کیا وفا کیش اور جماعت سے گہری وابستگی رکھنے والے پانچ اسیرانِ لاہور کا خط‘ اندھی گلی میں بھٹکتی پی ٹی آئی کو جگنو بھر روشنی دے پائے گا؟ کیا چند سطور پر مشتمل یہ 'پریس ریلیز‘ ہرآن آمادۂ بحران تحریک انصاف کو تصادم وپیکار سے ہٹ کر سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی راہ سُجھا پائے گا؟ بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ خط کو منظرِ عام پہ آئے ایک ہفتہ ہو گیا۔ اب تک نہ پارٹی نے اس پر باضابطہ ردِعمل دیا نہ پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ‘ عمران خان نے لب کشائی کی۔
بے ہنری کی بے ثمر تاریخ اور حکمت ودانش سے عاری فیصلوں کا سفر جاری ہے۔ اپریل 2022ء میں تحریکِ عدمِ اعتماد کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بجائے قاسم سوری کی رسوائے زمانہ رولنگ‘ اپنے مرغِ دست آموز عارف علوی سے قومی اسمبلی تحلیل کرانا‘ اسمبلی سے اجتماعی استعفے داغ کر صحرائی بگولوں کی طرح بے سروپا دھرنوں اور لانگ مارچوں پر نکل کھڑے ہونا‘ مئی 2022ء میں پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے نئے انتخابات کی پیشکش کو (صدر علوی اور جنرل باجوہ کی ضمانت کے باوجود) مسترد کر دینا‘ نومبر 2022ء میں سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کا راستہ روکنے کے لیے اسلام آباد پر چڑھ دوڑنا‘ 2023ء کے آغاز میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دینا‘ 9 مئی 2023ء کی لشکر کشی کے ذریعے فوج میں انتشار پیدا کرکے‘ آرمی چیف کا تختہ الٹنے کی سازش کرنا اور فائنل کال کے نام پر نومبر 2024ء میں اسلام آباد پر یلغار کرنا‘ سب ایسے فیصلے یا اقدامات تھے جو ''بُوم رینگ‘‘ (Boomerang) نامی ہتھیار کی طرح پلٹ کر آئے اور پی ٹی آئی کا سینہ چھلنی کر گئے۔
محشرِزنداں میں بھی خان صاحب کا جنوں فارغ نہیں بیٹھا۔ 'یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک‘ کی سعیٔ بے ہنر لاحاصل رہی۔ اُن کا ہاتھ ''دامنِ یزداں‘‘ تک تو کیا پہنچنا تھا‘ البتہ اپنا ''گریباں چاک‘‘ ہو گیا جس کی دھجیاں شوخ ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ دوسری طرف وہ نظمِ ریاست‘ جسے خان صاحب زچ کرنے کی کوششیں کرتے رہے‘ حالات کی کرم فرمائی سے مستحکم ہوتا چلا گیا۔ نہ آئی ایم ایف نے خان صاحب کی سنی نہ سمندر پار پاکستانیوں نے کان دھرا۔ معیشت استوار ہوتی گئی۔ پانچ روزہ جنگ میں بھارت کی فیصلہ کن شکست نے پاکستان کا چہرہ اُجال دیا۔ پاکستان کا قد کاٹھ کئی گنا بڑھ گیا۔ سفارتی محاذ پر پاکستان کی آواز توانا ہو گئی۔ بھارت میلے کی بھیڑ میں کھو جانے والے بچے کی طرح ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ جس جرنیل کو خان صاحب نے (کرپشن کی نشاندہی کے جرم میں) صرف آٹھ ماہ بعد آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا اور جسے آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کر دی تھی‘ وہ عظیم فاتح قرار پا کر فیلڈ مارشل بن چکا ہے۔ جس ڈونلڈ ٹرمپ سے اُمیدیں بندھی تھیں کہ وہ حلف اُٹھاتے ہی خان صاحب کی رہائی کا الٹی میٹم دے گا‘ وہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کو اپنا اعزاز قرار دے رہا ہے۔ جس منصفِ عالی مقام سے توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس بنتے ہی سب کچھ اُلٹ پُلٹ دے گا‘ وہ عدالتی کنجِ عافیت میں جا بیٹھا ہے‘ جس حکومت کو وہ فارم 47کی تخلیق کہہ رہے تھے‘ وہ اب دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے۔ اس منظر نامے کی تشکیل میں حکومت کی حکمت کاری کا کتنا عمل دخل ہے اور پی ٹی آئی کی بے حکمتی اور کج روی کا کتنا‘ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ یہ جس کے بھی معجزۂ فن کا شاہکار ہو‘ در ودیوار پر کندہ ہو جانے والی حقیقت یہ ہے کہ حکومتی بندوبست‘ توانا اور قوی ہو چکا ہے جبکہ ناتواں اور کمزور پی ٹی آئی بے سمتی کا شکار ہو کر اندھی‘ تاریک‘ بند گلی میں دیواروں سے سر پھوڑ رہی ہے۔
کوٹ لکھپت جیل سے پانچ اسیروں‘ شاہ محمود قریشی‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ سینیٹر اعجاز چودھری‘ میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کا مختصر سا خط صدائے دردناک کی طرح سامنے آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی سے وابستہ رہتے ہوئے اپنی وفا شعاری پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ یہ بھی خان صاحب کی طرح لگ بھگ دو برس سے جیل میں ہیں۔ ستم یہ ہے کہ پارٹی اُنہیں بھول چکی ہے۔ اُنہیں پرانے‘ زنگ آلود‘ ٹوٹے پھوٹے بے مصرف سامان والی اندھیری کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا ہے۔ اُن سے ملاقاتیوں کا کوئی ہجوم نہیں ہوتا۔ کہیں کسی عدالت میں درخواست بھی دائر نہیں ہوتی کہ ہمیں اُن سے ملنے دیا جائے۔ کسی کو اس بات سے بھی کچھ غرض نہیں کہ جیل میں اُن کے احوال وکوائف کیا ہیں؟ اس ''حسنِ سلوک‘‘ کا ایک اور نمونہ چودھری پرویز الٰہی ہیں جنہوں نے آج تک عمران خان سے تعلق نہیں توڑا لیکن پی ٹی آئی نے اُنہیں 'متروکہ املاک‘ بنا دیا ہے۔ کوئی حال احوال پوچھنے بھی نہیں جاتا۔ پی ٹی آئی کی ماتم گساری‘ قیدی نمبر 804 سے شروع ہو کر اُسی پر ختم ہو جاتی ہے۔
اسیرانِ لاہور نے اپنی کسی تکلیف کا شکوہ کیا نہ کسی سہولت کا تقاضا‘ بس اپنی جماعت سے دست بستہ اپیل کی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی راہ نکالے۔ ضرورت پڑے تو اُس کے بعد مقتدرہ سے بھی بات کرے۔ میڈیا میں اس خط کاچرچا ہوا تو پی ٹی آئی نے خبر دی کہ جماعت کے عمائدین کا ایک بڑا اجلاس بلایا جا رہا ہے۔ اس اجلاس کے لیے ایک چھ نکاتی ایجنڈا بھی جاری ہوا جس میں اسیرانِ لاہور کے خط کا کوئی ذکر نہ تھا۔ البتہ پانچویں نکتے میں حکومت سے مذاکرات کے مختلف آپشنز پر غور شامل تھا۔ اجلاس کے بعد ایک بڑی پریس کانفرنس میں صفِ اوّل کے تمام راہنما شریک تھے۔ طویل گفتگو میں سب کچھ کہا گیا لیکن کسی نے اسیرانِ لاہور کے خط کا ذکر کیا نہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی واضح اعلان۔
اگلے دن علیمہ خان صاحبہ نے اڈیالہ جیل کے باہر کھڑے پریس رپورٹرز کو بتایا کہ عمران خان نے دس محرم کے بعد تحریک چلانے کے لیے کہہ دیا ہے جس کے لیے منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے۔ علیمہ خان نے اسیرانِ لاہور کے خط کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ ''عمران خان جوں ہی تحریک کا اعلان کرتے ہیں‘ حکومت مذاکرات کا دفتر کھول لیتی ہے‘‘۔
اسیرانِ لاہور نے وہی کچھ کہا جو پی ٹی آئی کے راہنمائوں‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور کارکنوں کی بھاری اکثریت چاہتی ہے۔ عدمِ اعتماد سے لے کر اب تک کے جن فیصلوں نے پی ٹی آئی کو دشتِ بے آب وگیاہ کا بگولہ بنا دیا‘ وہ پارٹی کی اجتماعی مشاورت کے دانشکدے سے نہیں‘ فردِ واحد کی اُفتادِ طبع کے آتشکدے سے پھوٹے۔ اس آتشکدے میں جب تک ایک بھی چنگاری موجود ہے نہ اسیرانِ لاہور کی سُنی جائے گی نہ پارٹی کے اُن وابستگان کی جو جنگ جویانہ مہم جوئی کے بجائے‘ صلح وآشتی اور حکمت ودانش کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ علیمہ خان کہتی ہیں کہ ''عمران خان کو مائنس کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘‘۔ ایسا کرنا آسان نہیں‘ خاص طور پر کسی بیرونی ہاتھ کے لیے۔ لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ خود خان صاحب اور اُن کی جماعت کے سنجیدہ فکر عناصر میں خلیج وسیع ہو رہی ہے۔ اگر نوے فیصد وابستگان مذاکرات‘ حکمت اور مصلحت کیشی کے ساتھ بند گلی سے نکلنا چاہتے ہیں اور خان صاحب خود بند گلی سے نکلنے والے نکڑ پر مورچہ لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کی مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں موجود ہیں۔