توشہ خانے سے جڑے قضیے کا ایک پہلو اس کے قانونی پہلو سے کہیں بڑھ کر اہم اور ہماری توجہ کا سزاوار ہے۔
عمران خان صاحب‘ ان کے وکلا اور ان کی جماعت کو اس سے انکار نہیں کہ خان صاحب نے توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف کم قیمت پر خریدے۔ پہلے قانون یہ تھا کہ قیمت کا بیس فیصد ادا کرکے وہ تحفہ خریدا جا سکتا تھا جو آپ کوملا ہوتا تھا۔ خان صاحب کے عہدِ اقتدار میں اس کو پچاس فیصد کر دیا گیا؛ تاہم انہوں نے بیس فیصد ہی ادا کیا اور یہ تحائف خرید لیے۔ مجھے اس بات سے بھی کچھ دلچسپی نہیں کہ بیس فیصد ادا کیا گیا یا پچاس فیصد۔ میری دلچسپی ایک دوسرے پہلو سے ہے۔
خان صاحب کے بارے میں دو باتوں کا تکرار کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ مداح ان کے امتیازات کے طور پر انہیں بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان صاحب کو پیسے ٹکے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہوں نے ایک درویش کا مزاج پایا ہے۔ اس مقدمے کے حق میں جو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں‘ ان میں سے ایک‘ ان کی سابقہ اہلیہ جمائما صاحبہ سے منسوب یہ پیش کش ہے کہ وہ اگر انگلستان منتقل ہو جائیں تو ان پر وسائل نچھاور کر دیے جائیں گے۔ خان صاحب کی حب الوطنی اور بے نیازی آڑے آئی اور انہوں نے انکار کر دیا۔ جمائما صاحبہ نے اپنی طرف اس بات کی نسبت سے اعلانیہ انکار کیا ہے مگر ہم ایک عورت کی گواہی پر ان ہزاروں مردوں کی شہادت کو ترجیح دیتے ہیں جو اس بات کو صبح شام دہراتے ہیں۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس آدمی کے آٹو گراف سے مزین بلا کروڑوں میں بک سکتا ہے‘ وہ پیسے کے لیے ایسا کام کیوں کرے گا جس پر لالچ و طمع کی پرچھائیاں ہوں؟ کرپٹ اور پیسے کی محبت میں جینے والے ان کی طرف اگر ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان کی سوچ پر روپے کی محبت کا سایہ ہے۔ یہ دنیا دار کیا جانیں کہ اسباب و اموالِ دنیا سے بے نیازی کیسی دولت ہے اور شانِ قلندری کیا ہے؟
اگر اس بات کو مان لیا جائے تو یہ باور کرنا ممکن نہیں رہتا کہ اس طرح کا کوئی شخص سرکاری خزانے سے‘ کروڑوں کی گھڑیاں اس لیے لاکھوں میں خرید لے گا کہ قانون اسے یہ حق دیتا ہے۔ خان صاحب گھڑی نہیں پہنتے۔ سونے کی کلاشنکوف بھی ان کے کسی کام کی نہیں۔ اور پھر سونے کا قلم؟ میں تفصیلات میں نہیں جاتا کہ انہوں نے کیا کیا لیا۔ وہ سب کچھ سامنے آ چکا جو خان صاحب نے قومی خزانے سے خریدا ہے اور جس سے ان کو بھی انکار نہیں۔
ایسا کیوں ہوا؟ اموالِ دنیا سے بے نیازی یہاں کیوں دکھائی نہیںدی؟ جس کا ایک بلا کروڑوں میں بک سکتاہے‘ اس نے چند کروڑ کے لیے ایک رعایت سے کیوں فائدہ اٹھایا؟ جس نے جمائما کے کروڑوں پاؤنڈز پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بھی پسند نہ کیا‘ وہ ان گھڑیوں سے کیوں نظر نہ چرا سکا جو عمران خان نامی کسی شخص کو نہیں‘ وزیراعظم پاکستان کو دی گئی تھیں؟ اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ نواز شریف صاحب نے بھی تو توشہ خانے سے بہت کچھ خریدا۔ یہ مقدمہ قائم کرنے والے نواز شریف صاحب کو دنیادار اور خان صاحب کو درویش مانتے ہیں۔ ان کے لیے کیسے مناسب ہے کہ خان صاحب کو میاں صاحب کے معیار پر پرکھیں؟
پھرمعاملہ یہ نہیں کہ انہوں نے تحائف لیے اور استعمال کیے۔ انہوں نے ان تحفوں کو بازار میں بیچ ڈالا۔ یہ درویشی کا کون سا مکتب ِ فکر ہے؟ روحانیت کا کون سا سلسلہ ہے جو تحائف کی تجارت کو بلندیٔ درجات کے لیے ضروری سمجھتا ہے؟ یہ کوئی شخصی معاملہ نہیں تھا۔ یعنی ایسا نہیں کہ کسی الف نے کسی با کو ذاتی دوستی میں کوئی تحفہ دیا جس نے اسے کسی ضرورت کے تحت بیچ ڈالا۔ یہ ایک سربراہ ملکت کا کسی دوسرے ملک کے سربراہِ حکومت کو دیا جانے والا ہدیہ ہے۔ اسے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں بیچا گیا۔ ضرورت کے علاوہ‘ کم قیمت میں لی گئی اشیا کو زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا محرک کیا ہو سکتا ہے؟
'خان صاحب اور توشہ خانہ‘ کے عنوان سے مشہور ہوئی اس کہانی کا یہ پہلو سیاسی ہے نہ قانونی۔ یہ اخلاقی ہے اور نفسیاتی بھی۔ میں انہی حوالوں سے اس معاملے کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ میاں نواز شریف صاحب کا مثال کے طور پر یہ مزاج ہے کہ وہ قیمتی گھڑیاں پہنتے ہیں۔ ان کا رہن سہن وہی ہے جو امرا کا ہوتا ہے۔ انہوں نے اسے کبھی چھپایا نہیں۔ مجھے یہ اندازِ زندگی کبھی پسند نہیں آیا جو دولت کی نمائش کا ایک نمونہ بن جائے۔ مجھے اس سے کہیں زیادہ شاہد خاقان عباسی کا طرزِ زندگی پسند ہے جنہیں اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے مگرانہیں دیکھ کر کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ دولت کا کوئی چلتا پھرتا اشتہار ہیں۔ ہمارے آئیڈیلز تو وہ ہیں جن کے طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ 'سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے شاہی نہیں‘۔
تاہم یہ معاملے کا بالکل دوسرا پہلو ہے۔ اس میں بہت کچھ غلط ہے لیکن یہ کسی تضاد کا اظہار نہیں۔ یہ ایک طرزِ حیات کا سوال ہے جو میرے لیے پسندیدہ نہیں۔ اس وقت سوال دوسرا ہے۔ یہاں تو یہ ہوا کہ ایک مردِ درویش کا تاثر رکھنے والے کو جب پہلی بار اقتدار میں ایک موقع ملا کہ وہ دنیاوی آسائشوں اور زیبائشوں کو نظرانداز کرتا یا ان کی طرف لپکتا ہے تو وہ ہمیں اُن کی طرف دوڑتا نظر آیا۔ اسے ایک ہی موقع ملا اور اس نے اپنے داخل کو سب پر کھول دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟
بنظرِ غائر ایک ہی امکان ہو سکتا ہے۔ خان صاحب بھی اندر سے ایک عام آدمی ہیں۔ عام آدمی کیسا ہوتا ہے؟ ایک ایسی شخصیت جسے کچھ محرومیاں لاحق ہوتی ہیں۔ وقت اگر ایسا موقع فراہم کر دے کہ ان کی تلافی ہو سکے تو وہ اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ ممکن ہے ایک آدھ دفعہ وہ اپنی اشتہا پر قابو پا لے مگربار بار اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا‘ اِلا یہ کہ وہ تزکیہ کی اس منزل پر ہو کہ دنیا کی بے مائیگی اس کے سامنے بے نقاب ہو جائے اور اپنے پروردگار کے ساتھ ملاقات‘ اس کے لیے ایک ایسا سچا واقعہ بن جائے جیسے کہ وہ اس پر بیت چکا۔
بت سازی سیاست کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کو لوگ لیڈر نہیں مانتے۔ وہ اسے خود سے بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بلندی اگر موجود نہ ہو تو لیڈر کو قدآور دکھانے کے لیے مصنوعی سہار ے تلاش کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے لازم ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تاکہ انہی دھوکا نہ ہو۔ پروپیگنڈا اب ایک سائنس بن چکا۔ یہ ایک ایسی خیالی دنیا تخلیق کر سکتا ہے جو عقل کو مفلوج کر دے۔ تاہم‘ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی دیانت داری سے چاہے اور پھر بھی حق اس کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔
صفحۂ تاریخ پر 'خان صاحب اور توشہ خانہ‘ کے عنوان سے لکھی اس کہانی کو سیاسی اور قانونی سے زیادہ‘ اخلاقی اور نفسیاتی پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مذہب ہو‘ فلسفہ ہو یا سیاست‘ واقعہ یہ ہے کہ سچ کی نشانیاں انسان کے چاروں طرف بکھری ہوتی ہیں مگر وہ ان کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ کوئی تعصب‘ کسی کی محبت‘ کسی سے نفرت اس کے سامنے دیوار بن جاتی ہے۔ ان دیواروں کو گرانا ہی ہم سب کا اصل امتحان ہے۔
(پس نوشت: ارشد شریف کی المناک موت نے ہلا دیا۔ ان کے اہلِ خانہ جس کرب سے گزر رہے ہیں‘ اس کا تصور بھی محال ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے ان کو صبرِ جمیل اور مرحوم کو مغفرت سے نوازے۔ اللہ کرے کہ اس حادثے کا کوئی تعلق ملک کی داخلی سیاست سے نہ ہو)