جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا‘ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر انسانی مساوات کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتے۔ اگر آپ ان سے اس کی وجہ پوچھیں تو وہ کہتے ہیں خدا کا نظام یہی ہے کہ لوگ برابر نہ ہوں‘ انہیں امیر اور غریب طبقات میں بانٹ کر رکھا جائے یعنی ایسا معاشرہ ہو جس میں کچھ لوگ تو خوشحال اور طاقتورہوںاور باقی سب مجبور و محروم۔ان کے کہنے کے مطابق امیر اور غریب طبقے ہمیشہ دنیا میں رہیں گے اور اسے کبھی بدلا نہیں جا سکتا۔آئیے اب ہم ان کی اس بات کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ پھر آپ لوگ سیاست کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو غریب عوام کا کتنا درد ہے جو آپ کو بے چین رکھتا ہے؟ حالانکہ آپ کے اپنے کہنے کے مطابق طبقاتی تفریق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اصل میں ہم سے انسانوں کا غم دیکھا نہیں جاتااور ہم رحم کھا کر ان بے چاروں کی حالت کو تھوڑا سا بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے امیروں کو اور امیر بنایا جائے تا کہ پھر وہ نئے کاروبار کھولیں یا پرانے کاروبار کو مزید بڑھائیں تاکہ غریب لوگوں کو نوکریاں دی جاسکیں یا ان کی تنخواہیں تھوڑی سی بڑھائی جاسکیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ کے کہنے کے مطابق خدا دنیا میں انسانی مساوات نہیں چاہتا تو کم از کم اتنا تو بتا دیں کہ خدا آپ کے ذریعے ان لوگوں کی حالت کتنی بہتر کرنا چاہتا ہے؟ کس کو کتنی تنخواہ دی جائے‘ کس علاقے کے کتنے لوگوں کو کتنی خوشحالی دی جائے؟ یہ سب کہاں لکھا ہے اور انہیں یہ کیسے معلوم ہے؟ وہ نہایت حیرت سے کہتے ہیں کہ اس کا تو خدا کو ہی علم ہے اور یہ تو اس کی مرضی ہے‘ ہم تو صرف کوشش ہی کر سکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی نیت اور مرضی سے ہوتا ہے اور اصل میں وہ خدا پر بہتان باندھتے ہیں۔ اگر آج وہ اپنے دلوں پر پڑے ہوئے تالے کھول دیں جن کی وجہ سے خود غرضی اور لالچ ان کی زندگی کا محور بن گیا ہے اور وہ اپنی ذاتی دولت اور جائداد بڑھانے کے بجائے ان بے شمار غریب اور مظلوم انسانوں کے بارے میں سوچیں جن سے گمراہ کن باتیں کر کے وہ ان کا حق مار رہے ہیں، تو پھر ان کی نگاہوں پر پڑے ہوئے ہوس کے جالے چھٹ جائیں گے اور انہیں ادراک ہو گا کہ اگر ان کی اپنی نیت اور ارادہ سچا ہو تووہ انسانوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا اور ان کی سیاسی پارٹیوں کا بجٹ، منشور یا دستور ان کو خدا کی طرف سے نہیں ملتا بلکہ یہ سب وہ اپنی نیت اور مرضی سے بناتے ہیں جس کی بنیاد پر غریب عوام کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جتنی بُری ان کی نیت ویسا ان کا منشور، جیسا منشور ویسی ان کی حکومت، جیسی حکومت ویسا ان کا بجٹ اور جتنا بُرا بجٹ اتنی ہی بُری عوام کی حالت ہوتی ہے۔غرض ان سب کے عوام کے لیے کچھ کرنے کے عزائم ،ارادے اور نیت اصل میں ان کے منشور‘ دستوراور حکومت ملنے کی صورت میں ان کے عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ فرض کریں ان کی یہ جھوٹی بات ایک سیکنڈ کے لیے مان بھی لی جائے کہ یہی خدا کی مرضی تھی تو پھر ان سب کے منشورایک دوسرے سے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟ اس صورت میں تو ان کو ایک جیسا ہونا چاہیے بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی پارٹیوں کے حوالے سے خدا کی مرضی کو ایک دوسرے سے مختلف سمجھتے ہیں۔ کتنی مضحکہ خیز اور جھوٹی بات ہے! وہ اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لیے خدا کا نام لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ انسانی برابری اور مساوات کا سوال سیاست میں زیرِ بحث آتے ہی یہ لوگ ڈر جاتے ہیں۔ مزدوروں، کسانوں اور ملازموں پر ظلم کر کے لُوٹ کھسوٹ کے ذریعے کمائی ہوئی اپنی جائدادیں، دولت اور شان و شوکت بچانے کے لیے یہ جھوٹ بول کر خدا کا نام استعمال کرتے ہیںاور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اصل میں خدا نہیں چاہتا کہ انسان برابر ہوں۔پرانے زمانے کے بادشاہ بھی یہی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بادشاہت انہیں خدا نے عطا کی ہے اس لیے کسی کو اس عطا کردہ مقدس طاقت کے خلاف بات کرنے کا حق نہیں‘ چاہے وہ سیاہ کریں یا سفید۔ملک کی تمام زمین اور دولت کے مالک وہی ہیں اور عوام محض ان کی رعایا ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ خود کو ظلِ الٰہی کہلوانے والے بادشاہوں کے خلاف بھی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے لہٰذا اِس وقت چند ملکوں کے سوا پوری دنیا میں بادشاہت کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہت ہو یا غلام داری، جاگیرداری ہو یا سرمایہ داری، ان میں سے کوئی نظام بھی خدا نے نہیں بنایا۔ اگر بادشاہت خدا کا نظام ہوتا تو وہ ہمیشہ قائم رہتی، اگر خدا انسانوں کو غلام بنانے کو پسند کرتا تو پھر یہ نظام بھی باقی رہتا۔ یہ سب نظام اب متروک ہو چکے ہیںاور دنیا میں رہنے والے اربوں غریب لوگوں کو یہ کچھ نہیں دے سکے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی نظام خدا نے بنایا ہوتا تو اس کے خلاف انسانوں کی اکثریت اپنا فیصلہ سُنا کر اسے تاریخ کے کوڑے دان میں نہ پھینکتی۔ یاد رہے کہ یہ لوگ جو بھی کہیں ان سب کے ادوار میں غریب ، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج غریب اس ملک میں 80فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ دراصل انسان اتنا کر سکتا ہے جتنا وہ خواب دیکھنے کی اہلیت اورحوصلہ رکھتا ہے۔ امیر لوگوں کی سوچ بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے‘ یہی کہ وہ غریبوں کے لیے ’’ـکچھـــ‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ اپنے اس ’’ کچھ ‘‘کو بھی نہیں کر پاتے تو پھر ’’کچھ‘‘ نہ کر سکنے کو ہی وہ اپنا سب ’’کچھ‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے اس کے لیے بہت کوشش کی ہوتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ نا معلوم اور ناپید ’’کچھ‘‘ غریب عوام کے لیے صرف بربادی کا سامان ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو بہت کوشش کے باوجودغریبوں کے حوالے سے ان کے ’’کچھ ‘‘نہ کر سکنے کی ناکامی، ان کے ذاتی مال و جائداد کی دن بہ دن بڑھوتی سے بالکل میل نہیں کھاتی۔اپنے ادوارِ حکومت یا اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان لوگوں کے بنک بیلنس مسلسل بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جن سہولیات اور عیاشیوں میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں، عام آدمی اس کا سوچ بھی نہ سکے۔وہ خود کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑتے چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے لیکن باقی لوگوں کو یہ کہہ کر ہر چیز سے محروم رکھتے ہیں کہ یہ خدا کا نظام ہے۔ ان تمام لوگوں کو یہاں نہیںبلکہ دوسرے جہان میں سب کچھ ملے گا۔ یہ لوگ خود دوسرے جہان میںجانے کی نہ تو خواہش اور تیاری کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کے اپنی حفاظت کے لیے کیے گئے انتظامات سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ کہتے تو وہ یہ ہیں کہ جنت کی خاطر زندہ ہیں،لیکن جنت میں جانے کی انہیں کوئی خاص جلدی نہیں ہوتی۔ وہ دنیا کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا چاہتے ہیںاور دنیا میں زندگی کو اپنے لیے جنت مگر غریب عوام کے لیے جہنم بنانے کی سر توڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کیا انسانی مساوات اور برابری کو نہ ماننے والے یہ لوگ واقعی اس لائق ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر تھما دی جائے؟ اپنے اگلے کالم میں ہم پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتوں کے دستور، منشور اور پروگرام کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں گے۔