"KMK" (space) message & send to 7575

بحث لاحاصل

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن فی الوقت عمران خان کی اپنے چاہنے والوں میں پوزیشن ہے جو کسی زمانے میں ایم کیو ایم کے کارکنوں میں الطاف حسین کی ہوتی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان بہرحال اپنے مخالفوں اور باغیوں کے لیے دہشت کی وہ علامت ہرگز نہیں ہیں جو الطاف حسین سے وابستہ تھی۔ اندھی تقلید سے ہٹ کر ابھی عمران خان دہشت کی اس منزل سے کوسوں دور ہیں جہاں کوئی بندہ لندن سے اپنی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو حکم دے تو وہ دیوار کی طرف منہ کر کے گھنٹوں کھڑے رہیں اور ابرو کے اشارے پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں۔ جبکہ خان صاحب کا یہ حال ہے کہ ان کا کراچی والا ایم این اے استعفے سے مکر گیا اور بذریعہ عدالت اپنا استعفیٰ واپس کروا کر اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ الطاف بھائی کے بھلے دنوں میں کسی ایم کیو ایم والے کی یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ خواب میں بھی ایسا کرے اور صبح خشک کپڑوں کے ساتھ بستر سے باہر نکلے۔
تاہم اندھی تقلید اور اپنے لیڈر کو معصوم عن الخطا کے جس مرتبے پر عمران خان کے مقلدین نے فائز کیا ہے اس کی موجودہ سیاسی منظرنامے میں مثال نہیں ملتی۔ خان صاحب کے پرانے بیانوں اور اس سے ایک سو ڈگری کے زاویے پر کیے جانے والے اقدامات عرف یو ٹرن پر گفتگو کریں تو ان کے چاہنے والے ان کا دفاع کرتے ہوئے جس قسم کے دلائل دیتے ہیں اس پر ہنسی بھی آتی اور رونا بھی آتا ہے کہ کیسے کیسے پڑھے لکھے لوگ ہیں جن کی عقل پر سٹین لیس سٹیل کا خود چڑھ چکا ہے۔ اوپر سے خان صاحب کی قسمت بھی ایسی ہے کہ ان کا ہر الٹا کام ان کے حق میں جا رہا ہے۔ اب اس توشہ خانے والے معاملے پر ہونے والی نااہلی کو ہی دیکھ لیں۔ خان صاحب کا ہر دیوانہ اسے ''رجیم چینج‘‘کا پارٹ ٹو قرار دے رہا ہے ان کے خیال میں (بلکہ یقین ہی کہہ لیں) جب نیوٹرلز سے‘ امپورٹڈ حکمرانوں سے اور بین الاقوامی چودھریوں سے عمران خان کی مقبولیت اور سیاسی طاقت سے لڑنے کی سکت نہیں رہی تو انہوں نے خان صاحب کو میدان سیاست سے آؤٹ کرنے کے لیے توشہ خانہ جیسا پاکھنڈ پھیلایا اور خان صاحب کو اس نام نہاد کیس میں نااہل کروا دیا۔ انہیں خان صاحب کا ایک پرانا بیان دکھایا جس میں وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے غیر ملکی حکمرانوں سے ملنے والے تحائف پر پولیس کی تفتیش کی مثال دے رہے تھے تو آگے سے جواب ملا کہ نیتن یاہو اور خان صاحب کا کیس بالکل مختلف ہے۔ عرض کی کہ دونوں میں فرق بتا دیں تو آگے سے جواب ملا کہ اب انہیں نیتن یاہو والے کیس کا تو علم نہیں وہ کیا تھا لیکن انہیں پتا ہے کہ خان صاحب سے بہرحال وہ غلطی یا قصور تو سرزد ہو ہی نہیں سکتا جو نیتن یاہو نے کیا تھا۔
میں نے انگلینڈ میں بحث کرنے والے اپنے ایک پڑھے لکھے اور روشن خیالی کے دعویدار دوست سے سوال کیا کہ توشہ خانے سے سستے داموں تحائف خریدنے کے معاملے میں نواز شریف‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ آصف زرداری اور عمران خان میں کیا فرق ہے؟ وہ کہنے لگا: زمین آسمان کا فرق ہے۔ نواز شریف‘ یوسف رضا اور آصف زرداری نے پندرہ فیصد کی ادائیگی کر کے تحفوں کی لوٹ سیل لگائی تھی جبکہ خان صاحب نے پچیس فیصد کی ادائیگی کر کے تحفے قانون کے مطابق خریدے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ نواز شریف‘ یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری وغیرہ تو خرید کر وہ اس لوٹ مار کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے جبکہ خان صاحب نے یہ تحفے مارکیٹ میں فروخت کر دیے۔ جواب ملا کہ جب آپ نے چیز خرید لی تو پھر وہ آپ کی ہو گئی۔ اب آپ کی مرضی کہ اسے بیچیں یا اپنے استعمال میں لائیں۔ میں نے کہا: میں قانونی پہلو سے ہٹ کر اخلاقی حوالوں سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا بحیثیت سربراہ مملکت ملنے والے غیر ملکی تحفوں کو اونے پونے خرید کر مہنگے داموں فروخت کر کے نفع جیب میں ڈال لینا مناسب لگتا ہے؟ وہ کہنے لگا: اس میں کیا حرج ہے؟ آپ نے اپنی ذاتی چیز کبھی فروخت نہیں کی؟ میں نے کہا :اگر وہ فروخت کردہ تحفہ گھوم کر اسی کے پاس واپس پہنچ جائے جس نے یہ تحفہ دیا تھا تو کس قدر شرمندگی کی بات ہے؟ آگے سے وہ کہنے لگا: اس میں شرمندگی کیسی‘ تحفہ دینے والے نے دے دیا‘ اب کیا وہ اشٹام لکھوائے گا کہ اس تحفے کو ساری عمر بندہ اپنے گلے سے لگائے رکھے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں غلط بندے سے بحث کر رہا ہوں۔ دو تین مزید دوستوں سے بات ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ کسی ایک غلط بندے سے نہیں بلکہ ایک پورے گروہ سے غلط بحث کر رہا ہوں۔
وہ کہنے لگے کہ پہلے والے سارے چور‘ کرپٹ اور بے ایمان تھے۔ عمران خان بہرحال تبدیلی لایا ہے۔ میں نے پوچھا :کیا تبدیلی لایا ہے؟ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں پوچھا گیا کہ میاں صاحب کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی تفصیل دی جائے۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے لکھ بھیجا کہ یہ تفصیل فراہم کرنے سے ہمارے تعلقات تحفہ دینے والے ممالک سے خراب ہو جائیں گے۔ جب عمران خان کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی تفصیل مانگی گئی تو ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے جواب دیا کہ اس تفصیل کو فراہم کرنے سے پاکستانی حکومت کے تعلقات تحفہ دینے والے ممالک سے خراب ہو جائیں گے‘ یعنی جو جواب میاں نواز شریف کا پرنسپل سیکرٹری اپنے وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دے رہا ہے وہی جواب عمران خان صاحب کا پرنسپل سیکرٹری دے رہا تھا‘ تو تبدیلی کہاں آئی؟ آگے سے اس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھ سے سوال کر دیا کہ آپ یہ بتائیں کہ میاں نواز شریف‘ یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری کے توشہ خانے والے کیس کا فیصلہ کیوں نہیں آیا؟ میں نے کہا: مجھے یہ تو علم نہیں کہ فیصلہ کیوں نہیں آیا؛ تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ فیصلہ بھی‘ بھلے سے جیسا بھی ہو آنا چاہئے۔ وہ کہنے لگا :الیکشن کمیشن جانبدار ہے اور پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہے۔ میں نے کہا :دو غلطیاں مل کر ایک درست جواب نہیں بن سکتیں۔ آپ فی الحال خان صاحب والے کیس پر بات کریں۔میں نے پوچھا کہ اسے علم ہے کہ خان صاحب پہلے تحفے گھر لے گئے اور ان کی ادائیگی انہیں بیچنے کے بعد کی۔ وہ کہنے لگا: تو کیا ہوا ؟ کیا وزیراعظم ان کے پیسے لے کر بھاگ جاتا۔ آپ بھی تو اعتبار پر چیزیں لاتے ہوں گے۔ میری حماقت ملاحظہ کریں‘ میں نے کہا کہ شیخ رشید‘ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی‘ زلفی بخاری‘ اور ان کے کئی دیگر قریبی وزرانے تحفے توشہ خانے میں جمع کرانے کے بجائے صاف کھسکا لیے۔ وہ کہنے لگا: تو اس میں خان صاحب کا کیا قصور ہے آپ یہ سوال ان وزرا سے پوچھیں۔ میں نے پوچھا کہ خان صاحب نے اپنی ٹیکس ریٹرن میں ان تحائف کا ذکر نہیں کیا۔ وہ کہنے لگا :آپ بھی بالکل عقل سے فارغ ہیں۔ جو چیز انہوں نے بیچ دی تھی اور ان کی ملکیت ہی نہیں رہی تھی تو وہ اسے اپنی ٹیکس ریٹرن میں کیسے دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا: اپنی ٹیکس ریٹرن میں پورے مالی سال کے دوران خریدی جانے والی جائیداد‘ پرائز بانڈ‘ زیور اور خرید کردہ تحائف وغیرہ کی تفصیل دی جاتی ہے ۔اگر ان کو فروخت کیا ہے تو اس سے حاصل کردہ رقم کو اپنے Gain میں لکھتے ہیں۔ وہ دوست مجھ سے پوچھنے لگا کہ کبھی آپ نے انکم ٹیکس ریٹرن خود جمع کروائی ہے؟ میں نے کہا: میرے عزیز میں گزشتہ چوبیس سال سے اپنی ریٹرن اسی طرح جمع کروا رہا ہوں۔ وہ کہنے لگا: ایک تو آپ خود اپنی ریٹرن غلط جمع کروا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ باقی لوگ بھی آپ کی طرح غلط ریٹرن جمع کروائیں؟ خان صاحب تو ایسا نہیں کر سکتے۔ اب بھلا میں لاجواب نہ ہوتا تو اور کیا کرتا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں