کے پی کے وزیر خزانہ نے شوکت ترین صاحب کی بات مان لی۔ پنجاب کے وزیر نے نہیں مانی۔ بظاہر اقتدار کے ایک ہی سرچشمے سے پھوٹنے والی دو نہروں کا ذائقہ بہت مختلف ہے۔ ایک کڑوا‘ ایک میٹھا۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ دراصل عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کا فرق ہے۔ یہ غیر روایتی اور اور روایتی سیاست کا فرق ہے۔ روایتی سیاست ہمیشہ مطعون رہی ہے۔ اس کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا رہا۔ صدیوں کے تجربات سے کشید کی گئی وہ حکمتیں مگر کم ہی زیرِ بحث آئی ہیں‘ روایتی سیاست جن کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ دو وزرا کے ردِ عمل کا یہ فرق اسی کو واضح کر رہا ہے۔
اتنا بڑا فیصلہ‘ چوہدری پرویز الٰہی صاحب کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ چوہدری صاحب اگرچہ تحریکِ انصاف کی حمایت سے وزیراعلیٰ بنے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں اقتدار کا سرچشمہ کہاں ہے۔ عمران خان صاحب نے بھی انہیں بادلِ نخواستہ قبول کیا ہے۔ عمران خان صاحب کا مسئلہ کرپشن نہیں‘ وہ لوگ ہیں جنہیں سیاسی عصبیت حاصل ہے اور جو ان کے اقتدار کے راستے میں حائل ہیں۔ یہ شریف خاندان ہے۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے انہیں پرویز الٰہی کی ضرورت تھی۔ یہ واضح ہے کہ پرویز الٰہی عمران خان کے کسی ایسے فیصلے کو قبول نہیں کر سکتے جو حقیقی مرکزِ اقتدار میں قابلِ قبول نہ ہو۔
دوسری طرف کے پی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ یہ خان صاحب کے رحم وکرم پر ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 'بزدار پلس‘ ہیں۔ عمران خان کے اشارۂ ابرو کے منتظر۔ کوئی انفرادی سوچ ہے نہ تشخص۔ انہوں نے وہی کہنا اور کرنا ہے جو خان صاحب چاہیں گے۔ اس میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ شوکت ترین صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ پارٹی فیصلہ عمران خان صاحب کی قیادت میں کیا گیا۔
چوہدری پرویز الٰہی صاحب روایتی سیاست دان ہیں۔ وہ روایتی سیاست کی خوبیوں اور خامیوں‘ دونوں کے محافظ ہیں۔ روایتی سیاست کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ سیاست کو دشمنی میں بدلنے نہیں دیتی۔ اس کی سوچ آنے والے انتخابات تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ نسلوں کے تناظر میں سوچتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست میں اتفاق اور اختلاف‘ دونوں مستقل نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب کے بارے میں پرویز الٰہی صاحب کا بیان ہمارے سامنے ہے جس میں وہ نیپیاں بدلنے کے بات کرتے ہیں۔ محض دو دن کے بعد‘ وہ ان کے سیاسی اتحادی بن گئے۔ اگر رویے میں لچک نہ ہوتی‘ یہ ممکن نہیں تھا۔
گجرات کے چوہدریوں اور زرداری صاحب کے تعلقات بھی اسی حقیقت کا بیان ہے۔ جن لوگوں نے ضیاالحق صاحب کو بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے پہ یک سو کیا‘ ان میں چوہدری شجاعت حسین صاحب کے والد چوہدری ظہور الٰہی بھی شامل تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی نے ضیا الحق صاحب سے وہ قلم مانگ لیا تھا جس سے انہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے احکامات پر دستخط کیے تھے۔ اس داستان کا ایک پچھلا باب بھی ہے۔ چوہدری ظہور الٰہی پر بھٹو صاحب نے بھینس چوری کا مقدمہ بنوایا تھا۔ انہیں مچھ جیل بھیجا گیا جو سخت ترین جیلوں میں شمار ہوتی ہے۔ مشہور روایت کے مطابق بلوچستان کے وزیراعلیٰ اکبر بگٹی سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ انہیں ٹھکانے لگا دیں۔ انہوں نے یہ بات نہیں مانی کیونکہ وہ بھی روایتی سیاست دان تھے۔
روایتی سیاست دان یہ جانتا ہے کہ سیاست کی حدود ہوتی ہیں۔ حمایت اور مخالفت کو ایک دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ روایتی سیاست اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوصف‘ قومی مفاد کی قیمت پر سیاست نہیں کرتی۔ روایتی سیاست دانوں میں غدار کم پائے جاتے ہیں۔ وہ موقع شناس ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ تصادم بھی نہیں کرتے اور اس کے ساتھ قومی مفاد کا سودا بھی نہیں کرتے۔ اس کے باجود‘ آج چوہدری شجاعت صاحب اور زرداری صاحب کے سماجی تعلقات خوش گوار ہیں۔
کسی حادثے کے سبب سیاست میں ایسے لوگ در آتے ہیں جن کا پس منظر سیاسی نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کا کوئی پس منظر ہوتا ہے نہ تاریخ کا مطالعہ۔ وہ روایت کو جانتے ہیں نہ اس قابل ہوتے ہیں کہ ذاتی اور قومی مفاد میں فرق کر سکیں۔ وہ بعض اسباب سے پاپولر بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی لاعلمی اور غیر سیاسی پس منظر کے سبب‘ ریاست اور معاشرے کو اتنا نقصان پہنچاتے ہیں کہ برسوں تک اس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔
عمران خان صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ غیر روایتی سیاست دان ہیں۔ تاریخ سے واقف ہیں نہ علمِ سیاسیات سے۔ وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کو روکنے کا نقصان موجودہ حکومت کو نہیں‘ ریاست کو ہوگا۔ سبھی ریاستی ادارے اس سے متاثر ہوں گے۔ وہ اس سے بے نیاز ہوکر‘ ذاتی فائدے کی خاطر اتنا بڑا قدم اٹھانے پر تیار ہو گئے۔ جو لوگ ان کے ساتھ تھے‘ ان کی اکثریت بھی غیر روایتی ہے۔ کوئی انہیں اس سے باز نہیں رکھ سکا۔ پرویز الٰہی مگر جانتے تھے کہ ان کی حدود کیا ہیں۔ شہباز گل صاحب کے معاملے میں بھی انہوں نے اس فرق کو واضح کر دیا تھا۔
نئی نسل اس فرق کو نہیں سمجھ سکتی۔ اسے روایتی سیاست کی خامیوں کے بارے میں بتایا گیا‘ خوبیوں کے بارے میں نہیں۔ یوں اس میں روایتی سیاست کے خلاف ایک نفرت نے جنم لیا ہے۔ ہیجان کی فضا پیدا کرکے‘ غیر روایتی سیاست کی خرابیوں کو اس نسل کی آنکھوں سے اوجھل رکھا گیا۔ اگر وہ غیر جانب داری سے تقابل کر سکتی تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر روایتی سیاست میں‘ روایتی سیاست کی تمام خرابیاں موجود ہیں مگر خوبی کوئی نہیں۔ اگر پنجاب میں تحریکِ انصاف کا کوئی وزیراعلیٰ ہوتا تو اس نے وہی کچھ کرنا تھا جو کے پی کے وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ نے کیا۔
اس فرق کو ٹرمپ کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک غیر روایتی سیاست دان نے امریکی سماج اور ریاست کو جو نقصان پہنچایا‘ امریکہ جیسا منظم معاشرہ اور ریاست ابھی تک اس پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ روایتی سیاست اگر جمہوری ہو تو اس سے خیر برآمد کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ روایت کی خوبیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور اس کی کمزوریوں کو بھی ساتھ ساتھ دور کرتی جاتی ہے۔ برطانیہ اس کی بہترین مثال ہے۔ وہاں بادشاہت آج بھی موجود ہے۔ بادشاہت روایتی طور پر ریاست کی وحدت کی علامت ہے جسے باقی رکھا گیا ہے۔ جمہوری عمل اپنے طور پر جاری ہے۔
پاکستان میں روایتی سیاست کو ہدف بنا کر اس کے خاتمے کا خواب دیکھا گیا۔ اس کی کمزوریوں کا ازالہ کرنے کے بجائے‘ اس کو نئے سیاست دانوں سے بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا انجام آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پہلے معاشرہ برباد ہوا۔ ادب باقی رہا نہ اخلاق۔ نئی نسل نے اپنی لگام ہیجان کے ہاتھ میں دے دی۔ اب ریاست بھی اس ہیجان کی زد میں ہے۔ فرد کو ریاست سے بلند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایک جماعت نے نعرہ لگایا تھا: 'منزل نہیں رہنما چاہیے‘۔ اب اس سے اگلی بات کہی جا رہی ہے: 'خان نہیں تو ریاست بھی نہیں‘۔ شوکت ترین صاحب اور کے پی کے وزیر خزانہ کے مابین گفتگو کی‘ اس کے علاوہ کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی ہے۔
روایتی سیاست میں کمزوریاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی ہیں۔ غیر روایتی سیاست میں معاشرے کے لیے کوئی خیر ہے نہ ریاست کے لیے۔ ایک ہی حکومت کے دو وزرا کے طرزِ عمل سے یہ بات واضح ہوگئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست میں نئے تجربات کرنے والوں کی آنکھیں‘ اب بھی کھلتی ہیں یا نہیں؟