"KMK" (space) message & send to 7575

رنگین دنیا کی ان کھلی کھڑکیاں

ویانا کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ایسا شاندار ہے کہ بیان سے باہر۔ شہر کی شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں سے آپ کو پبلک ٹرانسپورٹ فوری طور پر میسر نہ ہو۔ انڈر گراونڈ‘ ٹرام اور بسوں پر مشتمل یہ نظام شہر کے ہر حصے تک رسائی رکھتا ہے۔ ایک دن تو میں نے مبلغ آٹھ یورو میں ''ڈے ٹکٹ‘‘ لے کر خوب انجوائے کیا اور جہاں جی چاہا اُتر گیا اور جہاں دل کیا چڑھ گیا۔ کہیں انڈر گراونڈ استعمال کی‘ کہیں ٹرام اور کہیں بس کے مزے لئے۔ لیکن سچ پوچھیں تو جو مزہ پیدل چل کر چوک چوراہوں‘ عمارتوں‘ گلیوں‘ باغیچوں اور فٹ پاتھوں پر گھومنے کا ہے وہ کسی سواری پر چڑھ کر گھومنے میں ہرگز نہیں ہے۔
شہرکا فرسٹ ڈسٹرکٹ سارے ویانا کا مرکز ہے اور اس میں بہت کچھ ہے۔ ہابسبرگ خاندان کی اولین اور آخر تک شاہی رہائش گاہ ''ہوفبرگ‘‘ اسی ڈسٹرکٹ میں ہے۔ سینٹ سٹیفنز کیتھڈرل‘ ویانا اوپرا ہاؤس‘ سینٹ چارلس چرچ‘ آرٹ ہسٹری میوزیم‘ نیشنل ہسٹری میوزیم‘ سٹی ہال (راتھاؤس ہال)‘ آسٹرین نیشنل لائبریری‘ سیسی میوزیم اور پارلیمنٹ بلڈنگ کے علاوہ گلیوں میں بکھری ہوئی ایسی ایسی عمارتیں کہ بندہ پہروں کھڑا دیکھتا رہے۔ہوفبرگ کے پیچھے برگارٹن پارک ہے جس کے بائیں طرف موزارٹ میموریل (مجسمہ) اور عقب میں ''بٹر فلائی ہاؤس‘‘(تتلی گھر) ہے۔ دل بہت مچلا کہ اس کے اندر جاؤں اور اپنے بچپن کو آواز دوں جب میں ابا جی مرحوم کی انگلی پکڑے علی الصبح چوک شہیداں والے اپنے گھر سے دو منٹ کے فاصلے پر حاجی بٹے کے باغ میں جاتا تھا تو اس باغ میں دو جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں پھولوں کے جھنڈ تھے اور ان پر اُڑتی ہوئی تتلیوں کے پرے۔ عموماً وہاں سفید‘ پیلی اور سیاہ چھوٹی چھوٹی تتلیاں ہوتی تھیں تاہم سب سے زیادہ تعداد گہرے زرد رنگ کی سیاہ دھبوں والی ٹائیگر تتلیوں کی ہوتی تھی مگر کبھی کبھار ایسی رنگدار اور بڑی بڑی تتلیاں دکھائی دیتیں کہ میں بے ساختہ ان کے پیچھے بھاگ پڑتا۔ کئی مرتبہ ایسی نیلی تتلی دکھائی دیتی جس کے گہرے نیلگوں پروں میں سات رنگ جھلکتے تھے۔ بالکل ایسے رنگ جیسے مونال فیزنٹ (مرغِ زریں) کے پروں میں لشکارے مارتے ہیں۔ کبھی کبھار اس تتلی کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتے تو اس کے پروں کا رنگ ہاتھوں پر لگ جاتا۔ تتلیوں سے بچپن کی دیوانگی کی حد تک والی محبت کا اثر ہے کہ مسافر تھائی لینڈ گیا تو وہاں سے حنوط کی ہوئی تتلیوں کے دو فریم لے آیا۔ ایک فریم چھوٹا ہے لیکن اس میں بڑی سی گہرے نیلے رنگ کی تتلی جس پر ہلکے نیلے رنگ کی دھاری ہے اس تتلی کا نام Papilio blumeiہے‘ جبکہ دوسرے بڑے فریم میں پیلے‘ سیاہ اور براؤن رنگ کی پانچ تتلیاں ہیں۔ یہ پانچوں تتلیاں مختلف رنگوں اور سائز کی ہیں۔ یہ دونوں فریم میرے بیڈ روم کے دروازے کے باہر والی سمت لگے ہوئے ہیں اور یہ مسافر روزانہ بیسیویں مرتبہ آتے جاتے انہیں دیکھتا ہے۔ بعض قارئین شاید اسے حماقت سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ہر بار ان کو دیکھ کر شاد ہوتا ہوں۔ یہ تو صرف حنوط کی ہوئی چند تتلیوں کی بات ہے جہاں ان گنت تتلیاں ہوا میں اڑتی پھرتی ہوں اس نظارے کی یاد کی منظر کشی کرنا بھلا قلم کے بس میں کہاں ہو گی؟
ایک شام مانچسٹر سے گلاسپ کی طرف جاتے ہوئے ہولنگ ورتھ سے تھوڑا آگے سڑک کے کنارے لگی ہوئی پھولوں بھری جھاڑیوں پر اتنی تتلیاں اُڑ رہی تھیں کہ میں وہاں رکنے کیلئے بے چین ہو گیا۔ دوست سے پوچھا کہ کیا یہاں بریک لگائی جا سکتی ہے؟ اس نے کہا ‘سڑک اتنی تنگ ہے کہ اس پر پارکنگ کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی اجازت۔ پھر ایک بار یوں ہوا کہ یہ مسافر برادرِ بزرگ اعجاز احمد کے ساتھ میکسیکو میں مایا تہذیب کا ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ٹمپل چیچن اٹزا دیکھتے ہوئے اس کی ایک طرف سبزہ زار کے درمیان ایک چھوٹے سے گڑھے کے پاس پہنچا تو حیرانی سے آنکھیں ہی گویا پھٹ گئیں۔ اس چھوٹے سے گڑھے میں جھاڑیوں اور پھولوں پر بلا مبالغہ سینکڑوں رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی تتلیوں کے جھنڈ تھے۔ یہ ایسا نظارہ تھا جو تاعمر یاد رہے گا۔
آخری بار تتلیوں کا نظارہ اسی سال فروری میں جب چولستان جیپ ریلی پر گیا تو اطہر خاکوانی کے صحرائی ڈیرے پر ریت کے ٹیلے پر دو تین مرلے پر مشتمل کیاری میں سرسوں اور اُسوں (تارا میرا) اُگا ہوا تھا اور اس پر تتلیاں اڑ رہی تھیں اور بھلا سو ڈیڑھ سے کیا کم ہوں گی۔ کیا بھلا زمانہ لگا جب میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں پڑھتا تھا اور سکول کے دروازے کے عین سامنے ایمرسن کالج کے آرٹس بلاک کا لان تھا جس میں قسما قسم کی تتلیاں اُڑا کرتی تھیں۔ ہم چھٹی ساتویں کلاس کے طالب علم تھے اور کبھی کوئی غیر معمولی تتلی دکھائی دیتی تو اس کے پیچھے پڑ جاتے اور تب تک چین نہ لیتے جب تک اسے پکڑ نہ لیتے۔ تب اس پکڑی ہوئی تتلی کا واحد مصرف یہ تھا کہ اسے اپنی کسی کتاب میں دبا کر اپنے تئیں اسے محفوظ کر لیں۔ کیا وقت تھا جب درجنوں تتلیاں ہر جگہ اڑتی دکھائی دیتی تھیں۔ پھر کیڑے مار ادویات آئیں اور ضرررساں کے ساتھ غیر ضرر رساں اور فصل دوست کیڑے بھی قریب قریب ناپید ہو گئے۔ گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ اب کہیں بھولے بھٹکے کوئی تتلی دکھائی دے تو بچپن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
مسافر ویانا کے تتلی گھر کے سامنے ایک لمحے کیلئے رُکا اور پھر اندر جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس کی وجہ شاید اس کا ٹکٹ تھا جو پاکستانی روپوں میں چار ہزار بن رہا تھا‘ تاہم مسافر نے دل کو بہلایا کہ اگر یہ تتلی گھر بھی دیکھ لیا تو پھر کسی روز ویانا آنے کیلئے ایسی کون سی اَن دیکھی چیز رہ جائے گی جو تمہیں دوبارا ادھر کھینچ لائے؟
مسافر نے منیر نیازی کی نظم ''کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘‘ دل ہی دل میں دہرائی۔
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا؟
سب باتیں اس کی سن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا؟
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگین ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو
لہٰذا اس زندگی میں کسی شہر کی کسی گلی میں کوئی دروازہ ایسا ضرور رہنا چاہئے جس کے پیچھے دیکھنے کا اشتیاق مسافر کو پھر لوٹ آنے پر مجبور کرے۔
سپین کے شہر سیویلی(Siville)کی ایک گلی میں کچھ حویلیاں ایسی ہیں جن کے دروازوں سے جھانکتے ہوئے پاتیو‘ قرمونہ کا قلعہ‘ قاہرہ کے بازارِ خانِ خلیلی کا قہوہ خانہ‘ لندن کا کیو گارڈن اور ویانا کا تتلی گھر اس مسافر کی وہ کھڑکیاں ہیں جنہیں وہ ان کھلی چھوڑ آیا ہے۔ انہی ان کھلی کھڑکیوں کے اندر جھانکنے کی خواہش ہی دراصل وہ کشش ہے جس کے طفیل مسافر ان گلیوں کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے کسی اور سفر کا منتظر رہتا ہے۔
سر میں سمائے سودائے سفر پر باصر کاظمی کے دو اشعار
رہتا ہے اتنا پاؤں کے تِل کا اثر سوار
سر پر ہے گھر پہنچتے ہی اگلا سفر سوار
کس چیز کی نجانے ضرورت کہاں پڑے
کر لوں نہ اپنے ساتھ سواری پہ گھر سوار

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں