اپنے پچھلے کالم میں ہم نے چار نہایت اہم چیزوں کی نشاندہی کی تھی : 1۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ایک جیسی ہیں اور ان میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کہ یہ سب کی سب انسانی مساوات اور برابری کی بات نہیں کرتیں۔ ان تمام کا نصب العین ایک ہی ہے یعنی طبقاتی بنیادوں پر قائم استحصالی سر مایہ دارانہ نظام کی حفاظت کرنا اور اسے طول دینا۔ 2 ۔ یہ تمام پارٹیاں ٹی وی‘ اخبارات اور اشتہارات میں اپنے گمراہ کن پراپیگنڈے سے عوام کو ان کے اصل مسائل یعنی بھوک، غربت، تعلیم، علاج، روزگار، عزت اور مساوی خوشحالی سے کو سوںدور رکھتی ہیں۔ وہ انہیں عدلیہ اور مقننہ کی آپس کی لڑائی‘ جمہوریت، آمریت، صوبائیت، علاقائیت، تنگ نظر قومیت،صنفیت ،مذہبیت، فوج اوردیگر اداروں کے مابین کشمکش جیسے مسائل میں الجھا کر رکھتی ہیںتا کہ وہ کہیں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے اس دنیا میں موجود اور پیدا ہونے والی ہر چیز پر اپنا برابر کا حق اور حصہ لینے کی جدوجہد شروع نہ کر دیں۔ 3۔ یہ دنیا اسی لیے نہیں بدلتی کیونکہ لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے برابر نہیں سمجھتے۔جس دن یہ ہوگیا اس دن اس دنیا کو انسانی برابری اور مساوات پر قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہو گا۔ 4۔ ہم نے پاکستان کی تمام پارٹیوں کے اپنے لکھے ہوئے منشور، دستور اور اقدامات پر روشنی ڈالنے اوراس بات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا کہ کن بنیادوں پر یہ پارٹیاں تشکیل دی گئیں اور کس منشور پر انہوں نے عوام سے ووٹ مانگے اور حاصل کیے تا کہ ان کے منشوراور عملی اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے ان میں موجود تضادات کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ہم نے اس پارٹی کا انتخاب کیا تھاجس پارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام بتایا گیا تھا۔ 1۔پاکستان پیپلز پارٹی: پاکستان پیپلز پارٹی کی 30نومبر 1967ء کو پیش کی جانے والی تاسیسی دستاویز میں سے چند اقتباسات کا جائزہ۔ (دستاویز نمبر ۵ تاسیسی اجلاس) بنیادی اصول ۱۔ مقاصد پارٹی کا مقصد پاکستان کو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ایک سوشلسٹ معاشرے میں ڈھالنا ہے۔ ۲۔ راہنما اصول پارٹی اپنی پالیسی اور سرگرمیوں کے لئے مندرجہ ذیل راہنما اصول اختیار کرتی ہے۔ ا۔ مساواتی جمہوریت یعنی غیر طبقاتی معاشرہ۔ ب۔ اقتصادی اور سماجی انصاف کے حصول کی خاطر سوشلسٹ نظریات کا استعمال میرے دوستو! آپ اوپر دیے گئے پاکستان پیپلز پارٹی کے منشورکے آغاز سے ہی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ منشور خالصتاً ایک انقلابی پارٹی کا منشور تھا، جو کہ غیر طبقاتی بنیادوں پرپاکستان میں ایک نیانظام قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس پارٹی نے نہ صر ف یہ کہ اپنے ہی لکھے ہوئے منشور سے انصاف نہ کیا بلکہ اس سے یکسر انحراف کیا۔ذوالفقار علی بھٹو صاحب، بے نظیر بھٹو صاحبہ اور ذرداری صاحب سے لے کر ان کی پارٹی کے تمام لیڈران غیر طبقاتی معاشرہ بنانا تو کیا، اس ملک سے غربت بھی ختم نہ کر سکے اور آج یہ حال ہے کہ لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں روپیہ کمانے والے یہ پارٹی لیڈران بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ا ن غریبوں کو ایک ہزار روپیہ دے کر اپنی دریا دلی کا واویلا مچاتے ہیں جن کی غربت اور بد حالی کی ایک بڑی وجہ ان کے اپنے ادوارِ اقتدارمیں ان کی غریب دشمن پالیسیاں تھیں۔ مزدوروں، کسانوں اور مظلوموںکی بات کرنے والی اس پارٹی نے جاگیرداروں، سرمایہ داروںاور سامراجی طاقتوںکے مفادات کا تحفظ کیا۔ ہر چند کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب ایک نہایت ذہین، بہادراور دلیر سیاست دان تھے اوروہ غریب عوام کے لیے اپنے دل میں بے پناہ درد بھی رکھتے تھے، جس کی پاداش میں ان کو سُولی پر بھی لٹکنا پڑا، لیکن یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے کہ بہت سی حکومتی مصلحتوں کے تحت ان کے دورِ حکومت میں ہزار ہا مزدوروں اور طلباء کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔زرعی اصلاحات شروع تو کی گئیںلیکن جاگیر داروں کے بے تحاشا دبائو کی وجہ سے ان کو پورا نہ کیا گیا۔جس انقلاب اور غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کے بجائے وہ صرف نعروں میں ہی کھو کر رہ گیا اور پارٹی کی مصلحت پسندانہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشرے میں مساوات اور برابری قائم نہ ہو سکی۔ اسی لیے جس وقت جنرل ضیاء الحق صاحب نے ایک فوجی مارشل لاء کی صورت میں پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین آمرانہ دور شروع کیاتووقت نے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے ساتھ نہ تو جاگیر دار اور سرمایہ دار کھڑے تھے اور نہ ہی ان کو بچانے کے لیے مزدور ، کسان، طلباء اور ملازمت پیشہ لوگ آگے آئے۔اقتدار کی مصلحتوں کی وجہ سے اپنے اور اپنی پارٹی کے دیے گئے منشور میںغریب عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرنے کی غلطی ہی انہیں تختہ دار تک لے گئی ۔یہ وہی غریب مزدور، کسان اور سفید پوش تنخواہ دار ملازم تھے جنہیں نہ تو اس دور میں خوشحالی نصیب ہوئی اور نہ ہی آج تک وہ غربت ، محرومی اور جبرکے اندھیروں سے باہر نکل سکے ہیں۔ آج بھی وہ اس ملک کی پوری آبادی کا 80%حصہ ہیں۔اپنی اس غلطی کا اعتراف انہوں نے جیل کی کال کوٹھڑی میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب’’ اگر مجھے قتل کر دیا گیاــ‘‘ میں کیا۔ اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر 55 میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلا ہوں کیونکہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے اور متضاد و متحارب طبقات کے مابین ایک آبرو مندانہ اور منصفانہ مصالحت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ ایسی ہر مصالحت کی کوشش محض ایک خام خیالی ،ایک دھوکہ ہے۔ فوجی بغاوت یہ ثابت کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش نا قابلِ مصالحت ہے۔اس میں ایک طبقے کی جیت اوردوسرے طبقے کی شکست ہونا ضروری ہے، یہی اٹل حقیقت ہے۔‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی 1967 ء میں ایک انقلابی پارٹی کے طور پر ابھری تھی لیکن اصل میں اس نے1968-69 ء میں ایوب خان صاحب کی مارشل لاء دورِ حکومت میںمعاشی بدحالی اور ریاستی جبر کے خلاف عوام کی ایک بھرپور انقلابی تحریک سے جنم لیا تھا۔ یہ کم و بیش ایسی ہی تحریک تھی جیسی تحریکیں ہم آج کل مصر، تیونس، ترکی، شام، لیبیا، سپین ، یونان اور لاطینی امریکہ کے ملکوں وینزویلا، بولیویا ،برازیل اور چلی میں دیکھ رہے ہیں ۔ اس تحریک میں طلباء، مزدور، کسان اور سفید پوش طبقہ سب شامل تھے، جگہ جگہ لوگ مظاہرے کرتے تھے اور جلوس نکالتے تھے، بڑے بڑے جلسے منعقد کیے جاتے تھے، پُر زور احتجاج ہوتے تھے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جاتی تھی۔ طلباء اور مزدور ہڑتالیں کرتے تھے اور کسان اپنا کام چھوڑ کر ان احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے اور یہ سب اپنے مطالبات پیش کرتے تھے۔ اس دور میں پاکستان میں پہلے ہی سے بہت سے انقلابی گروپ متحرک تھے جن کو مزدوروں ، کسانوں اور طالب علموں کی ایک بہت بڑی حمایت حاصل تھی۔جب انہوں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب بھی مساوات کی بات کر رہے ہیں اور ایک انقلابی پارٹی بنانا چاہتے ہیں تو وہ سب بھی اس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ بھٹو صاحب کی بہت بڑی مقبولیت خاص طور پر طلباء، سفید پوش اور متوسط طبقات میں پہلے ہی اس وقت سے موجود تھی جب انہوں نے1965ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے ایک اہم اوراثر انگیز تقریر کی تھی۔ اس کے بعد15دسمبر 1971ء کو دوبارہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ایک پولش قرار داد کے دوران انہوں نے ایک نہایت جذباتی تقریر کی تھی اور بھرے مجمعے میں اپنے کاغذات پھاڑ کر وہاں سے احتجاجی واک آئوٹ کر دیا تھا۔ پاکستان اور پوری دنیا کے ٹی وی چینلز نے ان لمحات کو دکھایا تھا اور پوری دنیا کے اخبارات ان خبروں اور ان پر ہونے والے تبصروں سے بھر گئے تھے۔اسی لیے جب انہوں نے پارٹی بنائی تو معاشرے کے ستائے ہوئے غریب، مظلوم، مزدور، کسان، طلباء اور متوسط طبقے کے سفید پوش لوگوں نے انہیں لبیک کہا۔ (جاری ہے)