دراصل انسانی جدوجہد کی پوری تاریخ فطرت کی بے رحم قوتوں، مواقع، خوش قسمتی، مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی اور نا انصافی کے خلاف لڑائی سے بھرپور ہے۔ ہر دور میں انسان ایسے نام نہاد کامیاب اور معزز لوگوں کے مظالم کے خلاف لڑتا رہا ہے جوخدا کے کرم اور رحمت کو کچھ لوگوں کے لیے مخصوص ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں جبکہ یہ دنیا ذرائع پیداوار اور وسائل کے لامحدود امکانات، طاقت اور اہلیت سے بھری پڑی ہے ،نہ صرف اب یہ آپ کی باری ہے کہ آپ بھی ان استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کریں بلکہ یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ آپ اس دنیا کو غربت، بیماری، روایت پرستی،توہم پرستی، فرقہ پرستی، مذاہب کی غلط تشریح، جہالت اور سب سے بڑھ کر عدم مساوات سے نجات حاصل کرنے کے لیے رہنمائی کریں۔ اب یہ آپ کا تاریخی فرض بنتا ہے کہ آپ سب کے لیے کامیابی اور ہر ایک کے لیے کامیاب ہونے کی طمانیت کے انسانی احساس کو ممکن بنائیںجس کے امکانات اب اس افراط اور بہتات سے بھر پور دنیا میںتقریباً سو فیصد لازمی اور یقینی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے آپ کوبہت سی مشکلات کا سامنااور مقابلہ کرنا پڑے گا، کیونکہ اس باطل نظام سے فائدہ اٹھانے والے اور اس کے بدعنوان رکھوالے مختلف حوالوں سے اپنی اپنی جھوٹی باتوں سے آپ پر حملہ آور ہوں گے اور آپ کو پریشان اور گمراہ کریں گے ۔وہ آپ کو یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ تمام انسان برابر نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ یہ ایک ناممکن کام ہے کیونکہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ تمام انسان برابر ہوں۔ ہر چند کہ دنیا کے تمام مذاہب اپنے اپنے دور کی انقلابی قو تیں بن کر اُبھرے تھے اور ان کا مقصد انسان کی اجتماعی بہتری اور ر ہنمائی تھا لیکن یہ لوگ آپ کو اپنے اپنے مذاہب کی خود ساختہ جھوٹی تشریحات پیش کریں گے اور ان سے اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں گے۔یہ منافق لوگ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وہ ہر قسم کی بدعنوانی اور ناانصافی پر مبنی شیطانی ہتھکنڈوںکو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کریں، لیکن وہ غریب اور پسماندہ لوگوں کو یہ کہیں گے کہ وہ خدا سے اپنے بہتر مستقبل اور حالاتِ زندگی کے لیے دُعا کریں ۔وہ آپ کو یہ بھی کہیں گے کہ غربت ،امارت اور کامیابی خدا کی طرف سے ہے، لیکن وہ خود امیر، مشہوراورکامیاب ہونے کے لیے ہر سیاہ و سفید عمل کر گزریں گے۔ اُن کا یہ طریق کار بالکل اُن پرانے زمانے کے بادشاہوں اور حکمرانوں کی طرح ہوتا ہے جو انسانوں کو اپنی رعایا سمجھتے تھے کیونکہ اُن کے مطابق یہ بادشاہت اور شان و شوکت اُنہیں خدا نے عطا کی تھی اور اُن کی جمع کی جانے والی تمام دولت ، جائیداد ، عزت اور طاقت مقدس تھی اور اُن پر خدا کی عنایت اور تحفہ تھی اوروہ عوام پراپنی حکومت کے لامحدود اختیارات کے حوالے سے کسی کو جوابدہ نہیں تھے۔تاریخ جانتی ہے کہ پھر اُن کا کیا حشر ہوا۔ دُنیاوی کامیابی کے حصول کو خدا کا کرم قرارنہیں دیا جاسکتا کیونکہ مشرق و مغرب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جہاں ڈاکو،سمگلر،لٹیرے، چور، دھوکے بازاور قاتل دنیاوی طور پر بڑے کامیاب رہے ۔ جب انہوں نے بے شمار دولت اورشہرت حاصل کرلی تو وہ عزت دار شہری بھی بن گئے۔کیا یہ سب کچھ خدا کے کرم کی وجہ سے ہوا ؟آپ جانتے ہیں کہ میں کن لوگوں کی بات کر رہا ہوں ،وہ لوگ آپ کے اردگرد بھی موجود ہیں۔ اس طرح کے لوگ آپ سے یہ بھی کہیں گے کہ دنیا میں انہیں جو عزت و تکریم ملتی ہے وہ خدا کی عنایت ہے اور اس پر وہ اپنی مقدس مذہبی کتابوں سے حوالے بھی دیں گے اور ان کا ایسا ترجمہ کریں گے جس کا اُن کے اصل سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ان حوالوں کو اس طرح استعمال کریں گے جس سے ان لوگوں کے ذاتی خیالات کی ترجمانی ہوتی ہو۔ میں یہاں ان تمام نام نہاد معززین کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں صرف مفاد پرست سیاست دان ہی نہیں بلکہ مذہبی پیشوا، تجارت ، صنعت کے علاوہ تعلیم ، عدلیہ اور دفاع جیسے نمایاں پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔اِن میں بد تہذیب قسم کے نامور کھلاڑی بھی شامل ہیں جوکھیل کود میں بھی دھڑے بندی اور بغض کی سیاست کرتے ہیں اور اُن میں سے بعض میچوں پر جوابھی کھیلتے ہیں۔ اسی طرح تفریح مہیا کرنے والے بہت سے لوگ بددماغ، حاسد،جھوٹے،دھوکے باز اور بناوٹی ہوتے ہیں۔ بعض گلوکار، موسیقار، اداکار، ماڈلز، ٹی وی پروگراموں کے میزبان، اینکرز اور بہت سے مغرور،بدسلوک اور ترش رویوں کے سرکاری افسران،صحافی، پولیس افسران اور دیگربھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔آپ کو ان مذکورہ بالا اقسام میں بیشتر لوگ ایسے ملیں گے جو جھوٹ،چا لاکی، مکاّری، بے ایمانی ، بے غیرتی ، دھوکہ بازی، بے وفائی ، سازش، خوشامد، حسد اور بغض سے کام لیتے ہیںاور اقربا پروری، رشوت خوری،سفارش، ظلم، ذخیرہ اندوزی،سمگلنگ اور بلیک میلنگ میں ملوث ہیں اورجو جائز و ناجائز حربوں سے غریب مردوخواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس لیے قابلِ احترام ہیں کہ وہ کامیاب ہیں؟ نہیں ،ان کے قریبی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتنے عزت داراور قابلِ احترام ہیں اور آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیںکہ انہوں نے اپنی اس جھوٹی شان و شوکت اور کامیابی کے لیے کس قدر سمجھوتے کیے ہیں، اپنی شخصی سالمیت، غیرت اور عزت کے سودے کیے ہیں، اور یہاں تک کہ اپنے مکروہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی روح تک کو گھائل کر لیا ہے۔انہوں نے اپنے آپ کو نہایت سستے داموں فروخت کردیا ہے۔خوف ، رُعب اور گلیمر پر مبنی یا ان کی بدولت ملی ہوئی عزت جھوٹی عزت ہے، اور ہر گز خدا کی دی ہوئی نہیں ہے۔ آپ کو صرف ان لوگوں کی عزت کرنی چاہیے جو اپنے اعمال، کردار ، برتاؤاور فعل کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں، جنہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور جن کی آپ دل سے عزت کر سکتے ہیں چاہے وہ ا س ظلم ونا انصافی اور عدم مساوات پر مبنی معاشرے کے کسی بھی معاشی و سماجی طبقے، رُتبے، درجے یا شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔جب تک کہ وہ ایک اچھا انسان ہونے کے تقاضوں پر پورا نہ اترتا ہو،کسی بھی دولت مند یا شہرت یافتہ انسان کی عزت و تکریم اس کے سماجی یا معاشی رتبے سے متاثر ہو کر بالکل مت کرو۔یہ سب بھی اُسی طرح کے فانی انسان ہیں جس طرح کے ،ہم آپ سب ہیں۔ ایسے لوگوں کے رعب میں ہر گز مت آؤ اور ان سے بالکل نہ ڈرو۔ اس ضمن میں منافقت، جھوٹی تعریف اور خوشامد سے بالکل کام نہ لو۔ آپ کو عاجز،مہر بان ، خوش اخلاق اور تمیز دار ہونا چاہیے لیکن خوشامدی اور بزدل نہیں ۔