یہ دسمبر 2015ء کا ذکر ہے۔ علم دوست صدرِ پاکستان‘ ممنون حسین (مرحوم) نے مجھے یاد کیا۔ دل سوزی اور درد مندی سے اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ اور علمی وادبی اداروں کی عدمِ فعالیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ''کیوں نہ جگہ جگہ بکھرے پڑے‘ بے حس اور نااہل وزارتوں کی چکّی میں پستے‘ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے تمام اداروں کو یک جا کرکے ایک الگ وزارت کی چھتری تلے دے دیا جائے؟‘‘ میں نے اس تجویز کو سراہا۔ کچھ ہی دنوں بعد مجھے وزیراعظم کے دفتر سے بلاوا آیا۔ طویل میٹنگ کے دوران پرنسپل سیکرٹری فواد حسن نے علمی وادبی اداروں کے بارے میں ایک جامع بریفنگ دی اور ایک نئے ڈویژن کے قیام کا انتظامی نقشۂ کار پیش کیا۔ وزیراعظم نواز شریف بولے ''یہ ایک قومی مشن ہے۔ صدر ممنون حسین اور میرا مشترکہ فیصلہ ہے کہ آپ ا س ڈویژن کی کمان سنبھالیں۔ ان اداروں کو فعال کریں۔ اس سلسلے میں آپ کو میرا بھرپور تعاون حاصل رہے گا‘‘۔
5 جنوری 2016ء کو ''قومی تاریخ وادبی ورثہ‘‘ (National History and Literary Heritage) کے نام سے ایک نئے ڈویژن کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔ کہنہ مشق بیورو کریٹ محسن حقانی اس کے پہلے وفاقی سیکرٹری بنے۔ سات آٹھ ماہ بعد اُن کی جگہ ایک نہایت ہی فعال اور متحرک سینئر بیورو کریٹ عامر حسن آ گئے جو مئی 2018ء تک ہمارے ساتھ رہے۔ نئے ڈویژن کی ذمہ داریوں میں اکادمی ادبیات پاکستان‘ ادارۂ فروغِ قومی زبان‘ نیشنل بُک فائونڈیشن‘ اردو سائنس بورڈ‘ اردو لغت بورڈ‘ اقبال اکادمی‘ ایوانِ اقبال‘ قائداعظم اکادمی‘ قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ نیشنل لائبریری‘ محکمہ آثارِ قدیمہ اور عجائب گھر شامل تھے۔
مجھے ان اداروں کی جانچ پرکھ کرنے‘ ان کے شاندار ماضی اور اُٹھان کے محرکات سمجھنے اور تنزل کے اسباب کا جائزہ لینے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ ان اداروں کے بانیوں اور کسی نہ کسی حیثیت میں ان کی نشوونما کرنے والی شخصیات کے ناموں پر نظر ڈالی تو حدِ نگاہ تک ایک جادۂ کہکشاں کھلتا چلا گیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘ ڈاکٹر ابوللیث صدیقی‘ ڈاکٹر فرمان فتحپوری‘ جوش ملیح آبادی‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ جمیل الدین عالی‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ اشفاق احمد‘ پروفیسر مرزا محمد منور‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ شفیق الرحمان‘ ڈاکٹر رفیع الدین‘ شہرت بخاری‘ ڈاکٹر حنیف فوق‘ احمد فراز‘ فہمیدہ ریاض‘ حنیف رامے‘ پریشان خٹک‘ غلام ربانی اگرو‘ ممتاز حسن‘ شائستہ اکرام اللہ‘ پیر حسام الدین راشدی‘ شان الحق حقی‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ رازق الخیری‘ پروفیسر شریف المجاہد‘ ڈاکٹر زوار حسین زیدی‘ ڈاکٹر محمد علی صدیقی‘ پروفیسر سحرانصاری‘ امجد اسلام امجد اور جانے اپنے عہد کے اور کون کون سے مہرِ درخشاں۔
میں نے کمان سنبھالی تو بیشتر ادارے باضابطہ سربراہوں سے محروم‘ اضافی الائونس اور مراعات پانے والی افسر شاہی کے تسلط میں تھے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگتی تھی کہ ان اداروں کے سربراہوں کیلئے اشتہار جاری ہوں‘ صاحبانِ علم ودانش عرضیاں داغیں اور اپنے عمر بھر کے سرمایۂ علم وادب کے بستے اٹھائے‘ انٹرویو کیلئے سرکاری افسروں کے روبرو حاضری دیں۔ میں نے وزیراعظم کو قائل کرکے اس طریقہ کار سے استثنیٰ کے احکامات جاری کرائے۔ ایک معتبر 'سرچ کمیٹی‘ تشکیل دی۔ پہلے مرحلے میں اکادمی ادبیات کیلئے افتخار عارف‘ اردو لغت بورڈ کیلئے عقیل عباس جعفری‘ قائداعظم اکیڈمی کیلئے خواجہ رضی حیدر اور اُردو سائنس بورڈ کیلئے ناصر عباس نیّر کا انتخاب ہوا۔ ان میں سے کسی نے 'نوکری‘ کی درخواست نہیں دی۔ ہم نے خود اُن سے منصب سنبھالنے اور نیم جاں اداروں کی مسیحائی کی التماس کی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کارکردگی کے پیش نظر انہیں عہدے پر برقرار رکھا گیا۔ افتخار عارف سے رسمی سلام دعا کے علاوہ میری کسی سے ذاتی شناسائی تھی نہ کوئی تعلق۔
علمی وادبی تقریبات‘ بین الاقوامی کانفرنسوں‘ نمائشوں‘ کتاب میلوں اور سیمینار وغیرہ کیلئے مالی مشکلات کا مرحلہ سامنے آیا تو میں نے وزیراعظم سے پچاس کروڑ روپے کے انڈائومنٹ فنڈ کی درخواست کی۔ انہوں نے یہ فنڈز جاری کر دیے جو نیشنل بینک میں جمع کرا دیے گئے۔ مجھے نہیں معلوم مئی 2018ء کے بعد سے اس رقم کے سالانہ منافع کو کہاں استعمال کیا جا رہا ہے یا یہ جامد علمی سرگرمیوں کے باعث اصل زر میں جمع ہو رہا ہے۔
جنوری 2016ء سے مئی 2018ء تک تقریباً اڑھائی برس کے دوران اس نوزائیدہ ڈویژن کی کارکردگی کیسی رہی‘ اس کا ذکر میں پھر کسی کالم میں کروں گا لیکن اللہ کے فضل وکرم سے مجھے اطمینانِ کامل ہے کہ میں نے صدر اور وزیراعظم کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی۔
اور اب سرکاری اخراجات میں کمی کیلئے قائم‘ رائٹ سائزنگ کمیٹی نے قومی خزانے کو ''فضولیات‘‘ اور ''لغویات‘‘ سے بچانے کا یہ نسخۂ کیمیا تجویز کیا ہے کہ علمی وادبی اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے‘ کسی کچرا کنڈی میں پھینک دیا جائے۔ عزت مآب کمیٹی کے سربراہ اور تمام ارکان‘ نامور ماہرینِ معیشت ہیں۔ سو وہ فطری طور پر تاریخ‘ تہذیب‘ ادب‘ شاعری اور ثقافت کو بھی معیشت کے پیمانوں پر جانچتے اور نفع ونقصان کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ جو شے بازارِ حصص میں کوئی تحرُّک پیدا نہیں کر سکتی‘ جس سے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘ جو آئی ایم ایف کی بارگاہِ ناز میں کوئی وقعت نہیں رکھتی‘ جسے ورلڈ بینک کوئی اہمیت نہیں دیتا‘ جس کا 'فاٹف‘ سے کچھ لینا دینا نہیں‘ وہ سب کُلّی طور پر بے مصرف‘ بے کار‘ غیرضروری اور ناکارہ ہیں۔
بہت پہلے قائداعظم اکیڈمی کراچی (جس کا دفتر مزارِ قائد کے بالمقابل تھا) کی خستہ حالی کی طرف اشارا کرتے ہوئے مشفق خواجہ نے کہا تھا ''کراچی میں قائداعظم کے دو مزار ہیں۔ ایک تو وہ جہاں قائد دفن ہیں اور ایک عین اُس کے سامنے سڑک پار‘‘۔
پیشتر اسکے کہ ذہن کو جِلا دینے اور دل و دماغ کی کدورتوں کو مصفّٰی کرنے والے یہ ادارے سڑک کے اس پار یا اُس پار کے مرگھٹ بن جائیں‘ ہمیں اُن کے تحفظ کیلئے بھرپور آواز اُٹھانا ہو گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف‘ رائٹ سائزنگ کمیٹی کی اس شتر غمزہ تجویز سے بے خبر ہوں گے۔ وہ علم وادب سے شغف رکھتے ہیں۔ کتابوں سے بھی گہرا رشتہ ہے۔ موسیقی سے بھی دلچسپی ہے۔ کسی خاص لمحے رومانویت کی لہر اٹھے تو اچھا خاصا گا بھی لیتے ہیں۔ دل نہیں مانتا کہ وہ کسی ایسی بے ڈھب تجویز پر غور بھی کریں گے۔ ہاں اصلاحِ احوال مقصود ہے تو بھلے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا کر ان اداروں کے مینڈیٹ‘ دائرہ کار اور نظم میں تبدیلی لائیں۔ 2017ء میں ایک عظیم الشان ادبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا ''ہمیں 'ضربِ عضب‘ کے ساتھ ساتھ 'ضربِ قلم‘ کی بھی ضرورت ہے جو قوم کو نفرتوں سے پاک کرے اور محبتوں کو فروغ دے‘‘۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ 'ضربِ قلم‘ پر کلہاڑا چلانے والوں پر اپنی روایتی ''ضربِ شہباز‘‘ چلاتے ہوئے انہیں سمجھائیں کہ شعر وادب اور فنون لطیفہ کو جمع تفریق اور نفع نقصان کی عینک سے نہیں دیکھا جاتا۔ اُنہیں بتائیں کہ رنگوں‘ تتلیوں‘ پھولوں‘ جگنوئوں‘ خوشبوئوں اور خوابوں کو قتل نہ کریں۔ بچت کے اور سو طریقے ہیں۔ہم آج بھی کم وبیش سالانہ ایک ہزار ارب روپیہ ایسے اداروں پر خرچ کر رہے ہیں جن کی لاشیں ریاست کے مردہ خانے میں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔ علمی وادبی اداروں کے ڈویژن کا سالانہ بجٹ تو دو ارب روپے سے کچھ ہی زیادہ ہو گا۔میں ان شاء اللہ جلد وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے مل کر یہ معروضات براہ راست اُن کی خدمت میں پیش کروں گا لیکن ملک کے طول وعرض سے صاحبانِ علم ودانش کے پیہم اصرار پر یہ سطور لکھ دی ہیں تاکہ سند رہے۔