"KMK" (space) message & send to 7575

چالیس سال بعد… (1)

اللہ ہی جانے کہ انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بہاء الدین زکریا یونیورسٹی والوں کے دل میں کیا خیال آیا کہ انہوں نے میرے ساتھ انسٹیٹیوٹ کے طلبہ و طالبات کیلئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کر دیا۔ بندہ پوچھے مجھ جیسے شخص کو‘ جس کے پاس طلبہ کو نصیحت کرنے کیلئے‘ ان کو موٹی ویٹ کرنے کیلئے اور انہیں مستقبل کی پلاننگ کے بارے میں بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں‘ اس طرح بلا کر خوار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس تقریب کے محرک شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن میں میرے جونیئر لیکن پرانے دوست لیاقت جاوید اور ثاقب رحیم تھے جنہوں نے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن بُچہ سے مل کر ایک زوردار تقریب کا اہتمام کیا۔ میں اس شعبہ سے 40سال قبل ماسٹرز کی ڈگری لے کر فارغ ہوا تھا۔ اس دوران یہ شعبہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ پہلے اس کا نام شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن تھا‘ اب یہ مکمل انسٹیٹیوٹ ہے۔ میرے زمانۂ طالبعلمی میں اس میں کل 55‘ 60 طالبعلم ہوا کرتے تھے۔ 30طلبہ و طالبات پہلے سال میں اور 30ہی فائنل ایئر میں ہوتے تھے۔ سمسٹر سسٹم تھا۔ پہلے سمسٹر سے طالبعلم ڈراپ ہونا شروع ہوتے تھے اور دو سال میں فارغ ہوتے ہوتے ان کی تعداد 50کے لگ بھگ رہ جاتی تھی۔ پہلے دو سمسٹر کامن تھے البتہ تیسرے سمسٹر سے طلبہ مارکیٹنگ اور فنانس میں سے کسی ایک تخصیص کا انتخاب کر لیتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ تب پوری یونیورسٹی میں ایک بھی کمپیوٹر نہیں تھا۔ ایک عدد وزیٹنگ ٹیچر جنجوعہ صاحب ہمیں تھیوری کے ذریعے کمپیوٹر پڑھاتے تھے۔ یہ نان کریڈٹ مضمون تھا یعنی نہ اس کا کوئی امتحان تھا اور نہ ہی نمبر تھے۔ اس لیے دو تین طلبہ کے علاوہ کوئی لڑکا بھی اس میں سیریس نہیں تھا۔ یہ کلاس شغل میلے میں ہی گزر جاتی تھی۔ ہماری 30کی کلاس میں دو عدد طالبات تھیں۔
ڈیپارٹمنٹ کی مستقل فیکلٹی بھی دو عدد اساتذہ پر مشتمل تھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے تازہ تازہ ماسٹرز کرکے فارغ ہونے والے محمود بودلہ‘ جو تب ڈاکٹر نہیں تھے‘ ایسے خوش مزاج اور کھلے ڈُلے کہ استاد کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی تھے۔ دوسرے استاد گومل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل غلام محمد عرف جی ایم صاحب تھے۔ جی ایم صاحب جیسے بے لوث‘ محنتی اور مخلص استاد زندگی میں بہت ہی کم دیکھنے میں آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے‘ دو تین سال قبل وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی یادیں اس فقیر کے دل میں سدا زندہ و تابندہ رہیں گی۔ میں حساب میں صرف کمزور ہی نہیں بلکہ بہت کمزور تھا اور کمزور ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اعداد و شمار سے رَتی برابر دلچسپی نہ تھی۔ اعداد سے تعلقات سدا کے خراب تھے اور عدد فہمی باقاعدہ سزا لگتی تھی مگر جی ایم صاحب‘ جو ہمیں اکاؤنٹنگ پڑھاتے تھے‘ ان کی وجہ سے زندگی میں پہلی بار ایسا لگا کہ یہ عاجز اعداد سے خواہ مخواہ ہی خوفزدہ رہا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اگر جی ایم صاحب جیسا ریاضی کا کوئی استاد ہائی سکول میں مل جاتا تو بہت سے مسائل تبھی حل ہو جاتے۔ عالم یہ تھا کہ میں کلاس میں باقی سب مضامین میں بہت ہی اچھے نمبر لے لیتا تھا مگر ریاضی میں یہ عالم تھا کہ جیومیٹری میں تو پورے نمبر لے لیتا جو ریاضی کے مضمون میں 40فیصد کا پارٹ ہوتا تھا مگر بقیہ 60نمبروں میں سے دس‘ پندرہ سے زیادہ کبھی نصیب نہ ہوئے۔ صرف میٹرک میں 62نمبر لے کر زندگی میں ریاضی میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ جیومیٹری والے حصے میں تو 40میں سے 40نمبر لے لیے۔ ایک علم الامکان کا سوال تھا جو درست کیا۔ بقیہ کے بارہ نمبروں کے بارے میں گزشتہ 52سال سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے آگئے‘ تاہم اگر اس دوران اس سوال کا جواب نہیں ملا تو بھلا اب کہاں سے ملے گا؟ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ صرف ایک اچھا اور شاندار استاد آپ کی کایا کلپ کر سکتا ہے۔ جی ایم صاحب ایسے ہی استاد تھے۔
1975ء میں قائم ہونے والی نوزائیدہ ملتان یونیورسٹی کی اولین کلاسیں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی عمارت میں شروع کی گئیں۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کا شعبہ جب دو سال بعد کھولا گیا تو اس کیلئے کوئی کمرہ دستیاب نہ تھا۔ ایک دو دیگر شعبہ جات کی طرح ایم بی اے کی کلاسیں ایک سال تک کرائے پر حاصل کیے گئے ٹینٹوں میں لگائی گئیں۔ تمبو قناتوں سے پیدا ہونے والے ماحول کے باعث بڑے لطیفے وقوع پذیر ہوئے۔
اس یونیورسٹی کا آغاز یوں ہوا کہ ایمرسن کالج‘ جو تب پوسٹ گریجوایٹ کالج تھا‘ اس کے فائنل ایئر کی اردو‘ پولیٹکل سائنس اور اکنامکس کی کلاسیں کالج سے یونیورسٹی کو اسی طرح منتقل کردی گئیں جس طرح لمبے روٹ کا جھانسہ دے کر لوکل بس دور کی سواری پکڑ لیتی ہے اور دو چار سٹاپ کے بعد کسی اگلی بس کو بیچ دیتی ہے۔ ایمرسن کالج کے طلبہ و طالبات تو یونیورسٹی کو دیے ہی تھے‘ ساتھ ہی اساتذہ بھی عارضی بنیادوں پر مستعار دے دیے گئے۔ اردو کے استاد اے بی اشرف‘ اسلم انصاری‘ پولیٹکل سائنس کے مشیر احمد اور اکنامکس کے معراج صاحب کے علاوہ دیگر درجن بھر استاد بھی ملتان یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں علم کے موتی تقسیم کرتے رہے۔ یہ جو میں اوپر دوبار ملتان یونیورسٹی لکھ چکا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ یونیورسٹی بنی تھی اس کا نام ملتان یونیورسٹی ہی تھا‘ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کر دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قلمکار کو آج بھی لائل پور کا نام تبدیل کرکے فیصل آباد کرنے اور ملتان یونیورسٹی کا نام بہاء الدین زکریا یونیورسٹی رکھنے پر ملال ہے۔ ملتان یونیورسٹی اپنے نام سے ہی پورے خطے کی نمائندگی کرتی تھی۔ لیکن اس ملال سے کیا ہوتا ہے؟
1975ء میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے ایکٹ کے تحت ملتان یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ چار سال بعد 1979ء میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ میری بی اے کی ڈگری ملتان یونیورسٹی کی جبکہ ایم بی اے کی ڈگری بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی جاری کردہ ہے۔ ملتان یونیورسٹی کی سند رہ گئی ہے جبکہ اس نام کی یونیورسٹی عنقا ہو گئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح مرحوم شاعر اسلم کولسری کا گاؤں کولسر اوکاڑہ کینٹ میں آکر اپنا وجود کھو گیا۔ کولسر صرف اسلم کولسری کے نام کی وجہ سے موجود ہے اور ملتان یونیورسٹی میری ڈگری کے کاغذ اور میری یادوں میں زندہ ہے۔
1978ء میں شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن کا قیام عمل میں آیا۔ دو اساتذہ پر مشتمل یونیورسٹی فیکلٹی تھی باقی سب اساتذہ وزیٹنگ تھے جن میں مختلف شعبوں کے بڑے شاندار لوگ اور ملتان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ صنعتکار شامل تھے۔ پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابقہ چیئرمین اور اللہ وسایا ٹیکسٹائل ملز کے ڈائریکٹر تنویر احمد شیخ‘ الحمد ٹیکسٹائل کے مالک شیخ افتخار‘ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کے مالک ایم اے ہادی‘ واپڈا کے ایکسین طاہر بشارت چیمہ جو بعد میں پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے ایم ڈی بنے‘ سید فخر امام کے چھوٹے بھائی سید فیصل امام ہمیں پڑھانے والوں میں شامل تھے۔ یہ تمام لوگ جو اپنی اپنی کاروباری مصروفیات چھوڑ کر ہمیں پڑھانے آتے تھے‘ بعض اوقات اپنا طے شدہ پیریڈ نہ لے سکتے تو اگلے روز دُگنا وقت صرف کرکے اس مضمون کیلئے درکار Credit Hours پورے کراتے۔ درج بالا اصحاب میں سے بیشتر نہ صرف کوئی مشاہرہ‘ معاوضہ یا اعزازیہ نہیں لیتے تھے بلکہ پیریڈ لمبا ہو جائے تو ساری کلاس کو کینٹین پر لے جاتے اور چائے‘ سموسے و کولڈ ڈرنکس کا سارا بل اپنی جیب سے ادا کرتے۔ ایسے ایسے شاندار لوگوں سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی کہ اپنی خوش قسمتی پر ناز ہوتا ہے لیکن اب یہ سوچتا ہوں کہ اس نالائق طالب علم نے اس وقت وہ سب کچھ نہ سمیٹا جو اسے میسر تھا۔ اب ایک مستقل ملال ہے جو کبھی کبھی شرمندہ کر دیتا ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں