اگر آپ کو اپنے ملک سے باہر نکل کر دنیا کی سیر و سیاحت کرنے اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے لوگوں کو ملنے اورانہیں جاننے کا موقع ملے تو آپ کے ذہن سے اُن کے بارے میںوہ تمام نفرتیں اور تعصبات دور ہو جائیں گے جو دراصل آپ کے ملک کے حکمران طبقے نے آپ کے ذہنوں میں ان کے لیے پیدا کیے ہوتے ہیں۔ آپ کو اس زندہ حقیقت کا ادراک ہوگا کہ دنیا میں رہنے والے تمام انسان ایک جیسے ہیں۔اُن کی رگوں میں بھی اُسی طرح کاسرخ خون دوڑتا ہے جو آپ کی زندگی کا ضامن ہے۔ زندہ رہنے کے لیے اُن سب کی بنیادی ضروریات بھی آپ جیسی ہیں۔ ان تمام ملکوں کے عوام اپنی حکومتوں کے آگے اُسی طرح بے بس اور مجبور ہیں جس طرح آ پ اپنی حکومت کے آگے ہیں۔ اُن ممالک میں براجمان حکمران طبقے اُن سب کا بھی اُسی طرح استحصال کرتے ہیں جس طرح آپ کے ملک کا حکمران طبقہ آپ پر ظلم کرتا ہے۔ بیرون ملک جا کر آپ یہ بھی جان جائیںگے کہ کسی بھی ملک کے عوام کسی اور ملک کے عوام سے لڑنا نہیں چاہتے اور نہ ہی اُن کی کسی سے کوئی لڑائی ہوتی ہے۔وہ تو پہلے ہی اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کے لیے زندگی کے تھپیڑے برداشت کر رہے ہوتے ہیںاور اُن کا مطمح نظر آخر کاراپنی اور اپنے خاندان کی خوشحالی اور عزت ہوتا ہے۔یاد رکھیئے ! دنیا میں رہنے والے تمام انسان برابر ہیں‘ عالمگیر انسانی برادری کا حصہ ہیںلیکن حکمران طبقات غریب عوام کی توجہ اُن کے اصل مسائل یعنی بھوک، غربت، صحت ، بے روزگاری،تعلیم اور عزت سے ہٹا کر اُن کے دماغوں میں قومی اور بین لاقوامی سطح پر لڑائیاں اور تعصبات پیدا کرتے ہیں اور مذہب، فرقہ پرستی، نسل پرستی، صنفی ،لسانی، ذات پات ،علاقائیت اورتنگ نظرقومیت جیسے ایشوزکا سہارا لے کراُن کوالجھاتے ہیںاور بھونڈے طریقے سے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں نہ سوچیں ، نہ آواز اُٹھائیں اور نہ ہی ان کے لیے متحد ہو کر استحصالی قوتوں اور نظام کے خلاف جدوجہد کریں ۔ اپنے آخری تجزیے میں یہ جدوجہدہم سب کے اس بنیادی حق کے لیے ہوگی کہ دنیا میں پیدا ہونے والے تمام غلّے اور اس دنیا میں بنائی جانے والی تمام چیزوں اور اس میں موجود تمام مواقع اور سہولیات پرہمیں، ہمارے بچوںاورہمارے خاندان کو برابری کی سطح پر دسترس حا صل ہو۔ اور ہاں ! ہوشیار رہنا!وہ عالمی انسانی برادری اور دنیا کو درپیش مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے آپ کی آزادانہ سوچ کو دبانے کی کوشش کریں گے۔ جی ہاں! آزادانہ سوچ! جو کہ انسان کی آزاد قوت ارادی کی سب سے اعلیٰ پیداوار ہے۔ آپ کو ذہنی کے ساتھ ساتھ جسمانی، جذباتی اور روحانی اعتبار سے بھی تندرست ہونا چاہیے۔ اس کے لیے آپ کوکھیلوں اور فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہوگا۔ آپ میںسے وہ جو پڑھ سکتے ہیں یا طالبعلم ہیں، اس سے قطع نظر کہ آپ اپنی رسمی تعلیم میں کیا پڑھ رہے ہیں،آپ کو تاریخ، فلسفہ، معاشیات، ادب اور سیاسیات کا لازمی طور پر مطالعہ کرنا ہوگا۔میں آپ کو پھر بتارہا ہوں کہ دنیا کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔آپ ہر گز ایسے لوگ نہیں ہو سکتے جو صرف اپنا کیرئیر بنانے کے لیے یا صرف اپنی ذاتی ترقی کے لیے کسی کمپنی یا سماجی تنظیم میں کام کریں بلکہ آپ کو یہ صرف اس لیے کرناہو گا تا کہ آپ اپنی روزی کما سکیں ۔ نہ ہی آپ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو ایک خاص معیار زندگی کو ہمیشہ اور ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کے ہیروز نہیں ہو سکتے! آپ کے ہیروز صرف انہی لوگوں کو ہونا چاہیے جن کی اعلیٰ ذاتی مثال کی وجہ سے آپ اُن کی دل سے عزت کرتے ہوں ۔ جو بلا خوف و خطر کھڑے ہوکر صرف سچائی بیان کرسکیں اوربدعنوان اور طاقتوراداروں کو للکار سکیں۔ جوکسی بھی مشکل وقت میں اپنے سماجی رتبے کی قربانی دے سکیںاوراپنے خاندان اور اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ اپنے مقصد اور اقدارکے ساتھ بھی انصاف کر سکیں۔ آپ اورآپ کے قائدین بزدل،ڈرپوک، منافق، دھوکے باز اور جھوٹے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آپ اپنی صفوں میںایسے لوگوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا سکتے ہیں۔اور ہاں ! یاد رکھئے کہ لیڈروںکو دوسروں سے زیادہ جدوجہد کرنا ہو گی۔انہیں انسانی برابری پر مبنی اپنے سیاسی و سماجی نظریات اور فلسفے کی سچائی کی مسلسل تحقیق و ترویج کرنا ہو گی۔ انہیں ہر قسم کی قربانیوں کی ذاتی مثال قائم کرنا ہو گی اورمساوات پر مبنی اپنی مسلسل سیاسی و سماجی جدوجہد کو جاری رکھنا ہو گا۔ لیکن سب سے زیادہ اُنہیں لوگوں کو اپنی عاجزی ،صبر وتحمل ،محبت اور شفقت سے جیتنا ہوگا۔ آپ کو ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ اور ان کی شخصیت کوان قائدانہ صلاحیتوں کے لیے ہر لحاظ سے پرکھنا ہوگا جن کا مظہر ان کی ذاتی زندگی کی مثالیں ہوں نہ کہ ان کی متکبرانہ شہرت، دولت،دنیاوی عزت وتکریم اور کامیابی۔ لیکن سب سے زیادہ آپ کو ان ہیروز کو اپنے وجود کے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ حضرت محمدﷺ، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیھما السلام سب عاجزی کا نمونہ تھے اور دنیاوی طور پر یہ سب ما ل و جائیداد سے خود اپنی مرضی سے دور رہنے والے نہایت سادہ لوگ تھے۔ اُن کے پاس دولت کے انبار بھی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی مال جمع کیا یا ذاتی جائیداد بنائی اور نہ ہی اپنے پیچھے چھوڑ ی۔ان تمام عظیم انسانوں میں ایک اور اہم بات جو قدرِ مشترک تھی وہ یہ کہ یہ سب اپنے دور کے عظیم انقلابی تھے اور انہوں نے اپنے اپنے وقت اور حالات میں اپنے اپنے طریقے سے سچائی ، انصاف ، غریبوں ، مظلوموں ، محروموںاور بے کسوں کے حقوق کے لیے اور سب سے بڑھ کر انسانی برابری اور مساوات کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی۔ مگر حیران کن اور دکھ انگیز با ت یہ ہے کہ لوگ اُن عظیم ہستیوں کا نام لے لے کر دولت اور طاقت اکٹھی کرتے ہیں اور اُن سے اپنی عقیدت کا دعویٰ کرنے وا لے منافقانہ طور پر اُن کی اصل تعلیمات (جو کہ انسانی برابری اور مساوات کا درس دیتی ہیں)کو یکسر بدل کر اُنہیں اپنے لیے مال جمع کرنے اور تمام انسانوں کا اس دنیا میں موجود ہر چیز پر برابر کا حق اور حصہ نہ دینے بلکہ اُسے چھیننے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اُن کی طرح انسانی اونچ نیچ، لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی پر بنے اس ظالم طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں، حکمران طبقات ، کامیاب ،دولتمند ، مشہور، طاقتوراور نام نہاد معزز لوگوں کے علاوہ بڑی حد تک عام آدمی بھی جہاں تک بن پڑے، اس منافقانہ روش کواپنے ذاتی فائدے حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ دوسرے عقائد کے ماننے والے بھی گوتم بدھ، رام چندرجی اور بابا گرو نانک کی عزت تبدیلی کے حوالے اُن کی جدوجہد اور جذبے کی وجہ سے کرتے ہیں لیکن وہ بھی اس دنیا میں قائم اس باطل سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے خود کچھ نہیں کرتے۔ آپ چاہے مسلمان ہوں،عیسائی ہوں، یہودی ہوں ،بدھ مت ہوں، ہندوہوں، سِکھ ہوں یا پھر کسی بھی اور مذہب سے ہوں، کسی بھی ملک یا قوم سے ہوں یا کسی بھی ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں، میں آپ سے ایک ہی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ہر گز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم تمام لوگ سب سے پہلے انسان ہیں۔ ہم سب کی اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور اپنے خاندان کے لیے ایک جیسی تمنائیں، خواہشات اور امیدیں ہیں۔ہم سب کی خواہش ہے کہ ہمارے سمیت جو انسان بھی اس دنیا میں پیدا ہوں اور جئیں،اُنہیں اس دنیا میں موجود زندگی کی تمام سہولیات اور مواقع یکساں طور پر فراہم ہوںاوروہ بیماری سے آزاد ایک تندرست ، خوشحال، عزت داراور لمبی عمر پائیں۔ ہم سبھی چاہتے ہیں کہ یہ دنیا خوبصورت اور شاندار ہو۔مجھے پورا یقین ہے کہ ہم سب مل کر معاشی اور سماجی انصاف پر مبنی ایک پُرامن دنیا کی تعمیر کر سکتے ہیں، جہاں طبقات ،نسل ،مذہب ،قومیت ، ذات پات ،صنف،رنگ،زبان اور علاقا ئیت کی بنیادوں پر ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کا استحصال نہ ہو۔ہمیں اپنے اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کے لیے مل کرانسانی مساوات اور برابری کیلئے جدو جہدکرناہو گی جس کی بنیادیں انسانیت، سچائی اور انصاف کے آفاقی اصولوں پر مبنی ہیں ۔