اللہ بخشے ماں جی کے ادارے میں ہیڈ کلرک یعقوب ہوتے تھے ہم سب انہیں بابو جی کہتے تھے۔ وہ جب اپنے ٹائپ رائٹر پر فٹافٹ انگلیاں چلاتے تو ہم ان کی ٹائپنگ کی برق رفتاری دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔ اگر دورانِ ٹائپنگ کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ دراز میں سے سفید رنگ کے سیال کی بوتل نکالتے اور اغلاط پر یہ سفیدہ پھیر کر لفظ مٹاتے اور پھر کاغذ کو دوبارہ ٹائپ مشین میں ڈال کر بڑی عرق ریزی سے عین اس مقام پر فٹ کرتے جہاں وہ لفظ اسی جگہ پر ٹائپ ہو جہاں سے غلطی درست کرنا مقصود تھا۔ پھر وہاں الیکٹرک ٹائپ رائٹر آ گیا۔ لکھائی کے فونٹ تبدیل کرنے کی سہولت میسر آ گئی‘ مگر غلطی درست کرنے کا طریقہ وہی قدیمی تھا۔ اب کسی دفتر میں ٹائپ رائٹر نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں آ رہا کہ ابا جی مرحوم کا چھوٹا سا پورٹیبل ٹائپ رائٹر کہاں غائب ہوا۔
ہر سال خوبصورت کیلنڈر کی تلاش ایک مہم کا درجہ رکھتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ گھر کی دیواروں پر کیلنڈر کیلئے کوئی کیل ہی موجود نہیں۔ عید کارڈ کا کیا بنا؟ اللہ خوش رکھے ملک اقبال کو‘ وہ ہمارے ڈیزائن کردہ عید کارڈ بڑی محنت اور محبت سے چھپوا کر دیتا۔ اسی طرح سال کے سال کوئی اچھی سی ڈائری تلاش کرنا بھی ایک مہم کے مساوی تھا۔ اب نہ کیلنڈر کی طلب ہے‘ نہ عید کارڈ کا زمانہ ہے‘ نہ ڈائری کی حاجت ہے۔ ان سب چیزوں کو ایک سمارٹ فون کھا گیا ہے۔ سمارٹ فون اور کتنا کچھ کھا گیا ہے اس کا شمار پوری طرح ممکن ہے؟ آپ جو چاہیں اس میں ڈال لیں۔اس ایک جیبی آلے میں میرا کیلنڈر ہے۔ میرا اگلے سال تک کی مصروفیات کا شیڈول ہے اور یہ اگلے سال تک کی حد بھی میری طرف سے ہے‘ وگرنہ یہ آلہ اگلے سو سال تک کا شیڈول لگانے پر نہ تو معترض ہے اور نہ ہی انکاری۔ میں ساری بینکنگ‘ بلوں کی ادائیگی‘ ہوائی جہاز اور بس تک کی ٹکٹیں اسی ''ون ونڈو آپریشن‘‘ والی سہولت کے تحت خریدتا ہوں۔ کوئی زمانہ تھا ٹرین کے سفر سے قبل ریلوے سٹیشن کے دو چکر لگ جاتے تھے۔ میری آکسفورڈ ڈکشنری اب متروک کتاب کی صورت الماری میں بند پڑی ہے اور یہی حال فیروز اللغات کا ہے۔ اس چھوٹی سی ڈبیہ میں اردو لغت بورڈ اور ریختہ کی لغت موجود ہے۔ اب موٹروے کا ٹول ٹیکس‘ گاڑی کا ٹوکن اور پراپرٹی ٹیکس بھی اسی سے ادا ہوتا ہے۔ بینکوں‘ دفتروں اور ٹکٹ گھروں کے سامنے قطار کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔
کمرے کی میز پر دو ٹانگوں اور ایک پلیٹ کے سہارے کھڑا ہوا سبز ڈائل والا پرانا ٹائم پیس‘ جس کے اوپر اٹھانے والا ہینڈل اور ایک طرف چھوٹی سی گھنٹی‘ جو بجتی تھی تو گویا کان پھاڑ دیتی تھی‘ خدا جانے کہاں چلا گیا۔ اب اس کی ضرورت تو نہیں! ہاں البتہ یادیں ضرور باقی رہ گئی ہیں۔ میرے سمارٹ فون پر درجن بھر اوقات کے الارم لگے ہوئے ہیں جن کے بجنے پر یہ مجھے یہ بھی یاد کراتا ہے کہ یہ الارم کس لیے بج رہا ہے۔ سارے دن کیلئے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں جو کمزور یادداشت کے مالک اس عاجز کو شرمندگی اور پریشانی سے بچاتی رہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا ہر سال گرمیوں میں مہینہ ڈیڑھ کیلئے برطانیہ چلا جاتا تھا۔ وہاں ایک پُرسکون اور قدرتی حسن سے مالا مال گائوں ہولنگ ورتھ میں قیام ہوتا تھا۔ یہ گوروں کا گائوں تھا اور صرف ایک دیسی مسلمان تھا۔ اس سے قبلہ کی سمت پوچھی اور کامل تین سال اسی رُخ پر نماز پڑھتا رہا تاوقتیکہ سمارٹ فون ہاتھ آ گیا۔ پھر جب تصدیق کیلئے قبلے کا رُخ دیکھا تو وہ اس کے بالکل الٹ تھا جس طرف یہ عاجز گزشتہ تین سال نمازیں ادا کرتا رہا۔ اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ کمپاس ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دنیا بھر کی معلومات کا خزانہ بصورت گوگل ہماری دسترس میں ہے۔ برطانیہ سے کوڑیوں کے مول خریدا ہوا انسائیکلوپیڈیا برٹینکا اب الماری کی زینت ہے۔ جس روز خریدا تھا اس رات دیر تک خوشی سے نیند نہیں آئی تھی۔ اب یاد آیا کہ اسے کھولے کئی برس بیت گئے ہیں۔ خط لکھنا متروکات میں شامل ہو چکا ہے۔ عرصہ ہوا‘ دبئی جا رہا تھا تو برادرِ عزیز ہمدم دیرینہ منیر چودھری نے فرمائش کی کہ ماجدہ رومی کا گانا ''الکلمات‘‘ کہیں سے ملے تو ضرور لیتے آنا۔ بعد از تلاش بسیار المنصور وڈیو والوں سے یہ گانا ملا اور اس کی کیسٹ لیتا آیا۔ اب کیسٹ متروک ہو چکی ہے حتیٰ کہ معاملہ حیران کن ایجاد سی ڈی اور بعد ازاں ڈی وی ڈی سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ پرانے گانوں کیلئے میوزک سنٹرز پر خوار ہوتے تھے‘ کیسٹوں میں بھرواتے تھے۔ اب چھوٹے بچوں کے سامنے کیسٹ کا ذکر چلے تو وہ پوچھتے ہیں یہ کیا چیز ہوتی تھی۔
سنگاپور سے نہایت شوق اور دل پر پتھر رکھ کر خریدا گیا مینولٹا SLR کیمرہ بمعہ ٹیلی لینز اور وائیڈ اینگل لینز بیکار پڑا ہے بلکہ یہی کیا‘ اس کے بعد خریدا گیا کینن کا DSLR بھی تقریباً آرام ہی کر رہا ہے کہ اب جیب میں سما جانے والے موبائل کا کیمرہ فوٹو اور وڈیو کی وہی کوالٹی دے رہا ہے جو یہ بھاری بھر کم کیمرے دیتے تھے۔ ایک بار جی میں آئی کہ الماری کے نچلے خانے میں پیچھے پڑے ہوئے پیناسونک کے دو کلو وزنی کیمرے کو نکال باہر پھینکوں۔ پھر سوچا کہ اس بزرگ نے ہمارا بڑا ساتھ دیا ہے۔ یادوں کے عجائب گھر میں محفوظ اس بیکار کیمرے کو بھی کسی جگہ سجا کر رکھ لوں تو کیا حرج ہے۔ سوچا ہے کہ ڈرائنگ روم میں ایک شوکیس بنوائوں اور اس میں الماریوں میں دبی ہوئی ایسی تمام متروک چیزیں نکال کر سجا دوں جو میں نے خود استعمال کی ہیں۔ ان کا عروج دیکھا ہے اور ان کے زوال اور ترکِ استعمال کا عینی شاہد ہوں۔ ایک وی سی آر بھی اس کاٹھ کباڑ میں موجود ہے۔ ایک عدد ڈش کا ریسیور ہے۔ پرانا ڈیڑھ کلو وزنی ایرکسن کا موبائل فون ہے۔ ڈائل والا فون ہے۔ ایک ایسا پرانا تالا پڑا ہے جس کی اب کوئی چابی بھی نہیں بناتا۔ ماں جی کے جہیز کے ایسے برتن ہیں جن کو قلعی کرانے کی خواہش ہے۔ کبھی قلعی گر گلی گلی آوازیں لگاتے تھے مگر اب قلعی گر ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ باقی تو چھوڑیں نئی سنیں۔ 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے فضائی ہیرو ایم ایم عالم مرحوم نے اپنے F86 سیبر طیارے کے ذریعے ایک منٹ سے کم عرصے میں بھارت کے پانچ جنگی ہوائی جہاز گرا کر جو ریکارڈ بنایا وہ آج بھی قائم ہے اور آج پر ہی کیا موقوف‘ اب یہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا کہ اب جنگی ہوائی جہاز آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کو 'غچے دے کر‘ ایک دوسرے پر مشین گن سے گولیاں برسا کر اور شارٹ رینج میزائل برسا کر روایتی ''ڈاگ فائٹ‘‘ بھلا کب کریں گے۔ اب ہوائی جنگ کا سارا نقشہ بدل گیا ہے۔ اب معاملہ آمنے سامنے دو بدو والی لڑائی سے کہیں آگے جا کر BVR یعنی انسانی نظر کی رسائی سے بھی کہیں پرے والی جنگ تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستانی سرحد کے اندر اندر ہمارے پچاس پچپن جہاز اُڑ رہے ہیں اور دوسری طرف اسی پچاسی جہاز اُنکی سرحد کے اندر محو پرواز ہیں۔ کسی پائلٹ کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا‘ سیٹلائٹ اور ریڈار کی آنکھیں مگر دیکھ رہی اور کان سن رہے ہیں‘ ماہر پائلٹ دکھائی نہ دینے والے ہدف کو اس کی ڈیجیٹل منظر کشی کی بنیاد پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ تین سو کلومیٹر دور تک تو عقاب کی نظر نہیں جاتی مگر شاہینوں نے دکھائی نہ دینے والے چھ جہاز مار گرائے۔ 1965ء سے 2025ء تک ان ساٹھ سالوں میں ہوائی جنگ جتنی تبدیل ہو گئی ہے ہمارے تصور سے باہر ہے۔
یہ عاجز اس پیراڈائم شفٹ میں بہت کچھ دیکھ چکا ہے۔ بے شمار چیزوں کا عینی شاہد ہے اور خدا جانے زندگی کے جو سانس باقی ہیں ان میں کیا کچھ دیکھنا نصیب میں ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ میری نسل نے جتنی تبدیلیاں دیکھی ہیں اگلی نسلوں کو یہ دیکھنی نصیب نہ ہوں گی۔ ابھی عالم یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ابنِ آدم کو ذہنی مشقت سے نجات دے دی ہے اور جلد ہی روبورٹس جسمانی مشقت کا ٹنٹنا بھی ختم کر دیں گے۔ ممکن ہے تب ہم کہیں لمبے آرام پر جا چکے ہوں۔