ معاف کریں گے۔ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش (Conspiracy) ہے۔ منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایاگیا تو کل کوئی اور سیاسی گروہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے یہی کچھ کرے گا‘‘۔ یہ بیانیہ تواتر سے دہرایا جاتا رہا۔
بلاشبہ9 مئی سیاق وسباق سے آزاد یکایک رونما ہوجانے والا ہنگامی حادثہ نہ تھا۔ واقعاتی شہادتوں (Circumstantial Evidence) پر نظر ڈالی جائے تو ایک مربوط کہانی سامنے آتی ہے۔ اس زنجیر کی پہلی کڑی 16 جون 2019ء کا دہکتا ہوا دن تھا جب ملکی تاریخ میں بطور آئی ایس آئی سربراہ‘ سب سے مختصر وقت‘ صرف آٹھ ماہ بعد جنرل عاصم منیر کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ قصور یہ بتایا جاتا ہے کہ مصلحت ناشناس جرنیل نے ٹھوس شواہد کے ساتھ اپنے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ سنگین قسم کی کرپشن نے ان کے گھر میں راہ بنالی ہے۔ تند خو وزیراعظم نے اسی شام اپنی زرخیز کِشتِ انتقام میں‘ جنرل عاصم کے حوالے سے تخم عناد کاشت کیا۔ فوراً بعد عاصم منیر کی مسند سنبھالنے والے جنرل فیض حمید بڑی محنت اور لگن سے اس میں کھاد ڈالتے اور پانی لگاتے رہے۔ بطور ڈی جی (سی) وہ نواز شریف کا بھاری پتھر راستے سے ہٹانے اور 2018ء کے انتخابات سے عمران خان کی کامرانی کشید کرنے کا کارِ عظیم سر انجام دے کر خان صاحب کے مخصوص گوشۂ دل میں جگہ بنا چکے تھے۔ تعلقات کی گرم جوشی سے سازش کی دوسری کڑی نے جنم لیا۔ ''سنیارٹی لسٹ پہ پہلے جرنیل‘ عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں بننے دینا‘‘۔ اسی کے ساتھ جڑی تیسری کڑی یہ تھی کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لمبی ہم سفری کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی۔
اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے اس منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ خان صاحب تو گھر چلے گئے لیکن فیض حمید زیادہ سرگرم ہو گئے۔ انہی دنوں نادرا سے جنرل عاصم کے اہلِ خانہ کی سفری تفصیلات چرائی گئیں۔ پھر مسلک کے نام پر ایک دوست اسلامی ملک کو بھڑکانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ کڑیاں جڑتی رہیں‘ کہانی آگے بڑھتی رہی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کے مشن میں جنرل باجوہ کو بھی شریک کر لیا گیا۔ خان صاحب انگاروں پہ لوٹتے اور آرمی چیف کی تقرری کے حساس موضوع کو چوکوں چوپالوں میں اچھالتے رہے۔ ''ہم سفروں‘‘ کے باہمی رابطوں نے نئے چیف کی تقرری سے قبل‘ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک بڑا طوفان بپا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کیلئے 26 نومبر کی تاریخ طے پائی۔ خان صاحب زخمی ٹانگ کے باوجود نکلے لیکن عوام نے ساتھ نہ دیا۔ سمندر تو کیا وہ لاہور سے نیم جاں راوی بھی ہمراہ نہ لا سکے۔ ساری دنیا کے معتبر میڈیا نے عاصم منیر ہی کو اس لانگ مارچ کا ہدف قرار دیا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی گواہی ریکارڈ پر ہے۔ ''میں نے عمران خان سے کہا کہ ہمارے بلدیاتی انتخابات کے باعث لانگ مارچ دو دن آگے کر دیا جائے تو خان صاحب بولے ''ہمیں عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنا ہے۔ وہ ا ٓگیا تو کیا فائدہ مارچ کا‘‘۔
اور وہ آ گیا۔ ساری تدبیریں دھری رہ گئیں۔ دل شکستہ فیض حمید بھی گھر چلے گئے لیکن ''بغضِ منیر‘‘ کی آگ دونوں ہمسفروں کے دلوں میں بھڑکتی رہی۔
اکتوبر2022ء میں معروف صحافی ارشد شریف کے قتل اور نومبر 2022ء میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تمام تر تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آ سکیں لیکن دونوں کا فائدہ ''ہمسفروں‘‘ نے اٹھایا اور وارداتوں کا رُخ فوجی قیادت کی طرف موڑ دیا۔ خان صاحب نام لے لے کر کوسنے دینے لگے۔ بات نہ بنی تو آخری چارہ کار کے طور پر‘ فیصلہ کن یلغار کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ تین درجاتی سازش تھی۔ فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے‘ فوج کو مشتعل کرنا‘ پی ٹی آئی کارکنوں سے تصادم‘ خونریزی اور لاشیں پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرا مرحلہ اس صورتحال کی بنیاد پر فوج کے اندر ارتعاش اور اشتعال پیدا کرنا اور حتمی طور پر جسٹس بندیال کے ذریعے آرمی چیف کو معزول کرا کے کسی اور کو مسند پر بٹھانا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا ہو جاتا تو ملک وقوم پر کیا گزرتی۔ عمران خان کے تیروں کا رخ اس کے بعد بھی جنرل عاصم منیر ہی کی طرف رہا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرے میں بیٹھے ہوئے بی بی سی کو بتایا ''میرے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایجنسیاں نہیں صرف آرمی چیف عاصم منیر کر رہا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اگر میں اقتدار میں آ گیا تو اسے عہدے سے ہٹا دوں گا‘‘۔
جنرل عاصم منیر کی آئی ایس آئی سے فراغت اور بی بی سی کو انٹرویو تک‘ چار سالوں پر محیط واقعاتی شہادتیں ایک ایسی مربوط کہانی بناتی ہیں جس میں کوئی جھول نہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اس ''بغاوت‘‘، ''سازش‘‘ اور ''سرکشی‘‘ کے بارے میں فوج کی آتشیں حساسیت‘ میڈیا‘ عوام اور دوسرے اداروں تک نہیں پہنچائی جا سکی۔ سمندر پار والوں کو بھی نہیں بتایا جا سکا کہ جن لوگوں کے حقوق کی تم دہائی دے رہے ہو‘ انہوں نے برطانیہ کے چھ اگست 2011ء اور امریکہ کے چھ جنوری 2021ء سے کہیں زیادہ بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب تک متعیّن افراد پر متعیّن مقدمات کا دفتر بھی نہیں کھلا‘ کسی فوجی یا غیرفوجی عدالت میں ''9 مئی بنام...‘‘ کی پکار بھی نہیں پڑی۔
اس تغافل کی ذمہ داری جس پر بھی ہے‘ اس کا فائدہ‘ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔ 9 مئی کو سرمایۂ افتخار سمجھنے اور منصوبہ ساز قیادت سے وفا کا دم بھرنے والے‘ عمومی سیاست کے بے داغ اور سادہ ومعصوم کردار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کے واضح عزم کے باوجود ''بدنماچہرے‘‘ انسانی حقوق کے ''پُر فریب پردے‘‘ میں چھپ رہے ہیں۔ فوج جس شخص کو 9 مئی کا مرکزی کردار اور منصوبہ ساز سمجھتی ہے‘ عدالت اسے معصوم قرار دے کر اس کے پیروکاروں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ جائیں اور اسی کردار سے ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی حکمتِ عملی پر مشاورت کریں۔ عدلیہ اور فوج کی سوچ کا یہ تضاد تشویشناک منطقے میں داخل ہو رہا ہے۔
اگر فوج کے بقول 9 مئی ''ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ معافی‘‘ ہے تو بلاتاخیر تمام شواہد کے ساتھ ''بغاوت اور سازش‘‘ کی جزئیات کو سامنے لایا جائے تاکہ میڈیا‘ عوام اور عدلیہ تک واضح پیغام جا سکے کہ ان کا سابقہ کن لوگوں سے پڑا ہے۔ معاملات اس لیے الجھ رہے ہیں کہ 9 مئی کی سنگینی ابھی تک پوری طرح آشکار نہیں کی جا سکی۔ طویل خاموشی کے باعث دھند گہری ہو رہی ہے۔ صفر تک محدود ہوتی حدِ نگاہ کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔