غربت، گداگری اور خیرات

ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں موجود کامیاب، مشہور، خوشحال، دولتمند، طاقتور اور نام نہاد معزز لوگ غریبوں کو خیرات دینا پسند کریں گے۔ وہ خیرات کو کسی بھی نظام کا ایک لازمی حصہ ہونے کی حمایت کریں گے۔ کیونکہ ان کے مطابق غربت اور گداگری اس دُنیا میں ہمیشہ رہے گی۔ ان میں سے بعض آپ کو یہ بھی کہیں گے کہ ان کی مخیرانہ سرگرمیوں میں آپ ان کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے وہ اپنے خیراتی اداروں کی سر گر میوں اور معرکوں کو گھمنڈ کے ساتھ بیان کریںگے اورساتھ ہی ساتھ خیرات دے کر لاکھوں لوگوں کو بھکاری بنا ڈالیں گے۔لیکن وہ خود کبھی ان بھکاریوں کی جگہ لینا اور ہاتھ پھیلانا نہیں چا ہیں گے ، چاہے اس کے لیے اُن کو کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔وہ ہرگزایسا نہیں کریں گے کہ اُن غریب لوگوں کی حمایت کریں جو اس ظالمانہ اور جابرانہ سماجی نظام کے دھتکارے ہوئے ہیں،ا ورجنہیں بھکاری بننے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ وہ یہ بھی نہیں کریں گے کہ ان مظلوم ، محروم اور محکوم لوگوںکی مدد کریںتا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور اپنے لیے یکساں مواقع اور سہولیات حاصل کرسکیں۔ بلکہ ایسے لوگ تویہ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کو خیرات دے کر اپنی ـــــدریادلی، امارت اور فراخ دلی ثابت کریں، امیروں، رئیسوں اور افسر شاہی کے ساتھ اپنے مراسم استوار کریں، اور اس کے ذریعے مزیدنام‘ شہرت اور پیسہ کما سکیں۔ وہ خود عمدہ اور مہنگے ترین کپڑے اور جوتے زیب تن کرتے ہیں، متمول علاقوں میں اپنے عالیشان، بڑے بڑے اور عُمدہ طور پر سجائے ہوئے آرام دہ گھروں میں رہتے ہیں، پُر تعیش بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور اپنے لیے دولت اور شہرت اکٹھی کرنا جاری رکھتے ہیں اور اپنے فارغ اوقات میں ان غریبوں کے لیے کام کرتے اور ان کے لیے آہیں بھرتے ہیںجس کا اصل مقصد تاریخی طور پر متروک شدہ موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تحفظ کرنا اور اس کی بدصورتی اور کمزوریوں کو چھپانا ہوتا ہے۔ یاد رکھیے کہ خیرات کے نظام کوچلانے والے خود اپنی ذاتی دولت کے انباروں میں سے صرف اتنا ہی خیرات کرتے ہیں جتنا اُن کا دل کرے یا جس سے وہ معتبر اور مشہور رہ سکیں۔ وہ اپنی دن بہ دن بڑھنے والی ذاتی دولت کو غریب لوگوں میں نہیں بانٹ دیتے بلکہ اِس کام کے لیے وہ صرف اُس پیسے کا استعمال کرتے ہیں جسے وہ بڑے بڑے امیروں، ٹیکس چوروں اورکالے دھن والوں سے اپنی مخیرانہ سرگرمیوں کے دوران مانگتے ہیں جن میں سے زیادہ تر لوگ اُن کو اس لیے خیرات دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا ٹیکس بچا سکیں یا اپنا کالا دھن سفید کر سکیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ٹی وی چینلز پر، اخباروں میں، بینروں اور اشتہاروں کے ذریعے صدقات اور خیرات کی بہت بڑی مہم اور کمپین چلاتے ہیں اور ان کے ذریعے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ کس قدر نیک، رحمدل اور ہمدرد ہیںلیکن اس اشتہار بازی کے لیے بھی وہ اپنے ذاتی پیسے خرچ نہیں کرتے بلکہ عوام سے ہی حاصل کردہ رقوم کو اپنے رفاہی اور سماجی کاموں کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے مزید رقوم اکٹھی کی جاسکیں۔ تسلسل کے ساتھ جاری یہ عمل انہیں مزیدمشہور اور معتبر بنادیتا ہے۔ ان تشہیری مُہموں کے ذریعے وہ معصوم عوام سے بھی بھیک مانگتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتے ہیں۔ عوام میں سے زیادہ تر وہ معصوم اور نیک دل لوگ جو ایسے لوگوں کو صدقات یا خیرات کی رقوم دیتے ہیں، وہ ان کے قائم کردہ خیرات کے نظام اور ان کے عزائم سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ امیر سرمایہ دار ملکوں سے بھی خیرات یا چند ہ لیتے ہیں اور کئی دفعہ تو اُن کے خیراتی ادارے مکمل طورپر اُن غیر ملکی فنڈز پرچلتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے حوالے سے وہ اُن غیر ملکی حکومتوں یا اداروں کے معاشی ، سماجی اور سیاسی مقاصد کو پورا کر سکیں۔اور جب وہ اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنے اس خیراتی کاروبار میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر وہ آپ سے کہتے ہیں کہ ان کی یہ کامیابی خدا کی دین ہے۔ کیا بعیدازعقل اور تضادات سے بھرپور بات ہے۔ ان کا طرزِ زندگی اور طریقِ زندگی اس کاواضح اور بہتر ثبوت ہے۔ خیرات کی اس ذہنیت سے باہر نکلیں کیونکہ یہ آپ کے اندر کے انقلابی جذبات اور ولولوں کو دفن کر دے گی۔ وہ انقلابی جذبات اور ولولے جو اس سفاکانہ اور بوسیدہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ضرری ہیں ۔ آپ کو لوگوں کی مدد اور حمایت ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں لیکن خیرات اور اُس کے کاروبار کو ہمیشہ کے لیے نظام کالازمی حصّہ نہ توسمجھنا چاہیے اور نہ ہی بنانا چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو معاشرے میں اس کی ترویج ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی بھی با شعور اورذی عقل انسان بھکاری بننا نہیں چاہتا اور نہ ہی اس کی خواہش کرتا ہے۔ اوریقین کریںکہ آپ اس بات کو زیادہ بہتراُس وقت سمجھ پائیں گے جب آپ اپنے آپ کو اُن غریب، مجبوراور بے بس لوگوں کی جگہ سوچ کر محسو س کریں گے ۔ خیرات کو کاروبار بنا نے والوں اوراس کی ترویج کرنے والوں کو اپنا کام کرنے دیجیے، مگر آپ صرف ان لوگوں کا ساتھ دیں جو حقیقی طور پر ان تمام مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں اور اِس کے لیے انسانی مساوات پر مبنی اپنی ٹھوس نظریاتی اور تنظیمی بنیادوں پر کھڑے ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا کے تقریباً 7ارب انسانوں میں سے تقریباً 6ارب انسان بدترین انفراسٹرکچرز میںرہنے اور بنیادی سہولیات سے محروم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،جبکہ 10فیصد سے بھی کم لوگوں کے پاس دنیا کی 90فیصدسے زیادہ دولت ہے؟اگر آپ واقعی اپنے آپ کوانقلابی سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو اس ظلم، جبر، محرومیوںاور ذلتوں سے بھرپور استحصالی دنیا کو بدل کر ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنا ہو گی ۔ آپ کوا پنے اور اس دنیا میں رہنے والے دوسرے انسانوں کے حقوق کے لیے اس باطل اور استحصالی نظام اور اس کے محافظوں کے خلاف تندہی سے جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ اس نظام کے محافظوں کا فائدہ اسی طرح ظلم اور لوٹ کھسوٹ کے جاری رہنے میں ہے۔اگر آپ مخلص اور جرأت مند ہیں تو آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، آپ کو ضروراپنے جیسے وفادار اور مخلص لوگوں کا ساتھ ملے گا جو آپ ہی کی طرح اس جابرانہ اور باطل نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ نوجوان جو اس دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں، سب سے پہلے انہیں خود کوبدلنا ہوگا۔ اُنہیں دُوسرے لوگوں کو اپنے انسانی مساوات کے نظریے سے جیتنا ہوگا اور اس کے لیے اُنہیں ہر انسان سے برابری کی سطح پرملنا اور برتائو کرنا ہوگا۔ اور ہاں! یہ مساوی سلوک کسی حکمتِ عملی یا اپنے مقصد کی تکمیل کی غرض سے نہیں بلکہ آپ کو اسے ایک سچے انسانی فلسفے کے طور پر اپنانا ہوگا۔ اور یاد رکھیے کہ ایسے لوگوں کو کبھی دوست مت بنایئے جو کسی بھی وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر ، برتر ، خاص یا اعلیٰ سمجھتے ہیں یا جو دوسرے انسانوں سے کسی بھی وجہ سے نفرت اور حقارت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔کسی انسان کے لیے اس دنیا میںسب سے زیادہ قابلِ نفرت چیز اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کاغیر مساوی رویہ ہے۔ اگر آپ تمام انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں اور اُن کے ساتھ برابری کا رویہ بھی رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ وقت آچکا ہے جب آپ کو اس دنیا کو بدلنے کے لیے کوشش اور جدوجہد شروع کرنی ہے۔آپ کو لازمی طور پر کسی سیاسی تنظیم کا حصہ بننا ہوگا۔ ایک ایسی سیاسی تنظیم جو انسانی مساوات اور برابری کے اصولوں پردنیا کو بدلنا چاہتی ہواور جس کا فکری اور تنظیمی ماحول کسی بھی تعصّب سے پاک ہو اور جس کے اندراظہار ِ خیال اور اختلافِ رائے کی مکمل جمہوری آزادی ہو۔ یہ تنظیم جمہوری مرکزیت کے اصول پر کام کرے اور اس کا نظریاتی معیار،ماحول اور ڈسپلن آپ کو دنیا بدلنے کا جذبہ اور سکت رکھنے والے ایک بہترین انقلابی کارکُن کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے محبت، ایثار اور درد مندی کے جذبوں سے سرشارانسان بنا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں