جنگ کے بعد کا منظر نامہ!

کیا پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی ایک نئی بساط بچھنے جا رہی ہے؟ اور کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''تاجرانہ حرکیات‘‘ بھارت کی ہٹ دھرمی کو موم کر پائیں گی؟ ان سوالات کا واضح جواب آنے میں کچھ وقت لگے گا۔
ٹرمپ جلدی میں لگتے ہیں۔ وہ ایک طاقتور عالمی رہنما کی حیثیت سے اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی کشمیر‘ پانی اور دہشت گردی جیسے مسائل پر جامع مذاکرات کیلئے اپنی آمادگی ظاہر کر چکا ہے لیکن بھارت ابھی تک سناٹے کی کیفیت میں ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں غیر متوقع شکست نے اُس کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ اس سے جڑی ایک اور ہزیمت یہ ہوئی کہ آزمائش کی اس گھڑی میں بھارت تنہا رہ گیا۔ اسرائیل نے پاکستان دشمنی کے باعث اُسے بہت کچھ دیا لیکن بھارت کو کہیں سے بھی وہ توانا سفارتی حمایت نہیں ملی جو شدید اعصابی دبائو کے جنگی ماحول میں سیاسی قیادت کا حوصلہ بڑھاتی اور افواج کے عزم کو تھپکی دیتی ہے۔ بڑی طاقتوں میں سے چین ڈٹ کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ روس‘ جو کبھی بھارت کا گرم جوش دوست تھا‘ غیر جانبداری کی چادر اوڑھے بیٹھا رہا۔ برطانیہ اور فرانس دفتر خارجہ کی ٹیکسال میں ڈھلے رسمی بیانات سے آگے نہ بڑھے۔ نریندر مودی کو یقین تھا کہ کسی بھی تنازع میں صدر ٹرمپ بھارت کی کھلی حمایت کریں گے اور پاکستان کو بھارت کی آنکھ سے دیکھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ امریکہ نے نہایت جچے تلے متوازن انداز میں‘ دونوں ممالک کو ایک ہی سطح پر رکھتے ہوئے‘ ساری توجہ جنگ بندی پر مرکوز رکھی۔ عمومی گفتگو میں سفارتی آداب اور تقاضوں کو زیادہ اہمیت نہ دینے کی شہرت رکھتے ہوئے بھی‘ صدر ٹرمپ اس معاملے میں بہت محتاط رہے۔ ٹرمپ کا یہ رویہ پاکستان کیلئے نہایت حوصلہ افزا‘ لیکن بھارت کی توقعات کے برعکس تھا۔ سو اُسے شدید مایوسی ہوئی۔
یہ بات تو اب محتاجِ بحث نہیں رہی کہ پہلگام بھارت کے کسی کام نہیں آیا۔ دہشت گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کے محرکات جو بھی ہوں‘ بھارت نے سوچے سمجھے بغیر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر نہایت بے حکمتی کا مظاہرہ کیا۔ اس احمقانہ عجلت نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ امریکہ کے نائب صدر تب بھارت کے دورے پہ تھے لیکن اُنہیں بھی قائل نہ کیا جا سکا کہ پہلگام پاکستان کی کارستانی ہے۔ یہاں سے مودی کی جھنجھلاہٹ کا پارہ چڑھنا شروع ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اس پیشکش کو بھی رد کر دیا گیا کہ پاکستان کسی بھی معتبر عالمی فورم سے شفاف تحقیقات کیلئے تیار ہے۔ پاکستان کا بیانیہ عالمی ضمیر کے قریب تر ہوتے ہوئے قوت پانے لگا تو مودی کا غضب کھولائو کی آخری سطح تک آن پہنچا اور پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ پاکستان نے کمال تحمل سے خود کو سختی سے دفاعی حکمت عملی تک محدود رکھا۔ شر انگیزی نہ رُکی تو ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ کی ضربِ کاری نے بھارت کے غرور وتکبر کو زمیں بوس کر دیا۔ اب مودی کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ اپنے 'سندور‘ کو ہمارے ''بُنیانٌ مّرصوص‘‘ کے مدّمقابل لا کھڑا کرتا اور ہر چہ بادا باد کہتے ہوئے پنجہ آزمائی کی جرأت دکھاتا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے مزید کاری زخم کھانے کے بجائے امریکہ سے التجا کرتا کہ ہم تو جنگ بندی کو تیار ہیں‘ پاکستان کو سمجھائیں۔ شکست خوردہ مودی نے دوسرا راستہ چُنا۔ سو جب امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کی التماس پاکستان تک پہنچائی تو اُس نے آمادگی ظاہر کردی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ تیسری کھلی جنگ‘ بہت مختصر رہی لیکن اس کے اثرات ونتائج محدود نہیں رہیں گے۔ بھارت کو نہایت واضح اور غیر مبہم پیغام مل گیا ہے کہ اُس کی جنگی مشینری پاکستان کو زیر کرنے کی سکت نہیں رکھتی بلکہ پاکستان اتنا توانا ہو چکا ہے کہ وہ بھارت کی جنگجویانہ مہم جوئی کی کمر توڑ کر اُسے شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔ بھارت کو اپنی سفارتی کم مائیگی کا علم بھی ہو گیا ہے۔ اُسے یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ کچھ بھی کر لیا جائے‘ مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ یہ بھی جان گیا ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ دیرینہ سیاسی وسفارتی صف بندیاں‘ زمینی صداقتوں اور اخلاقی معیارات کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ اس مختصر جنگ نے مودی کے تفاخر کی اُڑان کے پَر بھی بُری طرح نوچ ڈالے ہیں۔ وہ خود اپنے ملک کے اندر سے شدید دبائو کی زد میں ہے۔ پاکستان سے جنگ بندی کے بعد اب اُسے اپنے ڈیڑھ ارب عوام سے طویل جنگ لڑنا ہو گی کیونکہ یہ بے ثمر معرکہ تیزی سے اُسے اپنے سیاسی مَرگھٹ کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اللہ تعالی نے پاکستان کو کئی گُنا بڑے دشمن کے ساتھ جنگ میں فتحِ مبین سے نوازا ہے۔ اُس کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ملکی اقتدار پر قابض جرنیلوں کی قیادت میں لڑی گئیں جس کے سبب سیاسی حکمت کاری کا فقدان رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام نے اُن جنگوں میں بھی کھل کر اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی سیاسی چہرہ نہ ہوتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے نقطۂ نظر کی پذیرائی میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ بھارت کے ساتھ یہ پہلی جنگ تھی جو منتخب سیاسی حکومت کے پرچم تلے لڑی گئی۔ وزارتِ خارجہ نے نہایت مؤثر اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور عسکری قیادت کی ہم آہنگی اور فیصلہ سازی میں بامعنی مشاورت نے ملکی نظم کو ایسا پُراعتماد مورچہ بنا دیا جو دشمن سے پنجہ آزمائی کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی پارلیمانوں نے نہ صرف پاکستان کے جمہوری تشخص کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا بلکہ سیاسی تفریق سے ماوریٰ ہوکر قومی اتحاد ویکجہتی کا پیغام بھی دیا۔ پاکستانی میڈیا نے پیشہ ورانہ بلوغت اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میدان میں بھی بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
مختصر سی جنگ نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا ہی نہیں منوایا‘ اُن کی عزت وتکریم میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ سپہ سالار‘ سید عاصم منیر کو ہر آن نیزے کی اَنی پر رکھنے اور پست بازاری سوچ میں لت پت غلیظ مہم کا نشانہ بنانے والی سپاہ کو مودی سے بھی زیادہ شرمناک شکست ہوئی ہے۔ ہماری اٹھہتر سالہ تاریخ میں فتحِ عظیم کا یہ تمغۂ اعزاز حافظ سید عاصم منیر کے سینے کی زینت بنا ہے۔ بلاشبہ عزت اور ذلت کے فیصلے اللہ ہی کی بارگاہِ خاص میں ہوتے ہیں۔ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا نام بھی دفاعِ وطن کی درخشاں تاریخ کا حصہ رہے گا۔ یہ فتح اُن بے سمت طفلانِ خود معاملہ کیلئے بھی ایک پیغام چھوڑ گئی ہے جو وطن کے باہر یا اندر بیٹھے‘ وطن فروشی کے لقمۂ تر سے شکم سیر ہو رہے ہیں کہ پاکستان‘ کسی فردِ واحد کے مدار میں گردش کرنے والا سیارہ نہیں‘ ایک مستحکم نظام رکھنے والی زندہ وپائندہ ریاست ہے۔ کسی فرد پر دائر فوجداری مقدمات اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں اُس کی قید کو ''وسیع تر سیاسی عدم استحکام‘‘ کا نام دے کر ڈرانے والوں کو اب معلوم ہو جانا چاہیے کہ پاکستان نے اس ''سیاسی عدم استحکام‘‘ کے باوجود‘ شدید اقتصادی بحران پر قابو بھی پا لیا ہے اور ساڑھے تین گھنٹوں میں دشمن کے دانت بھی کھٹّے کر دیے ہیں۔ سو محض اپنی کشتِ بُغض کی آبیاری کیلئے ''سیاسی عدم استحکام‘‘ کا ماتم کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ نئے منظر نامے کو نئے زاویے سے دیکھا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں