نئی نسل کو‘ اقتدار کی سیاست کے لیے تختۂ مشق بنا کر‘ جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے‘ اس کی سنگینی کا‘ افسوس کہ کسی کو اندازہ نہیں۔
دو خبریں ایک دن کے وقفے کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ راولپنڈی کے تعلیمی بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ کامیابی کی شرح 23 فیصد رہی۔ لڑکوں میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں کو تحریکِ انصاف کی سیاسی چراہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ پہلے یونیورسٹی اور اب کالج۔ طلبہ اور طالبات کو بزور جمع کیا جاتا کہ وہ عہدِ حاضر کے چے گویرا کا عہد آفریں خطاب سنیں۔ خبر ہے کہ راولپنڈی کے ایک کالج کی طالبات‘ خطاب کو تادیر برداشت نہ کر پائیں اور ہال خالی ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ کالج کی پرنسپل کو اب صوبائی حکومت کے سامنے جوابدہی کے لیے طلب کیا جا چکا ہوگا کہ انہوں نے طالبات کو جانے سے روکا کیوں نہیں اور یہ خبر جگ ہنسائی کا سبب بنی۔ان دونوں خبروں میں ربط تلاش کرنا مشکل نہیں۔ نئی نسل کا استحصال کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی انہیں سبز انقلاب اور سرخ انقلاب کے لیے‘ اہلِ سیاست نے ہراول دستہ بنانے کی کوشش کی‘ جس کے نتیجے میں درس گاہیں‘ قتل گاہوں میں بدل گئیں۔ جو سلوک مگر گزشتہ ایک عشرے میں نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے‘ اس کی نظیر اس سے پہلے موجود نہیں۔ ان کے دنیاوی مستقبل ہی کو نہیں‘ ان کے اخلاقی وجود کو جس طرح برباد کر دیا گیا ہے‘ اس نے امید کی آخری کرن بھی بجھا دی۔ ان کی سب سے عزیز متاع کو ان سے چھین لیا گیا۔
اس سے پہلے‘ چلیں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ نوجوان ایک اعلیٰ آ درش کے لیے نکلے تھے۔ ان کی شخصیت کی نظریاتی بنیادیں تھیں۔ تعمیرِ شخصیت کو اہمیت دی جاتی تھی۔ مطالعے کا ایک کلچر تھا۔ طالب علم مارکس اور مولانا مودودی کو پڑھتے تھے۔ اخلاقیات کے باب میں بھی انہیں حساس بنایا جاتا تھا‘ اگرچہ یہ اہتمام تدریجاً پس منظر میں چلا گیا۔ آج مگر کیا ہے؟ نوجوانوں کو کیا سکھایا جا رہا ہے؟ ہیجان؟ نفرت؟ گالم گلوچ؟ کیا انہیں کسی مثبت نظریے کی تعلیم دی گئی ہے؟ کیا ان کی ذہنی سطح کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے؟ کیا ان میں مطالعے کا ذوق پیدا کیا گیا ہے؟ کیا انہیں اخلاقیات کی اہمیت بتائی گئی ہے؟ کیا انہیں تعلیم کے لیے یکسو کیا گیا ہے؟
ان میںسے کسی ایک سوال کا جواب اثبات میں نہیں۔ جو سیاسی قیادت نوجوانوں کو سرکاری فنڈ سے بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ دے کر‘ دوسرں کو گالیاں دینے کے کام پر لگا دے‘ اس قیادت میں اور اس منشیات فروش میں کیا فرق ہے جو نوجوانوں کو اتنے ہی پیسے دے کر چرس بیچنے پر لگا دے؟ دونوں اپنے حقیر فائدے کے لیے نوجوانوں کا مستقبل برباد کرتے ہیں۔ دونوں‘ اپنے مفاد کے لیے ان کی سب سے قیمتی متاع‘ ان کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔ نوجوانوں میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کر نا اور انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا‘ دو مختلف کام ہیں۔ سیاسی شعور کا تعلق ذہن سے ہے۔ یہ تعلیمی اور علمی سرگرمیوں سے پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال یہ ہے کہ انہیں روزانہ سڑکوں پر اپنے جلوسوں اور جلسوں کی رونق بڑھانے کے کام پر لگا دیا جائے۔ انہیں سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے پر مامور کر دیا جائے۔ ان کی قیمتی زندگی کے لمحے لمحے میں نفرت اور ہیجان کا زہر بھر دیا جائے۔
سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے طالب علموں کی یونین ہونی چاہے جس کا انتخاب طالب علم اپنے ووٹ سے کریں۔ وہ طالب علموں کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دے۔ ان میں ادب‘ آرٹ‘ سیاست‘ مذہب‘ سب کچھ شامل ہو۔ سیاسی شعور کی پختگی کے لیے یونین مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کرے۔ طالب علم ان کے خیالات سنیں اور ان کو یہ حق دیا جائے کہ وہ شائستگی کے ساتھ ان لیڈروں سے سوالات کریں۔ شعور‘ تنقیدی نظر کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ تعلیمی ماحول جب تک اس کام کے لیے سازگار نہیں ہوتا‘ سیاسی شعور پیدا ہو سکتا ہے نہ سماجی شعور۔
نوجوان‘ ایک خالی برتن کی طرح ہیں۔ اس خالی برتن کو شر سے بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاست میں بھی اور سماجی سطح پر بھی۔ آزادی کے نام پر چلنے والی بے لگام تحریکیں‘ ان کے شعور میں کسی اضافے کا سبب نہیں بن رہیں۔ روایت اور دین و مذہب سے بیزاری کو یہاں سماجی شعور سمجھ لیا گیا‘ جس طرح گالم گلوچ اور دوسروں کے گھروں کے باہر کھڑے ہوکر آوازے کسنے کو سیاسی شعور کہا گیا ہے۔ تنقیدی شعورکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر رائج بات کو رد کر دیا جائے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ مانا جائے‘ اسے پورے شعور کے ساتھ مانا جائے۔ جسے رد کیا جائے‘ اسے بھی پورے شعور کے ساتھ رد کیا جائے۔ حکومت اگر نوجوانوں کو بیدار کرنا چاہتی ہے تو انہیں وہ تعلیمی ماحول فراہم کرے جس سے ان کی ذہنی نشو ونما ہو۔ علامہ اقبال کی فکر اس باب میں رہنما ہو سکتی ہے‘ جس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ 'جاوید نامہ‘ کی آخری نظم ہے: 'خطاب بہ جاوید‘۔ اقبال نے اسے ذیلی عنوان دیا ہے 'سخنے بہ نژادِ نو‘ (نئی نسل سے کلام)۔ ''جاوید‘‘ کلامِ اقبال میں نوجوان نسل کا استعارہ ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کو کس راستے پر چلنا چاہیے۔ اسّی برس پہلے کا نوجوان جن مسائل کا شکار تھا‘ افسوس کہ نوجوان کے مسائل بھی وہی ہیں۔
اقبال کا کہنا ہے کہ 'رقصِ تن‘ سے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔ یہ 'رقصِ جاں‘ ہے جو کائنات کو تہ و بالا کرتا ہے۔ رقصِ تن کیا ہے؟ جسمانی ہیجان‘ کھیل تماشا۔ ''رقصِ جاں‘‘ انسان کی پوری شخصیت کا متحرک ہونا اور رقص میں آنا ہے۔
علم و حکم از رقصِ جاں آید بدست
ہم زمیں ہم آسماں آید بدست
علم اور حکمت اسی وقت انسان کے ہاتھ آتے ہیں جب اس کا پورا وجود حرکت میں ہوتا ہے۔ یہی نہیں‘ پھر زمین و آسمان اس کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ حکومتیں اگر نوجوانوں سے کچھ دلچسپی رکھتی ہیں تو انہیں ایسی قوتوں کے حوالے نہ کریں جو رقصِ تن پر یقین رکھتی ہیں۔ جو یہ چاہیں کہ نوجوانوں میں ہیجان پیدا ہو اور وہ لیڈروں کی گاڑی کے آگے بھنگڑا ڈالیں اور انہیں گولیوں سے بچانے کے لیے اپنی چھاتی پیش کریں۔ اس سے زیادہ نوجوان نسل کی توہین نہیں ہو سکتی۔ اگر صوبائی حکومت کو کچھ کرنا ہے تو نوجوانوں کو 'رقصِ جاں‘ کی تعلیم دے۔ ان کے علم و حکمت میں اضافے کا اہتمام کرے تاکہ وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو کھولیں۔
میں نے چند سال پہلے اسی کالم میں ایک 'میثاقِ تعلیم‘ کی بات کی تھی۔ سیاسی جماعتیں اس پر اتفاق کریں کہ وہ طالب علموں اور تعلیمی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گی۔ وہ اپنے سٹوڈنٹ ونگز نہیں بنائیں گی۔ ان کے مقاصد جتنے نیک کیوں نہ ہوں‘ ان کے لیے نوجوانوں کا استعمال ایک قومی جرم ہو گا۔ ان کی پہلی اور آخری ترجیح صرف اور صرف تعلیم ہونی چاہیے۔ تعلیم بھی ایسی جو اِن میں تنقیدی شعور پیدا کرے تاکہ ان کا سیاسی اور سماجی شعور پختہ ہو؛ تاہم میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونے والا۔ کون سی تعلیم؟ کیسا میثاق؟
آج معیشت‘ سیاست‘ اخلاق‘ ریاستی ادارے‘ ہر شے کو اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نوجوان بطورِ خاص۔ تعلیمی اداروں میں ایک کوشش ہو سکتی تھی کہ اس نسل کی حفاظت کا کچھ انتظام کیا جاتا۔ افسوس کہ انہیں بھی سیاست کا اکھاڑا بنایا جا رہا ہے۔ ہیجان کو اب اس سطح تک پہنچا دیا گیا کہ دوست دشمن کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ جو احساسِ زیاں دلائے‘ اس کے دامن کو گالیوں سے بھرکر‘ خیر خواہی کا صلہ دیا جاتا ہے۔