24 نومبر کی ''فائنل کال‘‘ پی ٹی آئی کی نگاہ میں اس لیے ناکام ونامراد نہیں ٹھہری کہ وہ ڈی چوک پہنچ کر اپنے عزائم کے خاکے میں رنگ نہیں بھر سکی۔ اُس کے نزدیک شکستِ آرزو کا نوحہ یہ ہے کہ حسبِ توقع لاشیں نہیں گریں‘ حسبِ تشنگی خون نہیں بہا اور حسبِ تسکین غارت گری نہیں ہوئی۔ پارٹی کے اندر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے اور منہ نوچنے کا تماشا ''لاشوں‘‘ کی تعداد پر لگا ہے۔ ''حسب توفیقِ دروغ گوئی‘‘ مختلف اعداد وشمار دیے جا رہے ہیں۔ بات نہیں بن پا رہی تھی کہ گوئبلزکی روح نے سرگوشی کی۔ ''لاشیں چھوڑو۔ ثابت کرنا پڑیں گی۔ یہ کہو کہ ہمارے ہزاروں لوگ لاپتا ہیں‘‘۔ سو اَب یہی فرمانِ امروز ہے۔
احتجاج ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ دنیا کے 195 ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جہاں پُرامن احتجاج کا حق بے مہار‘ لامحدود‘ غیر مشروط اور تمام حدود وقیود سے آزاد ہو۔ شہری آزادیوں کو اپنا تفاخر سمجھنے والے مہذب جمہوری ممالک نے ''پُرامن احتجاج‘‘ کے حق کو نہایت کڑے ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 16 دسمبر 1966ء کو منظور کردہ چارٹر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جو ''انٹرنیشنل کانوینٹ آن سول اینڈ پولیٹکل رائٹس‘‘ (ICCPR) کے نام سے معروف ہے۔ یہ پروٹوکول 23 مارچ 1976ء سے باضابطہ طور پر نافذ العمل ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے اُن 176 ممالک میں شامل ہے جو اس کے دستخطی ہیں۔ اس بین الاقوامی عہدے نامے میں کہاگیا ہے:
"The right of peaceful assembly shall be recognised. No restrictions may be placed on the exercise of the right other than those imposed in conformity with the law and which are necessary in a democratic society in the interest of national security or public safety, Public Order, the protection of public health or morals or the protection of the rights and freedom of others".
'' پُرامن احتجاج کا حق تسلیم کیا جائے گا اور ایسے پُرامن اجتماعات پر اُن پابندیوں کے سوا کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی‘ جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں قومی سلامتی‘ عوامی جان ومال کے تحفظ‘ امنِ عامہ‘ عوامی صحت‘ اخلاقیات یا دوسرے لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ملکی قوانین کے تحت عائد کی جاتی ہیں‘‘۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پُرامن اجتماع کا حق کتنی کڑی شرائط کی زنجیروں میں بندھا ہے۔ جب بھی کسی مہذب جمہوری ملک میں کوئی جماعت یا تنظیم‘ کوئی احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو اُسے بیسیوں قانونی ضابطہ بندیوں سے گزر کر اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اجتماع کا مقصد کیا ہے؟ منتظمین کون ہیں؟ اُن کے مکمل کوائف کیا ہیں؟ احتجاج کتنے بجے شروع اور کتنے بجے ختم ہو گا؟ اس کا رُوٹ کیا ہے؟ برطانیہ میں پولیس کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ کسی بھی وقت احتجاج کا روٹ بدل دے۔ اُس میں شرکا کی تعداد محدود کر دے‘ احتجاج کا دورانیہ کم کر دے اور طے کرے کہ کون سا میگا فون‘ استعمال کیا جا سکتا ہے جو عام لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ برطانیہ میں دو سال قبل منظور کیے جانے والے قانون ''پولیس‘ کرائم‘ سینٹینسنگ اینڈ کورٹس ایکٹ 2022ء‘‘ نے بغیر اجازت اجتماع کو کڑا جرم قرار دیتے ہوئے 'پُرامن احتجاج‘ کے حق کو نہایت سخت شرائط سے جوڑ دیا ہے۔
اب ذرا پی ٹی آئی کی ''پُرامن فائنل کال‘‘ کے تیور دیکھیے۔ جان بوجھ کر 24 نومبر کی تاریخ اس لیے دی گئی کہ اُس دن بیلاروس سے ایک بڑا وفد اور اس کے صدر پاکستان آ رہے تھے۔ اس سے پہلے 15 اکتوبر کو اسلام آباد ''امن مارچ‘‘ کیلئے وہ وقت چُنا گیا جب شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کیلئے سینکڑوں مندوب اسلام آباد میں تھے۔ اُس مارچ کے دوران‘ ایک پولیس اہلکار کو بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا گیا۔ 24 نومبر کے ''پُرامن احتجاج‘‘ کے لیے کسی بھی ملکی قانون کے تحت کسی بھی مجاز اتھارٹی کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ کسی بھی عدالت سے اجازت حاصل نہ کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ پشاور سے روانہ ہوتے وقت ''پُرامن احتجاج‘‘ کا عزم کرتے ہوئے 'الجہاد الجہاد‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ سروں سے کفن باندھے گئے۔ ''مارو یا مرجائو‘‘ کا جنگی سلوگن دیاگیا۔ صوبے کے انتظامی سربراہ نے کہا ''ہم جا رہے ہیں‘ اپنا مقصد پائیں گے یا مر جائیں گے۔ واپس نہ آئیں تو ہمارے جنازے پڑھ لیں‘‘۔ پھر اسے 'پانی پت‘ کی جنگ قرار دیا۔ گاڑیاں برازیل ساختہ آنسو گیس کے شیلز سے بھری گئیں۔ جدید اسلحہ ٹھونسا گیا۔ راستے کی ہر رکاوٹ اٹھا کر پھینک دی گئی۔ اٹک پہنچے تو پولیس پر یلغار کرکے 147 اہلکاروں کو زخمی کر دیا جن میں سے درجن بھر جان کنی کے عالم میں ہیں۔ موٹر وے کی ہر علامت کو توڑتے پھوڑتے‘ پاس پڑوس کے نوزائیدہ درختوں کو آگ لگاتے‘ بپھرے ہوئے آتش فشانی لاوے کی طرح ڈی چوک کا رُخ کرتے ''پُرامن‘‘ لوگوں نے ہر ریاستی قانون اور ضابطے کی دھجیاں اڑا دیں۔ گنڈا پور نے ٹول پلازے کا بیریئر توڑ پھینکا۔ کسی گاڑی نے ٹیکس نہیں دیا۔ اسلئے کہ یہ ''پُرامن سیاسی احتجاج‘‘ بیلاروس سے آئے معزز مہمانوں کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرنے آ رہا تھا۔ سو اس پُرامن احتجاجی کارواں کے شرکا نے جدید غلیلوں کے ذریعے بھی کئی کئی فرلانگ دور کھڑے اہلکاروں پر تازہ گلاب کے پھول پھینکے۔
اس پُرامن احتجاجی قبیلے کا ایک ماضی بھی ہے۔ تھانے کی کسی ہسٹری شیٹ جیسا شاندار ریکارڈ بھی‘ جسے تھانیدار ''بستہ ب‘‘ کہتا ہے۔ مثلاً تحریری معاہدوں اور یقین دہانیوں سے انحراف‘ آبپارہ کہہ کر شاہراہ دستور پر ڈیرے ڈالنے‘ پی ٹی وی پر حملہ اور قبضہ‘ پارلیمنٹ ہائوس‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس پر حملے‘ پولیس اہلکاروں پر سرِعام ظالمانہ تشدد‘ پٹرول بم اور سب سے بڑھ کر نو مئی‘ جب اڑھائی سو سے زیادہ فوجی تنصیبات روند ڈالی گئیں‘ شہدا کے مزار اُدھیڑ دیے گئے اور فضائیہ کے طیارے نذر آتش کر دیے گئے۔
'بیانیہ‘ ملاحظہ فرمائیے کہ ''پُرامن سیاسی احتجاج ہمارا حق تھا لیکن ریاست نے قتلِ عام کر دکھایا‘‘۔ کوئی ایک معتبر دلیل تو دو کہ تم ملکی آئین وقانون کی پاس داری کرنے والے پُرامن سیاسی کارکن تھے؟ رہی ریاست تو وہ سادھو‘ راہب اور درویشِ خدا مست نہیں ہوتی کہ کوئی گنڈاپور اُسکے رخسار پر طمانچہ مارے اور وہ دوسرا رخسار آگے کر دے۔ آئین ریاست کو اتھارٹی دیتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور آئینِ پاکستان کے مطابق شرپسندوں سے نمٹے۔
26 مئی کو ریاست نے بے مثل صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ اپنے آئینی اختیار کو بھی بروئے کار نہ لائی۔ چار اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی کرا بیٹھی۔ اس پر بھی ہاہاکار مچی ہے۔ تصور کیجئے کہ ہر قسم کے کنٹرول اور کمانڈ سے عاری یہ فسادی اور انتشاری گروہ ریڈ زون میں داخل ہو جاتا تو کیا حشر بپا ہوتا‘ پہلو میں واقع اس پانچ ستارہ ہوٹل پر کیا گزرتی جس میں بیلاروس سے آئے معزز مہمان ٹھہرے ہوئے تھے؟کشتِ وطن میں امن ومحبت کی فصلِ گُل کاشت کرنیوالے 'قافلہ سالار‘ نے ٹھیک 10سال پہلے شاہراہِ دستور پر کھڑے ہوکر فرمانِ انقلاب جاری کیا تھا ''میرے پاکستانیو! سول نافرمانی کیلئے کمر کس لو۔ ٹیکس نہ دو‘ بجلی گیس کے بل جلا دو‘ باہر سے پیسے ہُنڈی کے ذریعے بھیجو‘‘ 'قافلہ سالار‘ کی روح پرور قیادت میں امن ومحبت کے نغمے الاپتا‘ حلقۂ رومی کے رقصِ درویش کے دائرے بُنتا کارواں‘ دس سال پہلے والے اسی ''نقطۂ وجد‘‘ پہ آ کھڑا ہوا ہے جہاں سے اُس نے سماع کا آغاز کیا ''میرے پاکستانیو! سول نافرمانی کیلئے تیار ہو جائو‘‘۔''کیا یہ واقعی سیاسی جماعت ہے؟‘‘