9 مئی کا کیا کریں؟

پی ٹی آئی کے قائدین اور اڈیالہ جیل سے جاری ہونے والے آتشیں اعلانات کے مطابق آج‘ 5 اگست طبلِ جنگ بجنے کا دن ہے۔ اُس تحریک کا آغاز ہونے جا رہا ہے‘ جسے ''ہم نہیں یا تم نہیں‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس طرح کی ''فائنل کالز‘‘ پہلے بھی دی جاتی رہیں لیکن غالب کے پُرزے اُڑے نہ ذوقِ تماشا رکھنے والوں کی نگاہیں آسودہ ہوئیں۔ آخری معرکہ نومبر 2024ء میں اسلام آباد کے جناح ایونیو پر لڑا گیا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں سے اُتری سرد شام‘ رات کا آنچل اوڑھنے کو تھی کہ میلہ اُجڑ گیا۔ انقلاب کے سالار‘ ایک سکیورٹی ایجنسی کے چھاتے تلے‘ گاڑی میں بیٹھ کر پشاور چلے گئے۔ خفت مٹانے کو ''گولی کیوں چلائی؟‘‘ کا بیانیہ تخلیق ہوا۔ سینکڑوں لاشیں گرنے کا واویلا اٹھا۔ جب لاشوں کے نام پتے پوچھے گئے تو بیانیہ سازی کے بادشاہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ تاثر دیاگیا کہ ''پاکباز شہدا‘‘ کی ''مقدس روحیں‘‘ آسمان کی رفعتوں کو پرواز کرتے ہوئے‘ اپنا اپنا جسد خاکی بھی ساتھ لے گئیں۔ یہاں تک کہ کسی سڑک پر ایک قطرہِ خوں تک باقی نہ رہنے دیا۔
پی ٹی آئی کی عمر اب تیس برس ہونے کو ہے۔ آغازِ سفر میں ہی ایک آمر کا حلقہ بگوش ہونے‘ لیلائے اقتدار کی تلاش میں برسوں دشت پیمائی کرنے‘ اسٹیبلشمنٹ کی کارگاہِ کوزہ گری سے فیض یاب ہونے‘ پونے چار برس اقتدارِکُلی کی لذتیں سمیٹنے اور پھر یکایک مکافاتِ عمل کی ایک موجِ تند خُو کے طمانچے کھاتے ہوئے متاعِ کوچہ وبازار ہو جانے کے بعد بھی‘ عمران خان نہیں سمجھ پائے کہ سیاست کا خمیر کن اجزاسے اٹھتا ہے؟ جمہوری اقدار کے تقاضے کیا ہیں؟ افہام وتفہیم کسے کہتے ہیں؟ زمینی حقیقتوں کا شعور کس بلا کا نام ہے؟ اور اُفتاد آ پڑے تو گھنے جنگل سے راستہ کس طرح نکالا جاتا ہے؟ اپریل 2022ء سے آج تک پی ٹی آئی صحرا کا بگولہ بنی ہوئی ہے۔ سبب صرف ایک ہی ہے۔ بانی کی اُفتادِ طبع اور تلخ مزاجی۔ باقی ساری تحریک انصاف اس بے چہرہ مدار کا بے سمت سیارہ بنی ہوئی ہے۔
ان دنوں 9 مئی 2023ء کے مقدمات کے فیصلے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ سوا دو سال سے تعطل کا شکار ان مقدمات کے فیصلوں کی نوبت 8 اپریل کو جاری کیے گئے سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کے بعد آئی کہ چار ماہ کے اندر اندر 9 مئی کے مقدمات کو نبٹا دیا جائے۔ یہ میعاد بھی تین دن بعد ختم ہو جانے کو ہے لیکن بہت سے مقدمات ابھی فیصلہ طلب پڑے ہیں۔ اب تک کے فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی کے درجنوں قائدین اور ارکانِ پارلیمنٹ کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
سزا یافتگان میں سے کسی کا نام محمد نواز شریف نہیں کہ اُس کا مقدمہ سپریم کورٹ سے شروع ہو کر سپریم کورٹ میں ہی ختم ہو جائے۔ نہ اپیل نہ وکیل نہ دلیل۔ شاید اُس کا جرم‘ 9 مئی کی بغاوت وسرکشی سے زیادہ قبیح تھا کہ اُس نے اپنے بیٹے کی کمپنی کا ملازم ہوتے ہوئے اُس سے تنخواہ نہیں لی۔ لیکن 9 مئی کے ملزمان کو سنائی جانے والی سزائیں حرفِ آخر نہیں۔ گریہ وزاری اپنی جگہ‘ یہ سلسلہ ابھی آگے بڑھے گا۔ اپیلیں ہائی کورٹس میں جائیں گی۔ ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ تک پہنچیں گی۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو نظرثانی اپیلیں دائر ہوں گی۔ لیکن پی ٹی آئی نے اپنی روایتی ہنرکاری سے کام لیتے ہوئے سزائوں کو حکومتی جبر اور عدالتی ناانصافی تک محدود کر دیا ہے۔ سو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی ساری بحث 'ظلم وناانصافی‘ کے اسی بیانیے تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ کوئی پیچھے پلٹ کر یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کر رہا کہ ہماری تقویم میں 9 مئی کا دن بھی آیا تھا۔ وہ دن جب دو سو پچاس سے زائد دفاعی تنصیبات پر منظم حملے ہوئے‘ جب ارضِ پاک کے تحفظ ودفاع کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے شہدا کی یادگاریں تاراج کر دی گئیں‘ جب ہوائی اڈوں پر کھڑے پاک فضائیہ کے طیارے نذرِ آتش کر دیے گئے‘ کوئٹہ سے چکدرہ چھائونی تک ہونے والی یہ غارت گری کیا کسی غیر مرئی مخلوق کا معجزہ فن تھا کہ وہ چشمِ زدن میں تحلیل ہوگئی؟ اگر یہ جیتے جاگتے مفسدین کی فتنہ گری تھی تو کیا اُنہیں کسی باز پُرس‘ کسی قانونی وعدالتی عمل اور کسی سزا کے بغیر چھوڑ دیا جائے؟
اگست 1947ء سے اگست 2025ء تک 78 برس کے دوران میں بہت سی تحریکیں چلیں۔ بہت سے سیاسی احتجاج ہوئے۔ بہت سے ہنگامے ہوئے۔ لیکن کوئی پاکستانی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر 9مئی 2023ء جیسی کسی غارت گری کی نشاندہی کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! اس لیے کہ 9 مئی تو کہاں‘ اس سے دور دور کا رشتہ وتعلق رکھنے والا کوئی واقعہ بھی 'رونما‘ نہیں ہوا۔ ٹھوس شواہد نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بغاوت بپا کرنے کی سازش تھی‘ جس کا نشانہ آرمی چیف سید عاصم منیر تھے۔ سپہ سالار کا تختہ الٹ کر‘ اپنے ڈھب کے کسی وردی پوش کو اس مسند پر بٹھا کر‘ پھر سے حکومت پر قبضہ جمانا اور اسلام آباد کو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کی دِلّی بنا دینا تھا جہاں ہر چوک پر صلیبیں گڑی ہوں اور پھندوں میں لٹکی‘ سیاسی حریفوں کی لاشیں انقلابِ نو کی نوید دے رہی ہوں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایک ساتھ پاکستان کے طول وعرض میں بلوائیوں کا نشانہ بننے والی سینکڑوں فوجی تنصیبات سے آگ کے شعلے اٹھیں گے تو فوج مشتعل ہوکر گولی چلائے گی۔ سینکڑوں مردو زَن کے سینے چھلنی ہو جائیں گے۔ فوج کے اندر بڑے ریکٹر سکیل کا زلزلہ آئے گا۔ بڑے بڑے بُرج زمین بوس ہو جائیں گے اور کشتِ آرزو کے اَنگ اَنگ میں بہار ہلکورے کھانے لگے گی۔
فوج کی بالغ نظر قیادت نے بروقت سازش کو بھانپ لیا۔ وہ باغیوں کے جال میں نہ پھنسی۔ لاشیں گریں‘ نہ سڑکوں پہ خون کی ندیاں بہیں نہ فوج کے کڑے نظم وضبط میں کوئی دراڑ ڈالی جا سکی۔ سازش بن کھلے مرجھا گئی۔ بغاوت بری طرح ناکام ہو گئی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بغاوت کامیاب ہو جائے تو اپنے اہداف مدمقابل اور مخالفین کو عبرت کا نشانہ بنا دیتی ہے۔ ناکام ہو جائے تو خود بے رحمانہ عتاب وانتقام کا نشانہ بن کر نمونۂ عبرت بن جاتی ہے۔ حالیہ تاریخ میں اس کی نظیر ترکیہ میں ملتی ہے جب جولائی 2016ء میں فتح اللہ گولن تحریک‘ فوج‘ پولیس اور بیورو کریسی کے کچھ عناصر اور انقلابی دانشوروں نے طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔ طیب اردوان کی اپیل پر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور بغاوت ناکام ہو گئی۔ اس کے فوراً بعد باغیوں اور سازشیوں پر جو قیامت ٹوٹی‘ وہ عبرت کی ایک ہولناک کہانی ہے۔
میں ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ حالیہ سزائوں میں قانون کے تمام تر تقاضے پورے کئے گئے یا نہیں۔ میں یہ کہنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا کہ سزا یافتگان اس سازش میں ملوث تھے یا نہیں۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میری تاریخ میں 9 مئی 2023ء کا ایک سیاہ دن آیا تھا۔ میں نے اُس دن ٹی وی چینلز پر کچھ کرداروں کو متحرک بھی دیکھا تھا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس تاخت و تاراج نے کن لوگوں کے دلوں میں چراغاں کر دیا تھا۔ کسی معصوم وبے گناہ کو سزا میرے لیے خوشی کا باعث نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سوا دو برس سے کسی سرد خانے میں پڑی‘ 9 مئی کی لاش کو‘ لاوارث قرار دے کر کسی دُور افتادہ گورستان کے گوشۂ گمنام میں دفنا دیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں