کہنے کو تو برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یا سینیٹ کو ''دار الامرا‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ جھومر اپنے حقیقی معنی ومفہوم اور بھرپور صداقت کے ساتھ صرف ہماری سینیٹ کی پیشانی پر ہی سجتا ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے ترجمان حافظ حمداللہ نے ہفتہ بھر قبل انکشاف کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا رکن بننے کیلئے ایک ووٹ کی قیمت بائیس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ فرمایا کہ ''گرمیٔ بازار کا یہی عالم رہا تو ایک ثابت قدم رکنِ صوبائی اسمبلی اپنے ووٹ کے عوض چالیس کروڑ روپے بھی وصول کر سکتا ہے‘‘۔ پنجاب اور سندھ میں اس طرح کی رونقِ بازار کم کم ہی دکھائی دیتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے ہر انتخابی عمل کے دوران ایسا حشر بپا ہوتا ہے کہ شاید ہی اُس کی نظیر کسی اور ملک میں ملے۔ دوسرا نمبر بلوچستان کا ہے جہاں عمومی پسماندگی کے باوصف‘ ووٹ کا نرخ ہوش رُبا حد تک بلند ہوتا ہے۔ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی منڈی کا ذکر کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بتایا تھا کہ ''بلوچستان میں ایک ووٹ کا نرخ ستّر کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے‘‘۔ یہ وہ انتخابات تھے جب مجھے بھی پاکستانی ''دار الامرا‘‘ کا رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ انتخابی اخراجات کیلئے ایک خصوصی بینک اکائونٹ کھولنا بھی ضروری ہے۔ میری جیب میں کل تیس ہزار روپے تھے۔ پچیس ہزار روپے سے انتخابی اخراجات کا اکائونٹ کھول لیا۔ کاغذات جمع کرانے گیا تو جانچ پڑتال کرنے والے ایک معزز رکن نے مسکراتے ہوئے پوچھا ''آپ پچیس ہزار روپے سے سینیٹ کا الیکشن لڑ لیں گے؟‘‘ میں نے دست بستہ عرض کیا ''جی کوشش کروں گا‘‘۔ ٹی وی پر ستّر کروڑ کی خبر سُن کر بیگم نے بھی طنز بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا تھا ''آپ کے پاس ہیں ستّر کروڑ روپے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا ''یہ تو صرف ایک ووٹ کیلئے درکار ہیں۔ ایسے کئی ووٹ لینا ہوں گے‘‘۔
جب مسلم لیگ (ن) کے دوستوں نے بتایا کہ میرے حصّے میں آنے والے پچاس سے زائد ارکانِ اسمبلی کو کھانے پر جمع کرنا ہوگا تاکہ آپ کی اُن سے ملاقات ہو جائے تو میری ریڑھ کی ہڈی میں برفیلی سنسنی سی دوڑ گئی۔ میں دیر تک ریاضی کے فارمولوں سے کھیلتا اور اندازہ لگاتا رہا کہ اس کھانے پر کتنا خرچ آئے گا؟ وہ تو اچھا ہوا کہ تمام جماعتوں کی مفاہمت سے گیارہ ارکان بغیر مقابلے کے منتخب قرار پائے۔ کھانے کی نوبت ہی نہ آئی۔
سینیٹ کے انتخابات اور مویشی منڈی جیسا مول تول نئی بات نہیں۔ یہ صرف پاکستان تک محدود بھی نہیں۔ قدیم جمہوریت‘ امریکہ کو بھی اس سے پالا پڑا۔ کوئی سوا صدی تک امریکی سینیٹ کے انتخابات ریاستی اسمبلیوں کے ذریعے ہوتے رہے۔ پھر وہاں بھی احساس ہوا کہ کرپشن نے راہ پالی ہے اور پیسہ بولنے لگا ہے۔ چنانچہ آج سے ایک سو بارہ سال قبل‘ 1913ء میں‘ سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پرانا طریقۂ کار بدل دیا گیا۔ اب پچاس امریکی ریاستیں‘ رقبے اور آبادی سے قطع نظر‘ ایک سو ارکان پر مشتمل سینیٹ کے دو دو ارکان براہِ راست عوامی انتخابات کے ذریعے منتخب کرتی ہیں۔ نہ رہا بانس نہ بجے بانسری۔
لگ بھگ نصف صدی تک بھارت میں‘ راجیہ سبھا (سینیٹ) کے انتخابات بدعنوانی سے پاک رہے۔ جماعتی نظم وضبط کی چُولیں سختی سے کسی رہیں۔ نتائج‘ متعلقہ ریاستی (صوبائی) اسمبلی میں جماعتی قوت کے عین مطابق سامنے آتے۔ 1998ء میں پہلی بار ایک انہونی ہوئی۔ مہاراشٹر کی صوبائی اسمبلی سے کانگرس نے‘ اپنی عددی قوت کے پیش نظر دو امیدوار نامزد کیے جن کا انتخاب یقینی تھا لیکن نتائج نے ایک کہرام بپا کر دیا۔ سونیا گاندھی کے قریب سمجھے جانے والے نامزد کانگریسی امیدوار رام پردھان ہار گئے۔ یہ معرکہ ایک متموّل آزاد امیدوار نے جیت لیا۔ خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے رپورٹ دی کہ ''مہاراشٹر ریاستی اسمبلی میں‘ راجیہ سبھا کے انتخابات کیلئے پیسے اور قوتِ بازو (Money and Muscle) نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے‘‘۔ کمیٹی نے خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا طریقۂ کار بھی تجویز کیا۔ 2001ء میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اس مقصد کیلئے حکومت مسودۂ قانون پارلیمنٹ میں لائی تو 'ووٹ کی رازداری‘ پر ضرب لگنے کا واویلا بپا ہوا۔ کلدیپ نائر نے آئینی بینچ میں پٹیشن دائر کر دی۔ ٹھوس دلائل کی بنیاد پر یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ 2003ء میں پارلیمنٹ نے نیا قانون منظور کر لیا۔
اس قانون کے تحت انتخابی عمل کے دوران‘ پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران کے ساتھ ایوان میں موجود ہر سیاسی جماعت کا نامزد عہدیدار (پولنگ ایجنٹ) بھی بیٹھتا ہے۔ ووٹر پر لازم ہے کہ وہ بیلٹ پیپر پر مخصوص نشان لگانے کے بعد اُسے اپنی جماعت کے پولنگ ایجنٹ کو دکھائے۔ اگر وہ دکھانے سے انکاری ہو یا نشان اپنی جماعت کے امیدوار کے بجائے کسی اور امیدوار کے حق میں لگا دے تو پولنگ ایجنٹ کی نشاندہی پر‘ پریزائیڈنگ افسر یہ بیلٹ پیپر بکس میں نہیں ڈالنے دے گا۔ ''مسترد‘‘ کی مہر لگا کر ایک مخصوص ٹوکری میں پھینک دے گا۔ دو سال پہلے‘ 2023ء میں ایک معروف این جی او ''لوک پر ہاری‘‘ نے 'رازداری‘ (Secrecy) کے آئینی تقاضے کے نام پر یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ فل بینچ نے طویل سماعت کے بعد درخواست مسترد کرتے ہوئے کمال کے جملے لکھے۔ کہا ''آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کیلئے 'ووٹ کی رازداری‘ نہایت اہم اصول ہے لیکن اعلیٰ تر اصول یہ بھی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ کے ساتھ ساتھ انتخابات کی پاکیزگی (Purity) کو بھی برقرار رکھا جائے۔ اگر ووٹ کی رازداری کرپشن کا سرچشمہ بن جائے تو سورج کی دمکتی روشنی جیسی صداقت اور شفافیت ہی میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ اس کرپشن کا ازالہ کر سکے‘‘۔
ہمارے ہاں 'گھوڑا فروشی‘ اور 'گھوڑا خریدی‘ کا کھیل برسوں سے جاری ہے۔ ہر تین سال بعد یہ میلہ سجتا ہے۔ مارچ 2027ء میں نصف سینیٹ گھر چلی جائے گی‘ نصف آئندہ چھ برس کیلئے منتخب ہو گی۔ پھر سے بولیاں لگیں گی 'نرخ بالا کن‘ کے نعرے گونجیں گے‘ گاہک اشرفیاں اچھالتے منڈیوں کا رُخ کریں گے۔ ایک بار پھر ووٹ کی بے توقیری اور سینیٹ کی بے حُرمتی کا ماتم ہوگا لیکن اصلاحِ احوال کی کوئی سبیل شاید ہی نکلے۔
یہ کالم آپ کی نظر سے گزرنے تلک خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا انتخاب تمام ہو چکا ہو گا۔ میں اس وقت نتائج کی پیش بینی تو نہیں کر سکتا لیکن اتنی بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان نتائج کے سبب 'ہمارا دار الامرا‘ پہلے سے کہیں زیادہ امیر اور تونگر ہو جائے گا۔ اس کی پیشانی پر جھومتے جھومر میں کئی نئے تابدار نگینے آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہوں گے۔
2021ء میں سینیٹ کا رکن بننے کے بعد مجھے الیکشن کمیشن کی طرف سے ملا ایک پروفارما پُر کرنا پڑا جس میں بتانا تھا کہ میں نے الیکشن میں کتنی رقم خرچ کی۔ میں نے بہت سوچا کہ کہیں کچھ خرچہ آیا ہو۔ کچھ یاد نہ آیا تو مقررہ خانے میں 'صفر‘ لکھ دیا۔ لاہور کے بینک میں جمع کرائے گئے پچیس ہزار روپے جبری بینک کٹوتیوں کے چَرکے کھاتے کھاتے شاید چار پانچ ہزار روپے رہ گئے ہوں۔ وہ بھی غیر مستعمل کھاتا ہونے کے باعث منجمد ہو چکے ہوں گے لیکن بیگم آج بھی‘ مہینے میں ایک دو بار ضرور تقاضا کرتی ہیں ''وہ پچیس ہزار روپے تو واپس لائیں‘‘۔ اُنہیں کیسے سمجھائوں کہ میں جس 'دار الامراء‘ میں بیٹھتا ہوں اس کیلئے پچیس ہزار روپے کی قدر وقیمت کیا ہے؟