"JDC" (space) message & send to 7575

آج کا امریکہ…چند مشاہدات… (4)

لنکاسٹر پنسلوینیا کے سفر کا اصل مقصد تو اپنے گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو سرور ناصر سے ملاقات تھی۔ میں جب تین سال پہلے یہاں آیا تھا تب بھی لنکاسٹر گیا تھا لیکن وہ وزٹ ایک دن کا تھا۔ اس مرتبہ دو دن وہاں قیام کیا کواڈرینگل اور نیو ہوسٹل کی یادیں تازہ کیں۔ رات گئے تک باتیں کیں اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ وہاں مزید ٹھہرنا چاہیے تھا ان کہی باتیں یاد آ رہی ہیں چینی زبان کا مقولہ ہے کہ جب پرانے دوست ملتے ہیں تو ہزار جام بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
میں نے بیٹے عادل حفیظ کے ذمہ لگایا کہ مجھے لنکاسٹر چھوڑ آئے۔ دو دن بعد واپسی سرور ناصر اور نسرین بھابھی کے ساتھ ہوئی۔ پوٹامیک Potomac دریا ‘ورجینیا اور میری لینڈ کے درمیان حد فاصل ہے۔ میری لینڈ میں گھنٹہ بھر ڈرائیو کرنے کے بعد پنسلوینیا کی ریاست شروع ہو جاتی ہے۔ راستے میں گیٹس برگ Gettysburg کا تاریخی شہر آتا ہے جہاں 1863ء میں امریکن سول وار کی مشہور جنگ ہوئی تھی یہ جنگ تین روز تک جاری رہی۔ میری بہو لیلیٰ شیخ حفیظ فیرفیکس کائونٹی کے ایک سکول میں ہسٹری اور انگلش پڑھاتی ہیں۔ وہ راستے میں کہنے لگیں کہ میں متعدد بار بچوں کو یہ تاریخی مقام دکھانے لائی ہوں‘ چنانچہ فیصلہ کیا کہ میدان جنگ جا کر لیلیٰ بیٹی سے بریفنگ لی جائے۔ لیلیٰ ہمیں بتا رہی تھی کہ سول وار میں بنیادی طور پر چار ایشوز تھے۔ ان میں سے سیاہ فام لوگوں کی غلامی سرفہرست تھا۔ درآمدات پر ڈیوٹی شمال اور جنوب کا ثقافتی بُعد اور دستور کی ہیئت ترکیبی دوسرے بڑے اختلافی ایشوز تھے۔ جنوبی ریاستوں کی ڈیمانڈ تھی کہ کسی بھی یونٹ کو امریکہ سے علیحدگی کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ شمالی ریاستیں دائمی اتحاد کے حق میں تھیں۔
گیٹس برگ کی جنگ میں جنوبی فوج کو شکست ہوئی انہیں گولہ بارود جارجیا سے آتا تھا۔ سپلائی لائن لمبی تھی۔ جارجیا کی اسلحہ بنانے اور سپلائی کرنے کی استعداد بھی محدود تھی۔ الغرض گیٹس برگ کی جنگ نے امریکی سول وار کا پانسہ بڑی حد تک پلٹ دیا۔ یہی وہ میدان جنگ تھا ، جہاں لڑائی کے اختتام پر معروف امریکی لیڈر لنکن نے کہا کہ امریکی قوم کے خمیر میں آزادی کا تصور شامل ہے اور تمام انسان برابر پیدا کئے گئے ہیں پھر ابراہم لنکن نے میدان جنگ کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام مارے جانے والے فوجی اس جگہ دفن کئے جائیں گے ان لوگوں نے اپنی زندگیاں اس لیے قربان کی ہیں تاکہ امریکی قوم زندہ رہے۔ یہاں کئی امریکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں کہ ماڈرن امریکہ کی مختصر تاریخ کا اہم سنگ میل دیکھ سکیں۔
لنکاسٹر کے بہت قریب آمش لوگ رہتے ہیں یہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے سترہویں صدی میں ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔ ان کا چرچ علیحدہ ہے‘ یہ لوگ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں۔ پندرہ بیس گھروں کی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے ہیں فیملی پلاننگ کے خلاف ہیں مگر پھر بھی ان کی موجودہ آبادی صرف اڑھائی لاکھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر دیہاتی لوگ ہیں گھوڑے اور گائے پالتے ہیں کار کی بجائے گھوڑے جوت کر بگھی میں سفر کرتے ہیں ‘اپنے ہم عقیدہ لوگوں میں شادیاں کرتے ہیں اس گروہ کا رنگ عام امریکیوں کے مقابلے میں سرخی مائل ہے۔ ہر آمش مرد پر لازم ہے کہ وہ شادی کے بعد داڑھی رکھے۔ آپ جیسے ہی آمش ایریا میں داخل ہوتے ہیں آپ کو باریش مرد بگھیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ بہت محنتی ہیں مگر آٹھویں کلاس سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ اتنی تعلیم زراعت اور دستکاری کے لیے کافی ہے۔ آمش لوگوں کو دیکھنے کے لیے بے شمار سیاح آتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لیے اچھے سے اچھے ہوٹل بن گئے ہیں۔ سیاح آمش لوگوں کی بنائی ہوئی دستکاری خریدتے ہیں اور اس میں لکڑی کی بنی ہوئی مختلف اشیاء فرنیچر اور خواتین کی کشیدہ کاری سرفہرست ہیں۔ آمش بہت قدامت پسند لوگ ہیں یہ اجنبی سیاحوں کی اپنے گھروں میں آنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا گروہ امریکہ کے بڑے معاشرے میں تحلیل ہو جائے گا۔ اب بھی کچھ آمش اپنے علاقوں سے ہجرت کرتے ہیں چند آمش لڑکیاں اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے باہر شادیاں بھی کرتی ہیں لیکن دو تین وجوہات کی بناء پر یہ گروہ زندہ ہے ‘ایک تو ان کا مختلف عیسائی عقیدہ ہے ‘دوسرے اپنی موجودہ شکل میں یہ لوگ سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں اور بگھیاں جوت کر خوب کما رہے ہیں۔ فیملی پلاننگ کی مخالفت کی وجہ سے آمش لوگوں میں شرح تولید باقی امریکہ سے زیادہ ہے۔
پچھلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ٹیکس ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ امریکی شہری خواہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہو اُس کے لیے لازمی ہے کہ ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے بھرے۔ اگر سالانہ انکم پچھتر (75) ہزار ڈالر سے کم ہے تو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا البتہ سوشل سکیورٹی کی مد میں کٹوتی پھر بھی ہو گی۔ آپ سوشل سکیورٹی کے لیے جتنا پیسہ جمع کراتے جائیں گے 67 سال کی عمر کے بعد آپ کو اُسی تناسب سے سوشل سکیورٹی ملنا شروع ہو جائے گی۔ There in no free lunch یہاں کا مشہور مقولہ ہے یعنی مفت خوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
امریکہ میں ایک وکھری طرز کا ٹیکس بھی ہے جسے ڈیتھ ٹیکس کہا جاتا ہے Death Tax صرف امیر لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ اگرمرنے والے شخص کے کل اثاثے پانچ ملین ڈالر سے زائد ہیں تو اضافی اثاثوں کا نصف حکومت کو دینا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ اس ٹیکس کے خلاف ہیں ان کا استدلال ہے کہ فوت ہونے والے شخص کے ورثاء کو اکثر یہ ٹیکس دینے کے لیے اپنے اضافی اثاثے بیچنا پڑتے ہیں کیونکہ یہاں لوگ اپنے اثاثے بینک بیلنس کی شکل میں کم ہی رکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ فوت ہونے والے امریکی شہری نے دس ملین ڈالر کے اثاثے چھوڑے ہیں ان میں دو ملین ڈالر کا گھر ہے اور آٹھ ملین ڈالر کی فیکٹری۔ اس شخص کا ڈیتھ ٹیکس اڑھائی ملین ڈالر بنے گا جو ورثاء نے ہر صورت میں ادا کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ڈیتھ ٹیکس سے بزنس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لوگوں کو اپنے بزنس اثاثے ٹیکس ادا کرنے کے لیے بیچنا پڑتے ہیں پچھلے ایک کالم میں ایک امریکی ڈاکٹر کے سوال کا ذکر تھا کہ آیا پاکستانی ڈاکٹر فیس لے کر رسید دیتے ہیں اس کا واضح اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹر ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ یہی صاحب کہنے لگے کہ امریکہ اور کینیڈا کے گورے لوگ پاکستانی اور انڈین لوگوں سے کہیں زیادہ سچ بولتے ہیں ‘میں نے کہا کہ ذرا اپنی بات کی وضاحت کے لیے کوئی مثال دیں تو فرمانے لگے کہ یہاں لائف انشورنس کا رواج عام ہے انڈین لوگ بیوی کی لائف انشورنس کرا کے اُسے واپس انڈیا بھیج دیتے تھے اور یہاں جعلی انشورنس کلیم داخل کرا دیتے تھے۔ اسی طرح کینیڈا میں غریب لوگوں کو اچھی خاصی سوشل سکیورٹی ملتی ہے۔ غریب شہریوں کے سکول جانے والے بچوں کو علیحدہ الائونس ملتا ہے۔ جب سوشل سکیورٹی کے پیسے بینک اکائونٹ میں آنا شروع ہو جاتے تھے تو بچے واپس انڈیا یا پاکستان بھیج دیئے جاتے تھے مگر یہ فالتو کی آمدنی جاری رہتی تھی۔ اب امریکہ اور کینیڈا کی حکومتوں نے خاصی سختی کر دی ہے۔ 
امریکی مختلف ریاستوں کے لیے مختلف لقب استعمال کرتے ہیں ورجینیا کو Land of Lover یعنی عشاق کی سرزمین کہا جاتا ہے اور میری عشاق کی سرزمین سے دو روز بعد واپسی ہے لیکن واپسی سے قبل پوٹامک دریا کی سیر اور لائبریری آف کانگرس وزٹ کرنے کا پروگرام ہے۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں