الفاظ اوراصطلاحات انسان کے ساتھ ہم قدم رہتے ہیں۔ان کے معانی لغت کی کتابوں سے نہیں‘انسانوں کے تعامل سے طے ہوتے ہیں۔''مرشد‘‘ کی اصطلاح کو‘کچھ لوگوں نے تاریخ اور لغت سے نکل کر عصری سیاست کی آگ میں جھونک دیا ہے۔''مرشد‘‘ بھی ''سیاست‘‘ کی طرح نئے معانی کی تلاش میں ہے۔دیکھیے‘کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک۔
''مرشد‘‘ تصوف کی اصطلاح ہے۔ایک ایسا کامل انسان‘جس کی اتباع میں سفرِ حیات طے ہو تا ہے۔صوفیانہ روایت میں سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ اپنا ہاتھ کسی مرشد کے ہاتھ میں دے دیاجائے۔درست تر مفہوم میں‘ ذہن اور عمل اس کے ہاتھ گروی رکھ دیے جائیں۔یہ اب اس کی مرضی ہے کہ انہیں کس سمت لے جائے۔ وہ اپنی جو بات منوانا چاہے‘ مان لی جائے کہ اُس کی نگاہ باطن تک دیکھتی ہے اور آپ کی آنکھ ظاہر کی اسیرہے۔آپ اس کے رازوں کو نہیں جانتے۔کب‘کیوں‘کیسے‘ مرشد کے سامنے ان الفاظ کے استعمال کی اجازت نہیں۔سوال کیا تو خطرہ ہے کہ منزل کھوٹی ہو جائے گی۔تصوف کی روایت میں اس کے لیے حضرت موسیٰؑ و خضر کے واقعے سے استدلال کیا جاتا ہے۔
سیاست مگر تصوف نہیں ہے۔کچھ لوگ اسے تصوف بنا دینا چاہتے ہیں جب کسی سیاستدان کے لبادے میں ایک ولیٔ کامل کو مستور دیکھنے لگتے ہیں۔ سیاست میں کامیابی‘ سیاسی طرزِ عمل ہی سے ملتی ہے۔تصوف کی منزل اور ہے‘ سیاست کی اور۔سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے اور اقتدار تصوف کے راستے کی دھول۔ صوفی تو اس کی طرف ایک نگاہِ غلط انداز بھی نہیں ڈالتا۔ اورنگزیب اور دارا شکوہ کی منزل ایک تھی نہ انجام ایک۔
تاریخ میں صوفی یا مرشد کا اگر اقتدار سے کوئی تعلق رہا تو وعظ و نصیحت کی حد تک۔وہ بھی اس طرح کہ کوئی بادشاہ حاضر ہوا اور اس نے نصیحت کی درخواست کی۔ ولی خود درباروں میں نہیں جاتے۔اقتدار کے متلاشی مگر ہمیشہ یہ خیال کرتے رہے کہ کسی'مرشد‘ کی نظر پڑ گئی تو یا اس نے 'انتخاب‘ کر لیا تو پھر ان پر ایوانِ اقتدارکے دروازے کھل جائیں گے۔
یہ انتخاب کیسے ہو تا ہے؟اہلِ تصوف کے نزدیک ہر دور میں کچھ رجال الغیب ہوتے ہیں۔وہی ہیں جنہیں دنیا کا اقتدار سونپ دیاجاتا ہے۔وہ حکمرانوں کے عزل و نصب کے فیصلے کرتے ہیں۔سیاستدان ان کی تلاش میں رہتے ہیں۔وہ کسی 'اللہ والے‘ کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہیں یہی وہ مردِ کامل نہ ہو جس نے فیصلہ کر نا ہے؟یہ خوش اعتقادی انہیں در در لیے پھرتی ہے۔کبھی کسی کو کندھے پہ اٹھا لیتے ہیں اور کبھی کسی کی چھڑی کی ضرب کے متمنی ہوتے ہیں۔ان گناہ گار آنکھوں نے 'مرشد‘کے کہنے پر اقتدار کے حریصوں کومزاروں کی چوکھٹ پہ سجدہ کرتے بھی دیکھا ہے۔
'مرشد‘ کا انتخاب ایک کڑی آزمائش ہے۔انتخاب غلط ہو گیا تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔نوازشریف صاحب نے ایک دور میں طاہر القادری صاحب کے روپ میں 'مرشد‘ تلاش کیا اور کندھے پہ سوار کر لیا۔بعد میں وہی ان کے رقیب کے راز دان بن گئے۔وقت نے ثابت کیا کہ سیاست میں ان کے اصل مرشد تو ضیاالحق صاحب تھے۔ضعیف الاعتقادی کا مگراپنا استدلال ہے۔وہ دل میں اس خیال کو بٹھا دیتی ہے کہ ضیا الحق صاحب کا دل پھیرنے والا کوئی'مرشدِ کامل‘ تھا۔عمران خان صاحب کے لیے پہلے جنرل پاشا اور پھرجنرل باجوہ صاحب نے وہی کام کیا جو نوازشریف صاحب کے لیے ضیاالحق صاحب نے کیا تھا لیکن شواہد یہی ہیں کہ وہ اسے کسی اور مرشد کی کرامت سمجھتے ہیں۔
'مرشد‘ صرف دعا نہیں دیتا۔یامحض یہ کارنامہ سرانجام نہیں دیتا کہ عالمِ اسباب کا رُخ آپ کی طرف موڑ دے۔وہ آپ کے لیے ایک راستے کا تعین بھی کرتا ہے۔آپ نے اگر اسے سچے دل سے مرشد مان لیا تو پھر لازم ہے کہ سوال کیے بغیر اس کی اتباع کریں۔جس میںسوال کرنے کی صلاحیت ہو‘وہ کبھی مرید نہیں بن سکتا۔ورنہ پہلا سوال تو خود مرشد کے بارے میں اٹھتا ہے کہ وہ اقتدار کے کھیل کا حصہ کیسے ہے؟دنیا اوراس کا اقتدار‘اس کے مال واسباب تو مرشدِ کامل کے لیے اشجارِ ممنوعہ ہیں۔وہ آخر ان کا پھل اپنے مرید کو کیوں کھلانا چاہتا ہے؟
'مرشد‘جب دنیا کی طرف آ نکلا ہے تو ایک سوال اور پیدا ہو گیا ہے؟ کیااس کے ساتھ کوئی ایسا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد کوئی بدنی یا سماجی تقاضا ہے؟کیا مرشد سے نکاح کیا جا سکتا ہے؟مرشد اور زوج دو مختلف رشتے ہیں اور ان کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔مرشد کی اتباع کی جاتی ہے اور زوج محلِ تسکین ہے۔مرشدکامل ہوتا ہے اور مرید ناقص۔ مرید‘مرشد کی انگلی پکڑ کر اپنی تکمیل کے مراحل طے کرتاہے۔تعلقِ ازدواج میں دونوں فریق ناقص ہوتے ہیںاور ایک دوسرے کی کمزوریوں کی تلافی کرتے ہیں۔مرشد اور زوج کو ایک رشتے میں کیسے باندھا جا سکتا ہے؟عملاً ایک ہی صورت ہے۔فریقِ ثانی تعلقِ زوجیت میں بھی مرید کا کردار قبول کر لے۔اس کی مگر ایک قیمت ہے۔بادشاہ کی گھڑی سے بھی زیادہ۔
محفوظ راستہ‘اس لیے یہی ہے کہ 'مرشد‘ کو سیاست اور سماجی رشتوں سے دور رکھا جائے۔اس سے رہنمائی لی جائے۔ اخلاقی تعلیم کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے۔تزکیۂ نفس کی منزلیں‘ اس کی معیت میں طے کی جائیں۔رہا دنیا کا اقتدارتو اس کے لیے کوئی دوسرا مرشد تلاش کیا جائے جو سیاسی وسماجی عملیات سے کماحقہٗ آگاہ ہو۔جیسے جنرل (ر) ضیا الحق۔جیسے جنرل (ر) باجوہ۔
گھڑی بیچنے جیسے دنیاوی کام مرشد کے شایانِ شان نہیں۔اگر ہم یہ کام بھی مرشد سے لیں گے تو پھر'مرشد‘ سیاسی لغت کا حصہ بن جائے گا۔اس کے مفہوم کا تعین پھر لغت نہیں سیاست کرے گی۔سیاست نے تو 'سیاست‘ کے لفظ کو‘ مدت ہوئی لغوی مفہوم سے آزاد کرا دیا۔مرشد بھی اگر سیاسی ہو گیا تو پھر اسے واپس تاریخ اور لغت میں قید کرنا مشکل ہو جائے گا۔'مولوی‘ اور'ملا‘کے الفاظ کبھی بڑے علما کے لیے بولے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ علم اور وقاروابستہ تھے۔ایک رعب تھاجو سننے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتاتھا۔ جب سے 'مولانا‘ نے سیاست کا رخ کیا‘ مولوی اور ملاکے الفاظ تاریخ اور لغت کی قید سے رہا ہو کرگلی بازار کے لونڈوں لپاڑوں کے ہتھے چڑھ گئے۔اب 'مولانا‘ اسلم رئیسانی بھی چاہیں توان کادبدبہ 'ملا‘ کی کھوئی عزت بحال نہیں کر واسکتا۔
ملا‘مولوی اور مرشد خود چاہیں تو ان الفاظ کو ان کے حقیقی معانی لوٹائے جا سکتے ہیں۔سرِ دست تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان القاب کے حقیقی مصداق اب دکھائی نہیں دیتے۔کچھ افراد نے ان الفاظ کے لبادے اوڑھ لیے ہیں اور ان کا میدان تزکیۂ نفس نہیں‘سیاست اور کاروبارہے۔وہی ہیں جن کا طرزِ عمل ان الفاظ کے معانی طے کر رہا ہے۔ اب ایک ہی صورت ممکن ہے۔جو لوگ سیاست میں ہیں وہ ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے گریز کریں‘ اگر انہیں ان کی حرمت عزیز ہے۔
شاعری میں 'مرشد‘ کی اصطلاح گوارا کی جا سکتی ہے کہ شاعری میں معانی تہ دار ہوتے ہیں۔صوفیانہ شاعری کی اپنی ایک مضبوط روایت ہے۔سیاست کا معاملہ مختلف ہے۔یہ روز مرہ کے واقعات سے عبارت ہے اور اس کے کردار حقیقی ہیں۔یہاں'مرشد‘ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔'مرشد‘کا بھرم اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب وہ ان وادیوں کا رخ نہ کرے جہاں کا چلن ہی پگڑیوں کا اچھلنا ہے۔اچھے مرید بھی وہی ہیں جو مرشد کو اس آزمائش میں نہیں ڈالتے۔